"سرن" انسانی تاریخ کا سب سے انوکھا "پروجیکٹ"!!!
"سرن تاریخ کا سب سے بڑا انسانی معجزہ ہے‘ آپ اگر انسانی کوششوں کی معراج دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ زندگی میں ایک بار سرن ضرور جائیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے لیکن سرن ہے کیا؟ ہمیں یہ جاننے سے قبل کائنات کے چند بڑے حقائق جاننا ہوں گے۔
ہماری کائنات 13ارب 80 کروڑ سال پرانی ہے‘ زمین کو تشکیل پائے ہوئے پانچ ارب سال ہو چکے ہیں‘ ہماری کائنات نے ایک خوفناک دھماکے سے جنم لیا تھا‘ یہ دھماکہ بگ بینگ کہلاتا ہے‘ بگ بینگ کے بعد کائنات میں 350ارب بڑی اور 720 ارب چھوٹی کہکشائیں پیدا ہوئیں‘ ہر کہکشاں میں زمین سے کئی گنا بڑے
اربوں سیارے اور کھربوں ستارے موجود ہیں‘ یہ کائنات ابھی تک پھیل رہی ہے‘ یہ کہاں تک جائے گی‘ یہ کتنی بڑی ہے اور اس میں کتنے بھید چھپے ہیں ہم انسان تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس کا صرف 4فیصد جانتے ہیں‘ کائنات کے96فیصد راز تاحال ہمارے احاطہ شعور سے باہرہیں۔
یہ96 فیصد نامعلوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں‘ 44فیصد حصہ وہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اسے نہیں جانتے‘ سائنس دان اس 44 فیصد حصے کو ’’ڈارک میٹر‘‘ کہتے ہیں‘ یہ ڈارک میٹر سپر انرجی ہے‘ ہمارا سورج اس انرجی کے سامنے صحرا میں ذرے کے برابر ہے‘ سائنس دان کائنات کے باقی
52 فیصد نامعلوم کے بارے میں کہتے ہیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم اسے نہیں جانتے‘ ہمیں کائنات کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد سمجھنا ہو گی۔
یہ جاننا ضروری ہے بگ بینگ کیسے اور کیوں ہوا تھا اور اس کے فوری بعد کیا ہوا تھا جس سے کائنات نے جنم لیا ‘ انسان کے پاس
یہ حقیقت جاننے کے لیے دو طریقے ہیں‘ ہم کوئی ایسی ٹائم مشین بنائیں جو ہمیں 13ارب 80 کروڑ سال پیچھے اس وقت میں لے جائے جب بگ بینگ ہوا اور کائنات وجود میں آنے لگی‘ یہ ظاہر ہے ممکن نہیں‘ دوسرا طریقہ ‘سائنس دان لیبارٹری میں ’’بگ بینگ‘‘ کریں اور کائنات کی پیدائش کے پورے عمل کا
مشاہدہ کر لیں‘ یہ طریقہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں چنانچہ سائنس دانوں نے 1952ء میں اس پر کام شروع کر دیا۔
اس نادر کام کے لیے جنیواکے مضافات میں فرنے میں جگہ تلاش کی گئی اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس دونوں نے مل کر لیبارٹری بنانا شروع کر دی‘ یہ لیبارٹری سرن کہلاتی ہے‘ یہ کام دو ملکوں اور
چند سو سائنس دانوں کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ آہستہ آہستہ دنیا کے 38 ممالک کی 177 یونیورسٹیاں اور فزکس کے تین ہزار پروفیسر اس منصوبے میں شامل ہو گئے‘سائنس دانوں نے پہلے حصے میں زمین سے 100 میٹر نیچے 27کلو میٹر لمبی دھاتی سرنگ بنائی۔
اس سرنگ میں ایسے مقناطیس اتارے گئے جو کشش
ثقل سے لاکھ گنا طاقتور ہیں‘ مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان دھات کا 21 میٹر اونچا اور 14 ہزار ٹن وزنی چیمبر بنایا گیا‘ یہ چیمبر کتنا بھاری ہے آپ اس کا اندازہ آئفل ٹاور سے لگا لیجیے‘ دنیا کے سب سے بڑے دھاتی اسٹرکچر کا وزن 7 ہزار تین سوٹن ہے‘ سرن کا چیمبر اس سے دگنا بھاری ہے‘
