ShafiqUrRehman Profile picture
Dec 31, 2020 37 tweets 8 min read Read on X
کل شوکت خانم ہسپتال میں پیش انے والے واقعے کی تفصیلی روداد
گزشتہ رات شوکت خانم ہسپتال میں میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا من و عن لکھ رہا ہوں۔ایک لفظ کا بھی مبالغہ کئے بغیر۔
گزشتہ روز دن دو بجے میں ماڈل ٹاؤن کچہری میں جج میڈم اقصی (مجسٹریٹ تھانہ جوہر ٹاؤن) کی عدالت میں تھا۔1
ان لائن فراڈ کے ایک کیس میں مدعی کیطرف سے موجود تھا۔ گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کیلئے عدالت میں موبائل سائلنٹ ہوتا ہے۔2 بج کر 22 منٹ پر ایک نامعلوم نمبر سے کال ائی۔عدالت میں ہونے کی وجہ سے ریسیو نہیں کر سکا۔ایک منٹ بعد مجھے میسج موصول ہوتے ہیں کہ بھائی ایمرجنسی ہے
2
کال ریسیو کریں۔2:25 پر مجھے اسی نمبر سے پھر کال آتی ہے۔ میں اب عدالت سے فری ہوں کال ریسیو کرتا ہوں۔
ایک خاتون بڑی پریشانی کی حالت میں بولتی ہیں کہ طاہر بھائی اوپر خدا اور نیچے آپ ہیں۔ بڑی امید اور آسکے ساتھ اپکو فون کیاہے میرے والد بزرگ اور بیمار ہیں۔ہم بہنیں اسوقت مصیبت میں ہیں3
ہماری مدد کیجیے
میں نے پوچھا جی بتائیے ایشو کیا ہے
بولیں، میری چھوٹی بہن شوکت خانم ہسپتال میں ایک شاپ پر کام کرتی تھی۔ اس نے کچھ عرصہ قبل یہاں سے کام چھوڑ دیا تھا۔4،3 دن پہلے بہن کو ہسپتال سے کال آئی آپ کچھ ہفتے آڈٹ رپورٹ نہیں جمع کراتی رہیں۔حساب میں ڈیڑھ لاکھ روپے کم آرہے ہیں
4
بہن نے کہا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میں حساب پورا کر کے دے کر آئی تھی۔ لیکن آپ پھر بھی اپنی مزید تسلی کریں۔ میں حاضر ہوں۔ انہوں نے کل پھر فون کر کے کہا کہ آپ آج ہسپتال ائیں۔ میری بہن چلی گئیں۔
خاتون کا کہنا تھا جب بہن کافی دیر واپس نہیں آئی تو میں نے اس سے رابطہ کیا۔
5
اسکاکہنا تھا کہ وہ لوگ آنے نہیں دے رہے۔کہتے ہیں حساب میں ڈیڑھ نہیں ڈھائی لاکھ روپے کم ا رہے ہیں۔وہ پورے کر کے جائیں
میں نے ان خاتون کو کہا کہ یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے۔بہن کو کہیں کہ اٹھ کر گھر اجائے وہاں جو بندہ اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اسے کہیں کہ آپ قانونی فورم پر چلے جائیں
6
ان خاتون کو کچھ تسلی دے کر بات ختم ہوگئی۔ میں پھر مصروف ہوگیا۔2 بج کر 38 منٹ پر اسی نمبر سے مجھے پھر کال ائی۔ میں ریسیو نہیں کر سکا۔ ایک منٹ بعد مجھے پھر میسجز موصول ہوئے کہ بھائی برائے مہربانی کال ریسیو کیجیے۔ فری ہو کر چند منٹ بعد پورے 3 بجے میں نے اس نمبر پر خود کال کی۔
7
آواز کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے کال منقطع ہوئی اور پھر خاتون نے خود کال کی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی شوکت خانم ہسپتال آگئی ہیں۔ لیکن یہاں تو صورتحال مزید گھمبیر ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ دکان کے حساب میں 24 لاکھ روپے کی کمی ا رہی ہے۔ یہ تو اوسان خطا کر دینے والی بات ہے۔
8
میں خود ایک سرکاری ٹیچر ہوں۔ میں نے ان لوگوں سے کہا ہے کہ دکان میں سارا سامان اتنے کا نہیں ہو گا جتنا آپ خسارہ بنا رہے ہیں۔شاپ پر جتنا سامان ہے،4،3 بار بھی اتنا مزید ڈالیں تو 24 لاکھ کا پھر بھی نہ بنے۔ آپ لوگ کیا بات کر رہے ہیں۔ آپ ہمیں جانے دیں۔ الزام نہ لگائیں۔
9
کیس کرنا ہے تو کر دیں ہم فیس کر لیں گے۔ لیکن طاہر بھائی وہ لوگ تو اب مجھے بھی نہیں نکلنے دے رہے۔ کہتے ہیں پیسے پورے کرو پھر جانے دیں گے۔
یہ سب سن کر میں کچھ حیران ہوا کہ یہ شوکت خانم کی انتظامیہ ایسا کیسے کر سکتی ہے۔کرپشن کا کوئی کیس ہے بھی تو اسے کسی قانونی فورم پر رپورٹ کریں
10
پولیس وغیرہ۔ خود محبوس کیسے رکھ سکتے ہیں۔ اور وہ بھی خواتین کو جن کو حراست میں رکھنے کا اختیار تو عام تھانے کی پولیس کو بھی نہیں ہوتا۔
میں نے ان خاتون کو کہا کہ ان سے اعتماد سے بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ ہمیں اس طرح نہیں روک سکتے۔ ہمیں گھر جانے دیں۔
11
ان بہن کو ایک بار پھر تسلی دے کر فون بند ہوگیا۔
شام 7:31 پر مجھے پھر اسی نمبر سے کال ائی۔ میں ابھی ہائیکورٹ کے پاس اپنے دفتر میں ہی موجود تھا اور گھر نکلنے کی تیاری کر رہا تھا۔ مجھے تھا کہ ان خاتون کا مسئلہ حل ہو گیا ہوگا۔ یہ دونوں بہنیں گھر چلی گئی ہوں گی اور
12
اب آئندہ کے لائحہ عمل کیلئے مشورہ کرنا چاہ رہی ہوں گی۔ لیکن اس وقت میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب ان خاتون نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ طاہر بھائی یہ لوگ ہمیں نہیں چھوڑ رہے۔ میں ایک سرکاری ٹیچر ہوں۔ اس بات کا بھی لحاظ نہیں کر رہے۔ دن سے ہمیں یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔
13
میں یہ سن کر تو شدید صدمے میں تھا۔ کہ شوکت خانم پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں واقع ہے۔ یہاں کی انتظامیہ بھی بہترین پڑھی لکھی اور معاملہ فہم ہو گی۔ یہ کوئی پسماندہ علاقہ بھی نہیں کہ جہاں خواتین کو اس طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہو۔ میں نے ان خاتون سے کہا کہ
14
میں بس تھوڑی دیر میں آفس سے نکل رہا ہوں۔ پتہ نہیں آپ مجھے جو بات بتا رہی ہیں۔ سچ ہے یا معاملہ کچھ اور ہے۔ آپ اصرار کر رہی ہیں تو میں ہسپتال کا چکر لگا لیتا ہوں۔ انتظامیہ سے بات کر کے شاید معاملہ بہتر سمجھ آئے مجھے۔ میں ا رہا ہوں۔
15
میں تھوڑی دیر بعد 8 بجے ہائیکورٹ کے قریب اپنے دفتر سے نکلا۔ خاتون کو کال کی اور سیدھا شوکت خانم ا گیا۔میں تقریبا ساڑھے 8 بجے شوکت خانم پہنچا۔ خاتون کو کال کی اور ایک سکیورٹی گارڈ کی معیت میں اندر، غالبا یہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ تھا، چلا گیا۔
16
واضح رہے اس سے پہلے میں نے راستے میں ہی دوران سفر اس ایشو سے متعلق چند لائنیں لکھیں اور اپنی فیس بک وال پر شیئر کر دیں۔کہ یہ معاملہ ہے اور میں شوکت خانم ہسپتال جا رہا ہوں۔ یہ چند لائنیں میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر لکھیں۔ اس دوران میں نے اپنے دو دوستوں کو بھی معاملے کا بتایا کہ
