ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﮨﻠﯽﮐﮯﺭﺍﺳﺘﮯﻣﯿﮟﺍﯾﮏ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ،ﺟﺲ ﺳﮯﻧﻮﺭﺣﯿﺎﺕﻧﺎﻣﯽ ﺷﺨﺺ ﺁﺗﮯﺟﺎﺗﮯﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞﮐﻮﭘﺎﻧﯽﭘﻼیا کرتا تھا۔
ﺍﯾﮏﺩﻓﻌﮧﻭﮨﺎﮞﺳﮯﮐﺴﯽﻭﻟﯽﺍﻟﻠﮧﮐﺎﮔﺰﺭ ﮨﻮﺍ،نورحیات نے انہیں بڑی تکریم کیساتھ۔۔
۱/۱
ﭘﺎﻧﯽﮐﺎﭘﯿﺎﻟﮧﭘﯿﺶﮐﯿﺎ،ﭘﺎﻧﯽﭘﯽﮐﺮﺟﺐﺩﻝ ﭨﮭﻨﮉﺍﮨﻮﺍﺗﻮﮐﮩﻨﮯﻟﮕﮯﻣﺎﻧﮓ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎﮨﮯ،ﺍُﺱ ﻧﮯﮨﺎﺗﮫﭘﮭﯿﻼﺗﮯﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﯿﮟﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﯾﮟ،انہوں نے نورحیات کی ہتھیلی پرایک کا ہندسہ ڈال دیا،اب کیا روزانہ۔۔۔
۱/۲
ﻧﻮﺭﺣﯿﺎﺕﮐﻮﺍﯾﮏﺭﻭﭘﯿﮧﻣﻨﺎﻓﻊ ﮨﻮﺗﺎﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯﺑﻌﺪﻭﮨﺎﮞﺳﮯﺍﯾﮏﺍﻭﺭﻭﻟﯽﮔﺰﺭﮮ۔انہوں نے بھی پی کر نورحیات کی ہتھیلی پرایک صفر ڈال دی،اور نورحیات کو روزانہ سو روپیہ نفع ملنا شروع ہوگیا،تھوڑے عرصے بعدوہاں سے کسی قطب کا گذر ہوا،انہوں نے بھی۔۔۔
۱/۳
پانی پی کرخوشی سےکہا،مانگو،کیا مانگتے ہو،نورحیات نےانکےآگے ہاتھ پھیلایا،تو انہوں نےایک صفرکا مزید اضافہ کردیا،اب اسےروزانہ ہزارروپیہ منافع ہوتا دن بدن اسکے حالات بدلتے گئے،اور وہ بہت مالدار ہوگیا۔اس نے کنویں کو خیرباد کہہ دیا،کچھ ہی ماہ گزرے تھے،کہ پہلےوالےدرویش واپس لوٹے۔
۱/٤
جو مسافروں کو پانی پلایا کرتے تھے۔لوگوں نے کہا حضرت،وہ یہ کار خیرچھوڑ کراپنے کاروبارمیں مشغول ہوگیا ہے،فرمانے لگے مجھے اسکے پاس لے چلو،جب اسکے ہاں پہنچے تو دیکھا کہ اسے مال ومنال نے بہت بدل دیا ہے،انہوں نے فرمایا ہاتھ مجھے دکھاؤ،جب اس نے ہاتھ آگے کیا،تو انہوں نے اپنا۔۔۔
١/٥
ڈاکٹرنذیرتبسم اپنی کتاب میں اپنی شریک حیات جو اب اس جہاں فانی میں نہیں رہیں،کے بارے میں لکھتے ہیں۔
“ایک بارایسا ہوا کہ ہم دونوں میں چھوٹی سی بات پر بڑی لڑائی ہوگئی،گھر کی بیسمنٹ میں،میں بستر پر سوتا،اور وہ نیچے زمین پر،گرمیوں کی رات تھی،ہم دونوں اپنی اپنی جگہ سوگئے۔
١/١
آدھی رات کو مجھے پیاس لگی،واٹرکولر نزدیک ہی میز پرپڑا تھا،میں نے خود اٹھ کرگلاس بھر پانی پیا،اچانک مڑکردیکھا توہ اٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی،اور عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی،غصےسے بولی۔۔۔آپ نے پانی خود کیوں پیا۔۔؟
میں نے بھی غصےاوراکڑپن سے کہا،ہاتھ پاؤں سلامت ہیں،مفلوج نہیں ہوں۔
