گلگت بلتستان کے شہر سکردو کے نواحی گاؤں سدپارہ کو اگر ہیروز کی جنم بھومی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔
یہاں سے تعلق رکھنے والے ہیروز نے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے سبز ہلالی پرچم لہرایا۔
Count.... #HonourAliSadpara
سدپارہ کا نام دنیا کے سامنے اس وقت آیا جب اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے حسن سدپارہ نے بطور کوہ پیما کئی ریکارڈ اپنے نام کیے۔ حسن سدپارہ نے کوہ پیمائی کا آغاز 1994 میں کیا اور پانچ سال بعد 1999 میں قاتل پہاڑ نانگا پربت کو سر کر کے پیشہ ور کوہ پیما بن گئے۔
Count.. #alisadpara
حسن سدپارہ نے 2004 میں کے ٹو، 2006 میں گیشا بروم 1 اور گیشا بروم 2 کو سر کر لیا۔ اگلے سال 2007 میں براڈ پیک کو سرکر کے پاکستان میں واقع 8 ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیوں کو سرکر کے ہیرو بن گئے۔
count...
حسن سدپارہ کے بعد اس گاؤں کے ایک اور نوجوان محمد علی سدپارہ نے پے در پے کامیابیوں سے دنیا کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرا لی۔ 2 فروری 1976 کو سدپارہ گاؤں میں پیدا ہونے والے علی سدپارہ نے سکردو میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور سکردو میں فٹ بال کے کھلاڑی مشہور ہو گئے۔
علی سدپارہ نے 1995 سے 2004 تک پورٹر کا کام کیا ۔ تاہم 2006 میں باقاعدہ ماونٹینگ شروع کرتے ہوئے 8 ہزار میٹر گیشر برم کی چوٹی کی طرف سفر کیا تو علی سدپارہ کے پاس کوہ پیمائی کا مخصوص سامان موجود نہیں تھا۔ اس لیے سکردو سے سیکنڈ ہینڈ
سامان خرید کر اپنے اس شوق کو پورا کیا۔
Count...
2006 میں ہی علی سدپارہ نے سپانتک پیک کو سر کیا۔ 2008 میں قاتل پہاڑ نانگا پربت کو سر کرنے کے بعد اسی سال چین میں مزتاغ اتا کو بھی سر کر لیا۔ 2009 میں دوبارہ نانگا پربت کو سر کیا۔ 2010 میں گیشر برم 1 کی چوٹی پر پاکستانی پرچم لہرانے کا اعزاز حاصل کیا۔
علی سدپارہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ 2015 میں نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے تاہم 2016 کے موسم سرما میں نانگا پربت کو سر کرنے والے پاکستانی بن گئے۔ علی سدپارہ نے نانگا پربت کو چار بار سر کرنے کا ریکارڈ بھی بنایا ہے۔
2017 میں علی سدپارہ نے تین کامیابیاں سمیٹیں اور اس ایک سال میں براڈ پیک، نانگا پربت اور نیپال کی پوموری پیک کو سر کر لیا۔
2018 میں علی سدپارہ کے ٹو کو بھی سر کر چکے ہیں
2018 میں علی سدپارہ نے ہسپانوی کوہ پیما الیکس ٹیکسون کے ہمراہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ کو بغیر آکسیجن سر کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 2019 میں علی سدپارہ نے نیپال کی لوہٹسے، مکالو اور مانا سلو چوٹی کو بھی سر کر لیا۔
16 جنوری 2021 کو نیپالی ٹیم کی کے ٹو کی کامیاب سرما مہم کے بعد علی سدپارہ نے عزم کر لیا کہ وہ اسی سرما میں کے ٹو کو بغیر آکسیجن سر کریں گے اور ٹیم ممبران آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے پوبلو موہر اور بیٹے ساجد سدپارہ کے ہمراہ کے ٹو کا رخت سفر باندھا۔
پانچ فروری کو علی سدپارہ ٹیم کے ہمراہ کے ٹو کی چوٹی کی طرف روانہ ہوا۔ 8 ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچ کر موسم خراب ہو گیا۔ جبکہ ساجد سدپارہ کے آکسیجن سلنڈر کا ریگولیٹر خراب ہو گیا جس پر ساجد سدپارہ واپس بیس کیمپ کی طرف لوٹ آیا۔
ساجد سدپارہ کے مطابق انہوں نے دن بارہ بجے علی سدپارہ ٹیم کے باقی دو ممبران کے ہمراہ بوٹل نیک سے بلندی کی طرف جاتے دیکھا۔ تاہم اس کے بعد علی سدپارہ اور اس کی ٹیم کے سیٹلائٹ فون کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
علی سدپارہ اور اس کی ٹیم کی تلاش جاری ہے۔ آرمی ایویشن سمیت الپائن کلب اور دیگر کوہ پیما علی سدپارہ کی تلاش میں ہیں مگر ماہرین کے مطابق وقت اتنا گزر چکا ہے کہ کسی کے زندہ بچ جانے کے امکانات انتہائی معدوم ہو چکے ہیں۔