اس چیمبر کا ایک حصہ پاکستان کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں بنا اور اس پر باقاعدہ پاکستان کا جھنڈا چھاپا گیا‘ سائنس دانوں کے اس عمل میں چالیس سال لگ گئے‘ یہ چالیس سال بھی ایک عجیب تاریخ ہیں۔
ملکوں کے درمیان اس دوران عداوتیں بھی رہیں اور جنگیں بھی ہوئیں لیکن سائنس دان دشمنی‘ عداوت‘ مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر سرن میں کام کرتے رہے‘ یہ دن رات اس کام میں مگن رہے‘ سائنس دانوں کے اس انہماک سے بے شمار نئی ایجادات سامنے آئیں مثلاً انٹرنیٹ سرن میں ایجاد ہوا تھا‘ سائنس دانوں
کوآپس میں رابطے اور معلومات کے تبادلے میں مشکل پیش آ رہی تھی چنانچہ سرن کے ایک برطانوی سائنس دان ٹم برنرزلی نے 1989ء میں انٹرنیٹ ایجاد کر لیا یوں www(ورلڈ وائیڈ ویب) سرن میں ’’پیدا‘‘ ہوا اور اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
سٹی اسکین اور ایم آر آئی بھی اسی تجربے کے دوران ایجاد ہوئی ‘ سرن میں اس وقت بھی ایسے سسٹم بن رہے ہیں جو اندھوں کو بینائی لوٹا دیں گے‘ ایک چھوٹی سی چپ میں پورے شہر کی آوازیں تمام ڈیٹیلز کے ساتھ ریکارڈ ہو جائیں گی‘ ایک ایسا سپرالٹرا ساؤنڈ بھی مارکیٹ میں آرہا ہے جو موجودہ الٹرا
ساؤنڈ سے ہزار گنا بہتر ہوگا ‘ ایک ایسا لیزر بھی ایجاد ہو چکا ہے جو غیر ضروری ٹشوز کو چھیڑے بغیر صرف اس ٹشو تک پہنچے گا جس کا علاج ہو نا ہے‘ ایک ایسا سسٹم بھی سامنے آ جائے گا جو پورے ملک کی بجلی اسٹور کر لے گا اور سرن کا گرڈ کمپیوٹر بھی عنقریب مارکیٹ ہو جائے گا‘ یہ کمپیوٹر پوری
دنیا کا ڈیٹا جمع کرلے گا۔
یہ تمام ایجادات سرن میں ہوئیں اور یہ اس بنیادی کام کی ضمنی پیداوار ہیں‘ سرن کے سائنس دان اس ٹنل میں مختلف عناصر کو روشنی کی رفتار (ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ) سے لگ بھگ اسپیڈ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور پھر تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ یہ عناصر
ایٹم سے اربوں گنا چھوٹے ہوتے ہیں‘ یہ دنیا کی کسی مائیکرو اسکوپ میں دکھائی نہیں دیتے‘ سائنس دانوں نے 2013ء میں تجربے کے دوران ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جو تمام عناصر کو توانائی فراہم کرتا ہے‘ یہ عنصر ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کہلایا‘ اس دریافت پر دو سائنس دانوں پیٹر ہگس اور فرینکوئس
اینگلرٹ کونوبل انعام دیا گیا‘ یہ دنیا کی آج تک کی دریافتوں میں سب سے بڑی دریافت ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے‘ یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے‘ یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو ’’اینٹی میٹر‘‘ کہتے ہیں‘یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے
‘کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربوں حصے میں فنا ہو جاتا ہے‘ سرن کے سائنس دانوں نے چند ماہ قبل اینٹی میٹر کو 17 منٹ تک قابو رکھا ‘ یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا‘ یہ لوگ اگر ’’اینٹی میٹر‘‘ کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت
چند سیکنڈز میں پوری ہو جائے گی‘ دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی‘سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا براجیکٹ ہے اور سائنس دان یہ مشکل کام پچھلے 68سال سے کر رہے ہیں۔
"کاپی" "منقول"
مختصرمعلوماتی اسلامی اورتاریخی اردوتحریریں پڑھنےکیلئےاکاؤنٹ فالولازمی کریں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