17
میں اس ایشو میں وہاں جا رہا ہوں۔ میرے ساتھ صرف میرا آفس بوائے تھا۔ میں نے اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ پتہ نہیں اصل معاملہ کیا ہے۔ تاہم اگر خواتین کیساتھ زیادتی والا کوئی معاملہ ہوا اور بات نہ سنی گئی تو میں اس سب بات چیت کی ویڈیو ریکارڈ کر لوں گا۔
میں وہاں جا کر بیٹھا تو
18
غالبا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے ایک دو صاحبان ائے۔ پوچھا آپ کون۔ میں نے تعارف کرایا اور کہا کہ بھائی آئیں بیٹھ کر بات کریں۔ کیا ایشو ہے یہ۔ میں ان خواتین کا وکیل ہوں۔ مجھے سمجھا دیں کیا معاملہ ہے سب۔ تاکہ ہم اپنی قانونی پروٹیکشن کیلئے کچھ کر سکیں۔
19
یہ صاحبان کسی بڑے کو لانے کیلئے وہاں سے چلے گئے۔ بڑے تو نہیں ائے، 5،4 سکیورٹی گارڈز ا گئے۔ کہا کہ آپ یہاں سے جائیں۔ آپ یہاں نہیں ا سکتے۔ آپ اجازت کے بغیر اندر آئے ہیں۔ میں نے کہا بھائی مجھے آپ میں سے ہی ایک سکیورٹی گارڈ اس کمرے تک خود لایا ہے۔
20
اپنے کیمروں کی فوٹیج نکال کر دیکھ لیجیے۔ ورنہ میں تو شاید پہلی بار شوکت خانم آیا ہوں۔مجھے تو اندر آپ کے اس کمرے کے راستے کا بھی نہیں پتہ۔تاہم یہ لوگ کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھے
میری ان سے درخواست یہی تھی اگر ان میں سے کسی نے کوئی جرم کیا بھی ہے تو متعلقہ فورم پولیس ہے یا عدالت
21
آپ انہیں نہیں بٹھا سکتے۔ سارادن ہو گیا۔ انہیں جانے دیں۔ میں اس دوران ان صاحبان کو سر سر کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔ میری گفتگو میں ایک بھی لفظ بدتمیزی کا نہ تھا۔چند سیکنڈ کی ریکارڈ ہونے والی ویڈیو میں بھی مجھے سنا جا سکتا ہے۔لیکن یہ لوگ سننے کو تیار نہ تھے۔
22
جب مجھے لگا کہ یہ لوگ زور زبردستی کر کے مجھے باہر نکالنا چاہتے ہیں تو اچھی قسمت کہ فوری فیس بک لائیو ان کر لیا۔ چند سیکنڈ کی ویڈیو میں محبوس خواتین سامنے بیٹھے نظر آ رہی ہیں۔ اور پھر ان لوگوں نے مجھ سے میرا موبائل چھین لیا۔ اور مجھے دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہ
23
دیکھیں اب ہم آپ کا کیا حال کرتے ہیں۔ آپ نے پرائیویسی بریچ کی ہے۔ ویڈیو بنائی ہے۔ اسے ڈیلیٹ کریں۔
اچھا یہ ہوا کہ جب انہوں نے مجھ سے موبائل چھینا میں موبائل کو لاک کر چکا تھا۔ ویڈیو یہ لوگ اب خود ڈیلیٹ نہیں کر سکتے تھے۔
24
6 سکیورٹی گارڈز اور انتظامیہ کے 4 لوگوں نے اب الٹا مجھے یرغمال بنا لیا تھا۔اس دوران میں یہاں کمرے اور ہال میں دیکھ چکا تھا ہر طرف کیمرے موجود تھے۔ مطلب یہ کہ نہ صرف ہماری حرکات و سکنات بلکہ بات چیت کی ویڈیو بھی ریکارڈ ہوئی ہوگی۔ ایک ایک سیکنڈ کی ویڈیو نکال کر دیکھا جا سکتا ہے
25
میری کہانی کا بتایا ہوا ایک لفظ بھی غلط یا خود سے گھڑا ہوا ہو تو میں مجرم ہوں گا۔
یہ لوگ میرے لئے اب پولیس کو بلا چکے تھے۔ میرے پاس ایک چھوٹا موبائل (جاز ڈیجٹ نمبرز والا) جیب میں موجود تھا۔ میں بھی 15 پر کال کر چکا تھا کہ یہاں خواتین کو یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ پولیس ائی
26
دونوں طرف سے کہانی سنی۔ انتظامیہ سے کچھ خاص کہانی بنی نہیں۔ مجھے پولیس والوں کے ساتھ الگ انتظار کرنے کو کہا گیا۔ معاملہ بگڑتا اور خود کے گلے پڑتا ہوا نظر آیا تو ہمیں بتائے بغیر خواتین کو پچھلے گیٹ سے نکال دیا گیا۔ چند منٹ بعد میں بھی پولیس والوں کے ساتھ باہر ا گیا۔
27
میرا موبائل مجھے واپس مل گیا۔ ابھی میں دوستوں کے ساتھ شوکت خانم کے مرکزی دروازے کے باہر ہی کھڑا تھا کہ ان ہی خاتون کی 10:04 پر ایک بار پھر کال ائی۔ کہ بھائی ہم گھر پہنچ چکی ہیں۔ ان لوگوں نے ہمیں پچھلے دروازے سے نکال دیا تھا۔ آپ کہاں ہیں۔ میں نے پوچھا آپ خیریت سے تو ہیں؟
28
کوئی ایشو تو نہیں ہوا؟ کہنے لگیں نہیں کچھ نہیں ہوا۔ بس وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اب دیکھو تم لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ بس انتظار کرو۔ یہ خاتون اب ڈری ہوئی تھیں کہ بھائی میری سرکاری ملازمت ہے۔ روزی روٹی کا یہی ایک وسیلہ ہے۔
29
بہن کو بچاتے کہیں یہ لوگ مجھے ہی کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔
میں نے ایک بار پھر ان خاتون کو تسلی دی اور گھر اگیا۔ مشورے کے بعد قانونی کارروائی کریں گے۔
30
کہا ی مختصر، گزشتہ رات سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا میں رات کو ملک کے سب سے ترقی یافتہ صوبے کے سب سے ترقی یافتہ شہر کے سب سے اچھے ہسپتال میں موجود تھا یا کسی جنگل میں؟
ہم انسان ہیں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سوا کسی بھی شخص یا ادارے کو کون اختیار دیتا ہے کہ 31
اس طرح کسی کو بھی محبوس رکھیں اور وہ بھی خواتین کو اور غنڈہ گردی کریں؟
خواتین ملزمان کو تو روایتی تھانے میں رکھنے کی بھی قانونا اجازت نہیں ہے۔ یہ کیسے پڑھے لکھے لوگ تھے جو اس طرح دیدہ دلیری سے سارا دن خواتین کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں اور
32
پوچھنے پر شرمندہ ہونے کی بجائے الٹا بدمعاشی پر اتر آتے ہیں اور پولیس کو بلاتے ہیں۔
میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ میری اس تحریر کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔اپنی فون کالز ہسٹری، میسجز شیئر کر رہا ہوں۔ میرا کل ان اوقات کا کال ڈیٹا نکلوا کر چیک کروایا جائے۔
33
کل دن صبح سے رات 10 بجے تک کا ہسپتال کے اس حصے کا کیمروں کا ریکارڈ نکلوا کر چیک کیا جائے۔ کیوں ان خواتین کو پورا دن یرغمال بنائے رکھا گیا؟
34
عمران خان صاحب! اب تو آپ وزیراعظم بھی ہیں۔ اور اس ہسپتال کے فاؤنڈر اور سربراہ بھی۔ کیا آپ نوٹس لیں گے؟
کچھ اس معاملے کی انکوائری کرائیں گے؟

طاہر چودھری، ایڈووکیٹ
34🔗🔒🔒
میرا آخری نوٹ
واقعہ پڑھنے سے پہلے سمجھ لیجیے کہ یہ واقعہ ایک وکیل کے ساتھ پیش آیا اور وکیل کا رعب عام آدمی سے کچھ زیادہ ہوتا ہے
1
مجھے ایک عام شہری کی حیثیت سے قانون سے انصاف کی توقع تو بالکل بھی نہیں لیکن امید کرتے ہیں انصاف ضرور ملے گا
طاہر چودھری، ایڈووکیٹ ہائیکورٹ،لاہور۔
03336669850.