١/٢
خود اٹھ کر پانی پی سکتا ہوں،قریب آکرمیراگریبان پکڑلیا؛بولی۔۔ایک بات غورسے سنو! لڑائی جھگڑااپنی جگہ،پر لیکن تمہیں اپنا حق اور خوشی نہیں چھیننے دونگی،پتہ ہے،آپکو پانی دیتے ہوئےمجھے کتنی خوشی ہوتی ہے،بھلے سے بات چیت بند کیوں نہ ہو،پانی آپ خودنہیں پئیں گے،اسکی آنکھیں نم ناک تھیں۔
١/٣
اگر آپ کسی کینٹ ایریا (چھاٶنی) کا وزٹ کریں،تو صفائی،آئیڈیل سڑکیں، پارکس،ہسپتال،جوگنگ ٹریکس،پلے گراٶنڈز،بچوں اورخواتین کی حفاظت،سکون،عزت نفس کی حفاظت،سستا علاج،معیاری اور سستی تعلیم کی سہولیات الغرض ہر آئیڈیل سہولت موجود ہے۔
پتہ ہے کیوں ؟
کیونکہ وہاں آمریت ہے۔
جاری۔۔۔
اب ذرا دوسری طرف آئیے۔۔۔
ٹوٹی سڑکیں،بند گٹر،بڑے شہروں میں لاکھوں ٹن کچرا،تجاوزارت،صحت و تعلیم کی سہولیات کا فقدان، پلے گراٶنڈز ندارد، تھانوں میں غنڈہ راج، پٹواری کلچر،بچوں کیساتھ آۓ روز جنسی زیادتی،بچے اورخواتین غیر محفوظ،اقربا پروری،کرپٹ مافیا کا راج، بے ہنگم ٹریفک۔
جاری۔۔۔
انصاف ندارد،ہر بنیادی سہولتوں کا فقدان.
پتہ ہے کیوں ؟
اسلیۓ کہ کینٹ سے باہر جمہوری حکومت کا کنٹرول ہے۔
جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں،جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں،اب سوال یہ بنتا ہے کہ سول حکومت کو کس جرنیل نے عوامی بہبود اور عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے سے روکا ہے؟
جاری۔۔۔
ہمارے ایک دوست ڈاکٹر صاحب نے ایک مرتبہ اپنی طالبعلمی کے زمانے کا بڑا دلچسپ واقعہ سنایا۔ہوا یوں کہ انہیں اور ان کے ایک کلاس فیلو کو نشتر میڈیکل کالج کی ڈسپلنری کمیٹی نے کسی لڑائی جھگڑے میں ملوث ہونے کی بناء پر کالج بدر کر دیا۔
جاری۔۔۔
ان دونوں کو علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں رپورٹ کرنے کے لئے کہا گیا جہاں کے پرنسپل مرحوم ڈاکٹر افتخار احمد صاحب تھے جو کمال کی حس ظرافت کے مالک تھے۔انھوں نے ان دونوں کو اپنے والدین اور اپنی بتیس بتیس پاسپورٹ سائز تصاویر بھی ہمراہ لانے کو کہا۔
جاری۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق انہوں نے گاؤں سے کسی شخص کو بلایا اور پگ شگ پہنا کر پرنسپل صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔
پرنسپل صاحب نے ان والد صاحب سمیت دونوں کی بڑی کلاس لی۔والد بنے ہوئے شخص نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ سر یہ بتیس بتیس تصویریں کیوں بنوائی ہیں؟
جاری۔۔۔