صبر اور ترقی
ایک استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک خوب صورت ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی :
’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘
یہ کہہ کہ وہ کلاس روم سے نکل گئے۔
چند لمحوں کے لئے کلاس میں خاموشی چھا گئی، ہر بچہ اپنے سامنے پڑی ٹافی کو بےتابی سے دیکھ رہا تھا
اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے لئے خود کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔
دس منٹ پورے ہوئے اور استاد نے آ کر کلاس روم کا جائزہ لیا، پوری کلاس میں سات بچے ایسے تھے، جن کی ٹافیاں جوں کی توں تھیں، جبکہ باقی تمام بچے ٹافی کھا کر اس کے رنگ اور ذائقے پر تبصرہ کر رہے تھے۔
استاد نے چپکے سے
ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کئے اور پڑھانا شروع کر دیا۔
اس استاد کا نام پروفیسر والٹر مشال تھا.
کچھ سالوں بعد استاد نے اپنی وہی ڈائری کھولی اور ان سات بچوں کے نام نکال کر ان کے بارے میں تحقیق شروع کی۔
کافی جدوجہد کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی
یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران کامیابی کے متعلق پڑھاتے ہوئے، ایک پروفیسر نے، ایک نظریہ بیان کیا، جو شاید اطلاقی سائنس سے متاثر ہے، وہ درج ذیل ہے:
اگر انگریزی حروف تہجی کی ترتیب درج ذیل ہے:
A B C D E F G H I J K L M N O P Q R S T U V W X Y Z
ان کی عددی ترتیب حسب ذیل ہے:
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26
اگر زبان کے ہر حرف کو اس کے حروف تہجی کی ترتیب کی بنیاد پر وزن دیا جائے ، یعنی مثال کے طور پر، پہلے حرف A کا وزن 1 کے برابر ہے، اور آخری حرف Z کا وزن 26 کے برابر ہے، تو:
آپ یقین کریں یا نہ کریں ..
1987ء میں امریکی شہری سٹیون روتھسٹین نے امریکن ایئر لائنز کی پرکشش پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گولڈن ٹکٹ خرید لیا ۔ جس کی قیمت $250,000 تھی۔
اس گولڈن ٹکٹ کے ذریعے امریکن ایئر لائن سے دنیا بھر میں فرسٹ کلاس سفر مفت کیا جاسکتا تھا اور وہ بھی تاحیات.
اس کے علاوہ اس ٹکٹ کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ گولڈن ٹکٹ کا مالک جب بھی چاہے وہ اپنے ساتھ کسی بھی ایک شخص کو سفر پر مفت لے جاسکتا ہے، اور دوسرے شخص کے لیے اس ٹکٹ کی قیمت $150,000 تھی اس نے گولڈن ٹکٹ کے ساتھ یہ ٹکٹ بھی خرید لیا ۔
پھر ہوا یوں کہ اسٹیو نے اسی
گولڈن ٹکٹ پر 10,000 سے زیادہ بار ہوائی سفر کیا ۔
کبھی اس کا دل کرتا کہ فلاں ملک کے کسی خاص اور مشہور ریستوران کا سینڈوچ کھایا جائے، یا کسی دور دراز کے ملک میں بننے والی مشہور برانڈ کی آئسکریم وہاں جاکر کھائی جائے، یا دنیا بھر میں ہونے والے کسی بھی کھیل کے مقابلے کو وہاں
جلد بازی مت کیجئے ۔۔۔
ایک ٹیچر کہتی ہیں :
میں نے طالبات کی ایک ٹیم کو سال کے آخر میں ایک پروگرام میں انکی ماؤں کے سامنے ایک نظم پیش کرنے کیلیے ٹرینڈ کیا ، تیاری اور ریہرسل کے مختلف مراحل کے بعد بالآخر پروگرام کا دن آ گیا
نظم شروع ہوئی. مگر ان کی اس خوبصورت کارکردگی پر اس
وقت پانی پھر گیا جب ایک بچی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھ رہی تھی اچانک اپنے ہاتھ، جسم اور انگلیوں کو حرکت دینے لگی اور اپنا منہ کسی کارٹون کے کیریکٹر کی طرح بنانے لگی.