2🔗🔗

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with ShafiqUrRehman

ShafiqUrRehman Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @u39399460

May 19, 2023
زرائع کی طرف سے اہم معلومات ملی ہیں
9 مئی کو پورے پاکستان میں چھوٹے بڑے شہروں میں باہر نکلنے والے افراد کی کل تعداد 44937 تھی۔ سب سے زیادہ افراد لاہور میں نکلے جن کی تعداد چار مقامات پر سات ہزار سے زائد رہی۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کی کل تعداد 16028 تھی۔

1
دہشت گردوں کا کنٹرول 19 مختلف مقامات سے 54 مختلف لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ تمام دہشت گرد کارروائیوں کو کنٹرول کرنے والے یہ تمام افراد 6 مرکزی افراد کو لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دے رہے تھے۔ یہ چھ مرکزی افراد ایک سابق ائرفورس کے اہلکار کے ذریعے تمام رپورٹ کسی مخصوص شخص تک پہنچا رہے تھے۔

2
16028 دہشت گردوں میں سے سی سی ٹی وی وڈیوز ، تصاویر اور دیگر ذرائع سے 13934 افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔ ان 13934 افراد میں سے اب تک ملک بھر سے 8911 افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ جی ایچ کیو ، کور کمانڈر ہاؤس ، میانوالی اور
3
Read 15 tweets
May 19, 2023
ہندوستانی فوجی آفیسر کرنل لال چند لکھتے ہیں۔کہ کارگِل میں ایک پوسٹ سے پاکستانی فوجی پسپا ہورہی تھی.اور گرین ٹریک سوٹ میں ملبوس خوبصورت جوان اُس مورچے پر 3 دن ڈٹا رہا.دیکھنے میں عام فوجی نہیں لگ رہا تھا.
جب ھم نے چاروں اطراف سے اُس گھیر لیا
1
تو میجر چاریہ نے زوردار آواز میں اُس کو ہندی میں کہا تُم چاروں اطراف سے ھمارے گھیرے میں ہو۔ہھتیار پھینک دو۔

اُس جوان نے چیتے کی تیزی سے ھماری طرف مُڑ کہا۔
مسلمان کی شان نہیں۔کہ وہ ہھتیار پھینکے
ھم تقریباً 40 فوجیوں نے گھیرے کو تنگ کرتے ہوٸے قریب پہنچے
2
اور حکمتِ عملی کے تحت (<.<<<<<<)........فاٸرنگ کرکے اُس سینہ چھلنی کردیا.
بعد میں نام سے پتہ چلا۔تو معلوم ہوا۔یہ کپٹن شیرخان تھا
اُس کی جیب میں میں نے پرچی لکھ کر وہاں چھوڑا۔کہ اِس کی سرکار حکومت اِس اپنے ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز سے نوازے۔میں نے کھڑے ہوکر اُس سیلوٹ کیا۔
3
Read 4 tweets
May 16, 2023
نوازشریف کی لندن واپسی پر اگر چاچو ہم سب کو ایئرپورٹ لےجاتے تو یقینا وہاں بڑا فساد ہونا تھا اور تب تو اسٹبلشمنٹ اور جوڈیشری بھی ایک پیج پر تھی، اور اوپر جنرل باجوہ، جنرل فیض، اور نیازی جیسے منافقین
بیٹھے ہوئے تھے
جو ایسے کسی موقع کی تلاش میں تھے،
1
اور جوڈیشری میں ثاقب نثار، جسٹس بندیال، جسٹس کھوسہ اور جسٹس اعجازلاحسن جیسے کرپٹ لوگ ٹاپ پر بیٹھے تھے جن کا حسد اور انتقام ابھی تک پورا نہیں ہو رہا، پنجاب می خاص طور پر وہ کور کمانڈر لگائے گے تھے جو خود اور انکی فیملیز نوازشریف سے
نفرت کرتی تھی،
2
اور تب تمام دوسری جماعتیں بشمول پپلز پارٹی بھی اس سیچوئش کوانجوائے کر رہی تھی، الغرض تب پورا جال بچھایا گیا تھا،اب موجودہ حالات دیکھتا ہوں تو چاچو کی سیاسی بصیرت اور عقلمندی کو سیلوٹ کرنے کو دل کرتا ھے چاچو نے تب واقعی عقلمدانہ فیصلہ کیا تھا،
یا یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا
3
Read 7 tweets
Apr 28, 2023
انگریز نے ہندوستان پر سو سال حکومت کی، اس دوران کبھی بھی انگریزوں کی مجموعی تعداد پچیس ہزار سے زیادہ نہیں رہی.
