Kargil: Tales & Bodies
From Across ‘The Line’
___
The picture taken atop an observation bunker overlooks Batalik sector
The center is the spot where Indus enters Pakistan
The ridge line rising to the left has Indian posts
It was early spring, Kargil was still a thing of future
It was here in Batalik sector, away from the media glare of Tololing and Tiger Hill of Dras that the bloodiest of battles from the Kargil conflict were fought
My friend and coursemate Lt Faisal Ghumman fought his last battle here
He was posthumously awarded Sitara e Jurrat
The same yr as "Youngest officer in Shyok" I accompanied Maj Ahmed Tiwana, a Piffer officer deputed with NLI to Piun & beyond
I would leave but Maj Tiwana would stay
He later embraced shahadat in an artillery duel and was awarded Tamgha e Basalat
___
pic via @leftofthepincer
Not very far from Y Block in DHA Lahore is a graveyard with neatly laid out grave plots
Here lies buried Lt Faisal Zia Ghumman, pride of 96th PMA Long Course from Kargil conflict
Maj Tiwana too found a grave in his homeland
Not all dear reader, fighting the war were that lucky
Early Jun in Shyok Capt Farhat Haseeb led a body of 10 Jawans on counter attack and never came back
Few days before Capt Haneef Uddin of 11 RajRif lost his life on a patrol
Latter's body recovered in Jul was buried in Delhi
Capt Farhat sleeps under snowy slopes of Shyok mountains
On the night of 28/29th June 2 Rajputana Rifles won the Battle of Tololing
They remember with an innate pride yet in a solemn tone the Indian dead, and the Pakistani dead
Maj Padmapani Acharya MVC
We don't get a name but it must be Maj Abdul Wahab, SJ buried somewhere on Tololing
And then on the challenging heights of Tiger Hill we had Capt Karnal Sher, body returned with a citation of bravery and earned Nishan e Haider
Capt Ammar the SSG officer won Sitara e Jurrat for his courage but was never claimed by us
The formidable slopes of Tiger Hills have him
Associated Press has a video where the burial of the seven soldiers in a shallow pit serving as a combined grave was shown to reporters and televised on the media
Bodies of 12 NLI Soldiers, few days old clad in but disowned by Pakistani flag were given a decent burial by Indians
And then there was Col Mustafa commanding 19FF who after the fight wasn't willing to leave without the bodies of his unit's shuhada
An arrangement between a "Pathan and Sardar" was videotaped by Indians
What a CO did for his Paltan ki Izzat could not be dared by an Army Commander
And then there was a unique request by a Grandfather, a veteran of Kashmir War of 48 to return the body of his grandson Capt Taimur Malik Shaheed, duly obliged by Indian Chief Gen V.P.Malik
The martyrs of Bilal Post were exhumed after a month of the conflict and returned to Pak
…
And don’t say that you’ve made a sacrifice,
because the one who’s made the sacrifice is me,
and don’t use any more lofty words
because, father, I’m already buried deep.