اس کی ان عجیب وغریب حرکتوں کی وجہ سے دوسری تمام بچیاں پریشان ہو گئیں
ٹیچر کہتی ہیں:
میرا جی چاہا کہ
میں جاکر اس بچی کو ڈانٹ پلاؤں اور اسے تنبیہ کروں کہ وہ ڈسپلن اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے مجھے اس پر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا کہ میں اسے سختی کے ساتھ ان بچیوں سے کھینچ کر الگ کر دوں لیکن جوں جوں میں اس کے قریب جاتی وہ پارے کی طرح چھٹک کر مجھ سے دور ہو جاتی اس کی یہ حرکتیں بڑھتی
کیا آ پ انیسویں صدی کا دو چہروں والےشخص کے بارے جانتے ہیں جس نے اپنے دوسرے چہرے کی وجہ سے 23 سال کی عمر میں خودکشی کرلی تھی۔
دنیا میں عجیب الخلقت انسانوں کی کئی کہانیاں مشہور ہیں ۔انہیں میں سے ایک پر اسرار کہانی ایڈورڈ مورڈریک کی ہے جس کے سر کی اگلی اور پچھلی دونوں طرف چہرے تھے
اور اگرچہ عقبی جانب والا چہرہ بولتانہیں تھا لیکن سرگوشیاں اور آنکھوں سے اشارے ضرور کرتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ایڈورڈ برطانیہ کے ایک نواب خاندان میں پیدا ہوا اور اگرچہ وہ سامنے سے دیکھنے پر بہت خوش شکل نظرآتا تھا لیکن اس کے سر کے پچھلی طرف والا چہرہ بہت بدشکل تھا۔اس کا ایک چہرہ
اس کے سر کے پیچھے تھا لیکن یہ سر کے پیچھے والا چہرہ نہ کھاتا تھا نہ پیتا تھا۔یہ صرف روتا اور ہنستا تھا۔
ایڈورڈ نے کافی دفعہ ڈاکٹروں سےگزارش کی کہ میرے سر کے پچھلی جانب والا چہرہ آپریشن کرکے ہٹا دیں یہ رات کومجھے سونے نہیں دیتا یہ رات کو خوفناک قسم کی سرگوشیاں کرتا ہے۔لیکن
السلام علیکم!!
کبھی کبھی مجھے بہت دکھ اور تکلیف ہوتی ھے ۔
جب ہم لوگ بات کو سمجھنے کی بجائے
"بحث برائے بحث"
میں الجھ جاتے ہیں فقط
اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کے لئے
میرا آپ لوگوں کے ساتھ "تحریروں" کا
شیئر کرنے کا مقصد صرف یہی ھے کے
اس تحریر کے اچھے پہلووں سے آپکو کُچھ سیکھنے کا
موقع مل سکے۔
لیکن انتہائی کوشش کے باوجود جب میں آپ لوگوں کو ایک اچھی تحریر کے نیچے بغیر کسی وجہ کے بحث کرتے دیکھتا ہوں تو یقین جانئے دل بہت اُداس ہوتا ھے ۔
کوشش کیجیے
اپنی زندگی میں پازٹوٹیی کو شامل کرنے کی
تنقید لازمی کیجیے لیکن اتنی بھی نہ کیجیے کے آپ کی پرسنلٹی کے اچھے پہلووں
کو بھی چھپا دے۔
یقین جانئے
کبھی کبھی الفاظ کا چنائو ہمیں
دوسروں سے جدا کر دیتا ھے۔
خوش رہیں۔