انگلینڈ میں ایک مائیگریشن رجسٹر ہے جس میں برطانیہ سے ہندوستان جانے والے 15،447 فوجیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں. اس کے علاؤہ انتظام کیلئے صرف دس ہزار اہلکار تھے
1
ان پندرہ ہزار آفیسر کے علاؤہ عام فوجیوں کی بھرتی ہندوستان سے ہی کی گئی یہ تین لاکھ ہندوستانی تھے جو انگریزی فوج میں بھرتی ہوئے. بنگال رجمنٹ، پنجاب رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ انگریزوں نے بنائی
برصغیر کے بھوکے ننگے دو چار روپے ماہانہ وظیفے پر لڑنے مرنے کو تیار تھے.
2
پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کے خلاف انگریزی فوج میں نوے فیصد ہندوستانی ہی تھے، غداری کرنے والا بھی میر جعفر ہی تھا. سلطان حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان کے خلاف چار جنگیں لڑنے والے کون تھے؟
کوئی اور نہیں میرے اور آپ کے اجداد تھے۔۔۔
3
Read 5 tweets
Apr 28, 2023
معروف ہارٹ سپشلیسٹ ڈاکٹراحمدفراز نے ملک بھر کے عوام کو مشورہ دیا کہ اگر کسی کو اچانک سینے کے درمیان کھچاؤ اور درد محسوس ہونے لگے جو بائیں بازو یا گردن کے دونوں طرف بڑھنے لگے۔ پسینہ چھوٹ پڑے۔ رنگ زرد ہو جائے۔ سانس لینے میں دشواری ہو۔ یا ایسا ایسا محسوس ہو
1
جیسے اُسکے سینے پہ کوئی بیٹھا ہے اور اپنے اندر شدید بے چینی محسوس کرے تو یہ ہارٹ اٹیک کی نشانی ہو گی۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے متعلقہ شخص کو ایک ڈسپرین ٹیبلٹ فوری طور پہ چبا کر نگل لینی چاہئے اور زبان کے نیچے ایک ٹیبلٹ اینجی سڈ Angised رکھ لینی چاہئے۔
2
شرٹ کے اندر سینے کے بائیں جانب Deponid این ٹی فائیو سکن پیچ (PATCH) لگا لینا چاہئے۔ اس کٹ کی مجموعی لاگت صرف پچاس سے پچپن روپے بنے گی۔
فرسٹ ایڈ کے اس فوری عمل سے ہسپتال پہنچنے تک متعلقہ شخص موت کے منہ میں جانے اور ہارٹ اٹیک سے بچ جائے گا۔ انشاء اللہ۔
3
Read 4 tweets
Apr 27, 2023
یہ ایک مکمل سیاسی پوسٹ ہے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ، چڑیا گھر میں گھنے سایہ دار درخت کے نیچے لیٹے ہوئے اونٹ سے اس کے بچے نے پوچھا،
ابا یہ ہماری کمر پر کوہان کیوں ہے؟
اونٹ نے جواب دیا، بیٹا صحرا میں سفر کرتے ہوئے میلوں دور تک پانی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا،
1
ایسے میں قدرت نے ہمارے اندر ایک اضافی خانہ بنا دیا ہے، جس کے ذریعے ہم کئی روز تک صحرا کی بھوک اور پیاس کو برداشت کرسکتے ہیں.
اونٹ کے بچے نے حیران ہوتے ہوئے چند لمحے کچھ سوچنے کے بعد کہا، ٹھیک ہے،
ہمارے پاؤں گول اور ٹانگیں لمبی کیوں ہوتی ہیں؟
2
اونٹ نے بچے کو سمجھاتے ہوئے کہا، ہمیں لمبے عرصے تک صحرا میں سفر کرنا پڑتا ہے، جس کے لیے ہمارے پاؤں کی گول ساخت اور لمبی ٹانگیں ہماری مددگار ہوتی ہیں، وگرنہ ہم چلتے چلتے ریت میں دھنس جائیں تو نکلنا دشوار ہوجائے گا.
3
Read 9 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us!

:(