انتہا پسند رویے انتہا پسند رجحانات کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہوئے ایک غیر فطری سمت میں جانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ انتہا پسندی کسی بھی سطح پر مہلک ہوتی ہے، خواہ وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی کسی خاص موقع و مناسبت کے حوالے سے ایک انتہائی اور حتمی رائے قائم کرنا اور اسے اٹل قرار
دینا کسی انقلابی کا شیوہ نہیں ہوسکتا، انقلابی حقائق کو باریک بینی سے سمجھنے اور حقائق کی تبدیلی کیساتھ اپنی غلطی کو سمجھنے اور اصلاح کرنے کے ہنر سے واقف ہوتا ہے بصورت دیگر ایک مذہبی جنونی اور انقلابی میں کیا فرق رہ جاتا ہے اگر دونوں ایک ہی انتہا پر ہوں؟
2 مارچ کو بی ایس او آزاد
نے کلچر کے دن کے طور پر متعارف کرواکر ایک باشعور فیصلہ کیا اور بلوچ قوم میں ایک اپنائیت کا احساس پیدا کیا۔ روایتی لباس، چوٹ، صدری، براہوی و بلوچی زبان کے گیت پر رقص ایک ایسا احساس تھا جس میں آنے والے دنوں کی روشنی جھلکتی تھی۔ بلوچ بہنوں کو بھی اس دن نے گھر سے باہر کھینچنے میں
کردار ادا کیا اور نوآبادیاتی گھٹن میں 2 مارچ ایک تازہ ہوا کا جھونکا بن کر رہ گیا۔ لیکن گذرتے وقت کیساتھ ہمارے سرکلز بدقسمتی سے اس انتہا تک پہنچ گئے جہاں وہ خود اذیت پسندی کو انقلابی شعور سے کنفیوز کرنے لگے، بی ایس او کے شعوری فیصلے کو قائم رکھنے کی بجائے انہوں نے 2 مارچ کی مخالفت
شروع کردی اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کے تسلی بخش جواز فراہم کرنے کی بجائے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کے لیے مسنگ پرسنز اور شہادتوں کی بات کو پیش کیا گیا۔
اس حوالے سے جو سوالات اٹھتے ہیں تو کیا 2008 میں مسنگ پرسنز کا اشیو نہیں تھا یا کوئی بلوچ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد میں
شہید نہیں ہوا تھا؟
دوئم یہ سوال بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ کیا بلوچ شہید و مسنگ جہدکاروں کی قربانیاں بلوچ کلچر کو زندہ رکھنے کے لیے تھیں یا اس کے خلاف تھیں؟
کلچر کے اظہار سے بلوچ کاز کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
جس طرح ملا ویلنٹائنز ڈے کو حرام قرار دے چکے ہے اگر اسی طرح کلچر ڈے
کو بے غیرتی کا دن قرار دے دیا جائے تو پھر ہم میں اور ملاوں کی سوچ میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟
بی ایس او نے کلچر ڈے کا شعور دیا اب اسی کو ریاست کی جھولی میں ڈال کر مخالفت دانشمندانہ عمل ہے کہ نہیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
عوام اپنا اظہار کسی نہ کسی صورت میں کرتے ہیں اگر ہم ان سے
کلچر ڈے چھین لیں گے تب آخر ایک حد پر آکر ہم انہیں چودہ اگست تک پہنچا دینگے۔
اسی طرح زبان کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے ریاست کی جانب سے یکم مارچ بطور براہوی کلچر ڈے منانے کی کوشش کی جاتی ہے دوسری جانب تبلیغی اجتماعات سے مزید گھٹن پیدا کیا جاتا ہے ایسے میں 2 مارچ پر بھی قدغن لگا کر
کس کا کام آسان کیا جارہا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچ کلچر ڈے کو منانے سے بلوچ کاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ بی ایس او کا وہ شعوری فیصلہ ہے جو آگے چل کر بلوچ قوم میں اپنے تاریخی ثقافت کا شعور اجاگر کرتا ہے۔ اس سے پہلے وہ دن بھی تمام دوستوں کو یاد ہونگے جب بلوچ
14 اگست مناتے تھے لیکن جب تحریک نے انہیں متبادل فراہم کیا تب بلوچوں نے پاکستانی جھنڈی پھینک کر اپنا دستار و صدری پہنا اور اپنے پہچان سے آشنا ہوا اور آج ہم اس سے یہی پہچان چھین لینگے تب کل کو ریاست ان کے ہاتھ میں اپنی پھینکی ہوئی جھنڈی کو دوبارہ تھما دیگا۔
بلوچ کلچر ڈے کو
ریاست کی جھولی میں ڈال کر قطع تعلق ہونے کی بجائے اس کو بلوچ جدوجہد سے منسلک کرکے دنیا کو پیغام دیا جائے کہ بلوچ اپنی ثقافت سے محبت کرتے ہیں اور یہ شہدا کی قربانیوں کا ثمر ہے نہیں تو نوآبادیاتی نظام نے بلوچ نوجوان کو اس نہج پر پہنچایا تھا جہاں وہ اپنی زبان اپنے ثقافت پر احساس
کمتری کا شکار ہوچکا تھا لیکن تحریک بالخصوص بی ایس او نے اسے اس کا تاریخی پہچان حوالہ کیا۔