____
lines from 'Queen of the Bathtub by Hanoch Levin excerpted from 'Dying to Serve' by @mariarshd
Dear Reader, this thread is an excerpt from our story on Kargil martyrs buried across "the line"
If your interest is still alive the full story can be read on MANI JUNCTION on the link below meemainseen.com/2021/08/kargil…
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
انٹاریو کے برفاب رکھوں کے شہر میں آج کرسمس ہے
دسمبر کے مانند بھیگے کہربار اِس دل پر یادوں کی برف گرتی ہے
پاس کے ایک کلیسا میں دور کہیں ساز بجتے ہیں
اور گزرے دنوں کی جلتی بجھتی انگیٹھی میں جھلملاتے دو منظر ہیں
۔۔۔
جھنگ مگھیانے کا درویش، میونخ کی شالاط
ساہیوال ابھی منٹگمری ہے، اور فرید ٹاوٗن ابھی سٹیلائٹ ٹاوٗن۔ تو صاحبو، اسی سٹیلائٹ ٹاوٗن کا ایک کوارٹر ہے جس کے صحن میں دو آم کے درخت اور درجن بھر گلاب کے پودوں سے پرے ایک مقفل کِواڑ ہے جسکی درزوں سے جھانکتی چھچھلتی اپنے نہ ہونے کی ہونی کے اندیشوں میں لپٹی ایک نظر ہے
کہ چلتی چلی جاتی ہے اور گلی کی نکڑ پر جا ٹھہرتی ہے
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں، کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
آخری آرام گاہ
حاجی محمد عالم لوہار
ـــ
کاکول اکیڈیمی میں ہر چھ ماہ کے بعد ٹرم کے اختتام پر ایک ماہ کی چھٹیاں ہوتیں تو ایبٹ آباد میں اترتی شام کے دھندلکے میں بیرونی گیٹ پر نصرتِ خداوندی سے دی جانے والی فتح کی بشارت کے جلو میں ایک میلہ سجتا۔ اس دن اکیڈیمی کا پارکنگ لاٹ
ایک چھوٹے موٹے لاری اڈے کا منظر پیش کرتا۔ پنڈی وال کیڈٹ تو کوسٹرز اور ویگنوں میں بیٹھ مریڑ چوک یا پھر سیروز سینما کی راہ لیتے۔ لاہوریوں کو لے جانے والی بڑی فلائنگ کوچ بسیں ہوتیں جو کاکول سے بادامی باغ کی شست باندھے جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتی چلتی چلی جاتیں۔
ہم گنتی کے مسکین کراچیائٹ ایک لمبے سفر کو دو حصوں میں بانٹ پہلی تقسیم میں انہی فلائنگ کوچوں میں لاہوریوں کے ہم سفر بنتے۔ رات بھر کے سفر کے بعد یہ کوچیں لاری اڈے پہنچتیں تو ہم کراچی والے لاہور ریلوے سٹیشن کے بکنگ کلرک کی بند کھڑکی کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے کہ بعد از فجر
دنیا کے لذیذ ترین ٹھپّر
نور والوں کا ڈیرہ
ـــ
غالباً کیا یقیناً رمضان کا مہینہ تھا، وہ اس لیےکہ روزوں کے ہی دن تھے جب بھوک کے عالم میں جمعے کی نماز اور افطار کے درمیان اپنے اشفاق احمد کا لکھا یہ اشتہا انگیز قصہ پہلے پہل پڑھا۔ تب انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی چار برس بیت چکے تھے۔
ٹل پوسٹنگ کے دنوں میں ہمارے کمانڈنگ افسر کرنل بھٹی ہمارے ’کتاب دوست‘ بنے۔ اگوکی میں یہ ’اعزاز‘ کیپٹن بخاری کو حاصل تھا جو یونٹ ایڈجوٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے روم میٹ محض اس بنا پر بنے کہ کتب بینی اور موسیقی میں ہمارا ذوق بہت ملتا تھا۔
