#Copy@MashwaniAzhar
"یہ بابا جی سرگودھا روڈ پر ایک چائے کے ہوٹل والے سے رات بسر کرنے کے لئے سونے کی جگہ مانگ رہے تھے ہوٹل والے نے بابے کو سامنے مسجد کا راستہ دکھایا۔ بابا جی تھوڑی دیر بعد واپس آ گئے اور ہوٹل والے کو بتایا کہ مسجد کو تالا لگا ہے اس پر ہوٹل والے نے بابا
جی کو صاف جواب دیا اور وہاں سے چلتا کیا۔ اتفاق سے ڈاکٹر ریاض، اظہر اور میں وہاں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور بابا جی اور چائے والے کا مکالمہ بھی سن رہے تھے۔ ڈاکٹر ریاض شاہد کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ بابا جی کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں قائم "پناہ گاہ" میں چھوڑ آو
اور میں بابا جی کو اپنی پھٹپھٹی پر بٹھا کر سول ہسپتال پہنچ گیا۔ دل میں اشتیاق بھی پیدا ہوا کہ ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے "پناہ گاہیں" اسی مقصد کے لئے قائم کی ہیں لہذاء آج عملی تجربہ ہی سہی۔ دیکھتے ہیں جا کر کہ اس بے بس، کمزور ، بے آسراء اور نحیف بزرگ کے حق میں سرکار کیا
کار سر انجام دیتی ہے۔۔
خیر۔۔۔ موٹر سائیکل پناہ گاہ کے سامنے جا کر روکی۔۔ بابا جی کو اتارہ اور اشارے سے بتایا کہ آپ جاو اس سامنے والے کمرے میں سو جاو۔۔ بابا بیچارہ مجھے دعائیں دیتا کمرے کی طرف بڑھا اور میں چند منٹ اس لئے رک گیا کہ بابا جی کو شائد شناخت کے حوالے سے کوئی مشکل
پیش نہ آئے۔ سادہ لوح تھکا ماندہ بزرگ کمرے میں داخل ہوتے ہی زمین پر اپنا کپڑا بچھاتا ہے اور لیٹ جاتا ہے۔ لیکن اگلا منظر روح پرور ہوا۔ ایک خدا کا بندہ بابا جی کے پاس آیا، انکو سہارہ دے کر فرش سے اٹھایا اور پناہ گاہ میں ایستادہ بیڈ کے صاف ستھرے اور آرام دہ بستر پر لٹایا۔ @Ehsaas_Pk
بابا جو تھوڑی دیر پہلے نیند اور تھکن سے نڈھال تھا اس نے بلند اور طاقتور آواز لگائی اور پوچھا """ او چھورا۔ اے کہندا ڈیرہ اے؟؟؟؟؟ میں نے مسکرا کر جواب دیا " عمران خان دا"
بابا خوشی اور جوش سے پکارا
واہ بھئی واہ @zartajgulwazir
زندہ باد بھئ عمران خان زندہ باد۔۔
میں بابے کو رب راکھا کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔۔
اور جو منظر میری نم آنکھ نے دیکھا آپکو لفظ بہ لفظ لکھ بھیجا"
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh