1- بابا بنگالی کو لگ رہا ہے اگر سٹیٹ بینک والا قانون نافذ ہوگیا تو پاکستان ٹوٹ جائے گا، کسی کو لگ رہا ہے گورنر سٹیٹ بینک وزیراعظم سے بھی طاقتور ہوجائے گا جتنے منہ اتنی زبانیں۔
عرب نیوز میں @javedhassan صاحب کا آرٹیکل چھپا ہے احباب کی سہولت کے لیے اسکا اردو ترجمہ کیا ہے۔
2/ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری دینے کے لئے حکومت نے بالآخر قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی مالیاتی پالیسی اور Fiscal Coordination Board کو ختم کرنے سے مالیاتی پالیسی اور ایکسچینج ریٹ میں حکومتی مداخلت محدود تر ہوجائے گی۔
مجوزہ قانون سازی نہ صرف سٹیٹ بینک کی گورننس کو بہتر
3/ کرے گی بلکہ قیمتوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں مرکزی بینک کے بنیادی کردار کو یقینی بنائے گی۔ مرکزی بینک متوقع طور پر Inflation Targeting کی تکنیک استعمال کرے گا جس میں بنک ایک ٹارگٹڈ Inflation rate کا تعین کرکے مالیتی پالیسی اس حساب سے وضع کرے گا تاکہ مہنگائی کو کنٹرول میں
4/ میں رکھا جاسکے۔
چونکہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرحِ سود کو بڑھایا جاتا ہے اور جب مہنگائی کم ہوتی ہے تو شرحِ سود کو کم رکھا جاتا ہے اس لئے Inflation Targetingتکنیک سے شرحِ سود میں کمی اور اضافے کے وقت شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے گا۔
5/ اس پالیسی کو ترقی یافتہ ممالک میں تو معاشی و مالی استحکام کے لیے کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے جہاں اس پالیسی کی وجہ سے معاشی استحکام میں اضافہ ہوا، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر معیشت ممالک میں اس پالیسی کے نفاذ پر خدشات موجود ہیں۔
خودمختار سٹیٹ بینک کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ ایک
6/ مکمل طور پر خودمختار سٹیٹ بینک اس قدر طاقتور ہوگا کہ وہ معیشت کے اوپر بہت زیادہ اثر انداز ہوگا اور ایسی پالیسیاں بنائے گا جو عوامی مفاد میں نہ ہوں گی۔ مثلاً لوگ کسی حکومت کو منتخب کریں کہ گروتھ میں اضافہ کریں گے اور نوکریاں پیدا کریں گے ۔
7/ مگر سٹیٹ بینک شرحِ سود کو بڑھا کر رکھنے کا فیصلہ کرلے جس سے حکومت اپنے انتخابی وعدوں کو پورا نہ کرسکے۔ ایسا کرنا منتخب نمائندوں اور سٹیٹ بینک کے درمیان تناؤ پیدا کرسکتا ہے جنکا بنیادی مقصد قیمتوں کا استحکام بن چکا ہے۔
دیگر کئی ترقی پزیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تاریخی
8/ طور پر شرحِ مہنگائی اور تجارتی خسارے بڑھے رہے ہیں۔ انتخابات میں اپنی جیت کے امکانات کو بڑھانے کے لئے سیاستدان قرضے لیکر سرمائے کو ایسے منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں جن سے گروتھ میں اضافہ نظر آئے نوکریاں پیدا ہوں، یہاں تک کہ سبسڈیز کی مد بڑے خرچے کئے جاتے ہیں اور پھر سرکاری
9/ ملازمین کو راضی رکھنے کے لئے انکریمنٹس اور ایڈ ہاک الاونسز دئے جاتے ہیں۔ مختلف انڑسٹ گروپوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے وہ قلیل مدتی پالیساں بناتے ہیں جس سے لامحالہ پور پر مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے شرحِ سود میں غیر یقینی کا تاثر آتا ہے جس سے طویل مدت کے لئے گروتھ رک جاتی ہے۔
10/ قرضے کے پیسوں کو ایسے منصوبہ جات پر خرچ ہونے سے روکنا( کہ جن سے ان برے اثرات سے بچا جاسکے) ہی کافی ہے کہ سٹیٹ بینک کو خودمختاری دی جائے کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی یا حکومتی مداخلت کے بغیر پالیسی بنا اور چلا سکے۔ مجوزہ قانون سازی میں موجود نئے بندوبست سے اب حکومت سٹیٹ بینک سے
11/ قرض حاصل کرکے اپنے خرچے نہ چلا سکے گی اور حکومت کو مارکیٹ کے اصولوں پر چلتے ہوئے بین الااقوامی مالیاتی نظم و ضبط کے تحت قرضہ جات لینے پڑیں گے ، جس سے حکومتوں کی بھاری قرضوں پر unsustainable گروتھ دکھانے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
سٹیٹ بینک کی خودمختاری کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے ایسی معاشی اور تجارتی پالیسیاں بنانا ہوں گی جس سے ایک بہتر اور واضح معاشی فریم ورک بنے۔
گزشتہ سال 27 مارچ کو مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ شروع کیا تو اس قوم کے دو نمبر دانشور و لفافہ مارکہ صحافی روز نئے نئے انکشافات کیا کرتے تھے
بس حکومت تھی کہ جائے چاہتی تھی اور عمران خان ملک چھوڑ کر بھاگنے کو تیار تھا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
پہلی سالگرہ پر کچھ نمونے حاضر
یہ ہیں جی رضی دادا۔ @RaziDada
نیازی کو تبدیل کردیا جائے گا ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
افسوس ان گلوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے
(2/n)
یہ ہیں جی بی بی مریم کے واٹس ایپ گروپ کے ایک اور ممبر @TalatHussain12 جو پانچ سال تک سی ڈی اے کے ایک کرکٹ گراؤنڈ پر قابض رہے۔
(3/n)