اگوکی کی عباسیہ سے ٹل والی میڈیم رجمنٹ میں پوسٹنگ ہونے پر ہمارے مطالعاتی شوق نے بھی ترقی پائی اور ایڈجوٹنٹ سے کئی درجے اوپر اب یونٹ کے سی او سے یاری گانٹھ لی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں کو ’یاری گانٹھ لینے‘کی اس ترکیب میں مبالغے کی آمیزش نظر آئے تو صاحبو ایک
گورا جھوٹ نہیں بولتا
سکول بس کی فلیشنگ لائٹس، ڈیف چائلڈ ایریا
ـــ
شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیوں کے برعکس بہت پرانی بات نہیں ہے، ایک دہائی سے بھی کم کا قصہ ہے، اور پھر یہ بھی تو شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانی نہیں ہے۔
🧵
تو صاحبو ایک دہائی سے چند ایک برس اِدھر کا قصہ ہے جب زندگی اور اس کے محلِ وقوع نے کروٹ بدلی اور ہم اس دیس کو پدھارے تو ہمارے عزیز دوست نے یاد دہانی کروائی کہ ’بھائی جا‘ اب گریٹ وائٹ نارتھ جارہے ہیں۔
ہمارے من پسند شاعر سلیم کوثر نے کہا تھا
تمھیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کرلیتے
الحمدللہ زندگی میں کوئی گھٹن نہیں تھی اور نہ ہی اس کا خوف، مگر اپنی جنم بھومی، ایک عمر کے یارانوں اور دوستیوں اور جس دھرتی کے شہروں اور قصبوں سے عشق کیا تھا،
بیدیاں کے غازی
جیسور کے باغی
ـــ
مشرقی بنگال کےآتش بجانوں کو سلام
لاہورمیں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈکی زیرِنگرانی اس فوجی قبرستان میں پینسٹھ کی جنگ کے شہیدوں کی قبریں اوریادگاریں ہیں۔ یہیں ایک یادگاراپنی جنم بھومی سےہزاروں میل دورلڑنےوالوں کو
یادکرتی ہےجو اتنی مداراتوں کےبعدبھی اجنبی ٹھہرے۔ یہ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ عرف سینیئرٹائیگرزکےپندرہ شہداء کی یادگارہےجوپینسٹھ کی جنگ میں وطن پرنثارہوگئے۔
لاہورسےقصورکی نیت کرتےہوئےفیروزپورروڈ پکڑیں توقریب قریب نصف راستےکی مسافت پرللیانی کاسٹاپ آتاہےجس کاموجودہ نام مصطفیٰ آباد ہے۔
مین روڈ کے ساتھ للیانی کےقبرستان میں بھی گنجِ شہداء کے نام سے ایک گوشۂ سکون ہے جہاں ایک چاردیواری میں فاتحِ کھیم کرن 5 فرنٹیئرفورس کے وہ سپوت دفن ہیں جو ستمبر پینسٹھ کی جنگ میں کھیم کرن اور اس سے کچھ آگے کی مفتوحہ زمینوں کو دونیم کرتے شہید ہوئے
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
غازۂ رُوۓ شھادت زینتِ قوم و وطن
عزیز بھٹی کی کہانی
ـــ
تارڑ صاحب کی راکھ کی طرح ۔۔ چارچیزیں ہیں ۔۔ جو مجھے لادیاں بلاتی ہیں ۔۔ ان میں ایک کھاریاں چھاؤنی سے پھولوں کی چادر چڑھانے کی فل ڈریس ریہرسل ہے ۔۔ اور کچھ کھُدےان کھُدے مورچوں سے پلٹتی کوٹلہ ارب علی خان کی اداس شام ہے ۔۔
اور منگلا کینٹ میں ایک ہم نفس کی معیت میں یادوں سے دُھل کے نکلتی رات ہے ۔۔ اور برکی کی قربت میں بی آر بی نہر ہے ۔۔
نشانِ حیدرکاتغمہ اپنی چوڑی چھاتیوں پر سجائے، ہمارے جانبازوں کی تربتوں تک، جن تک کہ ہم پہنچ پائے، خود کھوجتے ہوئے پہنچے، ماسوائے ایک شہید کے۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید وہ ہیں جنہوں نے خود ہمیں بلاوہ بھیجا، ایک دفعہ کی بات نہیں، پورے چار مرتبہ۔ گجرات کے شمال اور کھاریاں کے مشرق میں ایک چھوٹا سا گاؤں لادیاں، جسکا نام شاید کھاریاں ہوتا اگر اکبرِ اعظم کے دور میں جب یہ پہلے پہل آباد ہوا قرعۂ فال کھاری گوت کے نام کا نکل آتا،