#آؤ_شجرکاری_کریں #جوار_کی_کاشت_و_دیکھ_بھال
پنجاب میں عام طور پرجانوروں کے لیے سبز چارے کی قلت ہے جبکہ مویشیوں کی نشوونما کے لئے سبز چارے کی اتنی ہی ضرورت واہمیت ہے جتنی کہ انسانی زندگی کے لیے اچھی غذاکی ۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
چارے کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ کسانوں تک نئی اقسام کا بیج اور جدید فنی مہارتوں کا بروقت نہ پہنچنا ہے۔ جانوروں کے لئے ہمارے ہاں سب سے بڑی غذا سبز چارہ ہے۔ غذائی فصلوں اور نقد آور فصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چارے کی پیداوار میں اضافہ کے لئے
#آؤ_شجرکاری_کریں
ہم رقبہ میں اضافہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ایسی منصوبہ بندی کریں جس سے چارہ جات کی فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر ہم زمین کا صحیح انتخاب و تیاری، اچھا بیج، مناسب کھادوں کا استعمال،
#آؤ_شجرکاری_کریں
بروقت کاشت، آبپاشی، برداشت، دیگر زرعی عوامل اور ماہرین کی سفارشات پر عمل کریں تو چارے کی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں دو سے تین گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔چارے کی پیداوار بڑھانے کے لئےایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہےجس سے ہمیں چارے کی کمی کے دورانیے میں بھی چارےمیسر ہوں۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
اس لئے خریف کے چارے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی کاشت موسم بہار سے یعنی مارچ سے لے کر آخر خریف یعنی اگست، ستمبر تک ممکن ہے۔ اگیتی کاشت سے ہم مئی، جون کے کمی کے دورانیے کے لئے چارہ پیدا کر سکتے ہیں
#آؤ_شجرکاری_کریں
اور پچھیتی کاشت سے ہم اکتوبر، نومبر میں کمی کے دورانیے کے لئے چارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ رقبہ کے لحاظ سے خریف کے چارے میں بڑی فصلیں جوار، سدا بہار، باجرہ، مکئی، گوارا، رواں اور ماٹ گراس ہیں۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
جوار (چری) گرمیوں کا ایک اہم اورجانوروں کاپسندیدہ چارہ ہے۔اس میں اقسام کی مناسبت سے لحمیات تقریباً 7تا 12فیصد ہوتے ہیں۔ جوار چونکہ گرمی اور خشکی برداشت کر لیتی ہے اس لئے پنجاب کے اکثرعلاقوں میں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہے۔اس کا غلہ مرغیوں کی بہترین خوراک ہے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
پنجاب کی آب و ہوا اس فصل کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس میں چونکہ خشک سالی برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس لئے یہ فصل پنجاب کے آبپاش اور بارانی دونوں علاقوں میں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
جے ایس 2002،ہیگاری، جے ایس 263،چکوال جوار اورچکوال 2011 اس چارہ کی زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل منظور شدہ اقسام ہیں۔
جوار ہلکی کلراٹھی زمین پر بھی کاشت کی جا سکتی ہے لیکن زیادہ پیداوار لینے کیلئے بھاری میرا زمین جہاں پانی کا نکاس اچھا ہو بہترین ہوتی ہے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
زمین کی تیاری کے لئے ہل چلانا اور سہاگہ چلا کر اسے نرم اور بھربھرا کر لینا چاہیے۔ زمین کا ہموار ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگر پچھلی فصل پر مٹی پلٹنے والا ہل نہ چلایا گیا ہو تو ایک دفعہ مٹی پلٹنے والا ہل اور دو دفعہ کلٹیویٹر چلا کر اسے نرم اور بھربھرا کر لینا چاہیے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
چارے والی فصل مارچ سے اگست تک حسب ضرورت کاشت کی جا سکتی ہے جبکہ بیج والی فصل کی کاشت جولائی کے مہینے میں مکمل کر یں۔ جوار کی چارے کیلئے کاشت کی جانے والی فصل کیلئے32 تا 35 کلو گرام فی ایکڑ اور دانوں کیلئے6 تا8 کلو گرام صحتمند بیج فی ایکڑ استعمال کریں۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
گو چھٹہ سے کاشت کا عام رواج ہے لیکن اچھی پیداوار لینے کیلئے ایک ایک فٹ کے فاصلے پر لائنوں میں کاشت کریں۔ بارانی علاقوں میں کاشتکار وتر کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بیج والی فصل کی کاشت کے لئے شرح بیج میں اضافہ کر لیں۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
جوار کی چارے والی فصل کے لئے دو بوری نائٹروفاس + آدھی بوری پوٹاش یا ایک بوری ڈی اے پی + 1/4 بوری یوریا + 1/2 بوری پوٹاشیم سلفیٹ فی ایکڑ بوائی کے وقت استعمال کریں جبکہ دوسرے پانی کے ساتھ آدھی بوری یوریا فی ایکڑ استعمال کریں۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
بیج والی فصل کے لئے ایک بوری ڈی اے پی + ایک بوری پوٹاش فی ایکڑ بوائی کے وقت جبکہ دوسرے پانی کے ساتھ آدھی بوری یوریا فی ایکڑ استعمال کریں۔ اگر فصل کی حالت اچھی ہو تو دوسرے پانی کے ساتھ یوریا کے استعمال میں بچت کی جا سکتی ہے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
بارانی علاقوں میں تمام کھاد بوائی سے پہلے زمین کی تیاری کے وقت ڈال دیں۔
جوار کی فصل کو دو تا تین پانی درکار ہوتے ہیں۔ پہلا پانی بوائی کے تین ہفتے بعد اور بعد میں حسب ضرورت پانی لگائیں۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
بیج والی فصل کو دانے بنتے وقت پانی کی کمی ہرگز نہ آنے دیں ورنہ پیداوار اور دانے کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ اگر چارہ والی فصل کا قد تین فٹ سے کم ہو اور فصل پانی کی کمی کا شکار ہو تو اسے جانوروں کو ہر گز نہ کھلائیں
#آؤ_شجرکاری_کریں
کیونکہ اس حالت میں اس میں ایک زہریلا مادہ ہائیڈرو سائنک ایسڈ (HCN) پیدا ہو جاتا ہے۔ جو جانوروں کیلئے نہایت مضر ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ایک پانی لگا کر جانوروں کو کھلائیں ۔ موڈھی فصل کا چارہ کھلانے میں بھی احتیاط برتنی چاہیے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
اس صورت میں بھوسہ وغیرہ یا کوئی اور سبز چارہ اس کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔
چارے والی فصل پر عام طور پر کسی زہر کا استعمال نہیں کیا جاتا تاہم اگر بیج والی جوار کی فصل پر تنے کی سنڈی، کونپل کی مکھی وغیرہ کا حملہ زیادہ ہو جائے تو سفارش کردہ دانے دار زہر استعمال کرنے
#آؤ_شجرکاری_کریں
سے ان کیڑوں کے حملے کو روکا جا سکتا ہے۔ مائٹس کا حملہ ہونے کی صورت میں محکمہ زراعت کے مشورہ سے مناسب زہر کا سپرے کریں اور سپرے سے کم از کم بیس دن بعد تک چارہ نہ کاٹیں۔ جوار کی فصل پر سرخ برگی دھبے (Red Leaf Spot) اور پھر بیج والی فصل پر کانگیاری کا حملہ ہوتا ہے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے صحتمند بیج استعمال کریں اور اس کے ساتھ ساتھ پھپھوندی کش سفارش کردہ زہر لگا کر بیج کاشت کریں۔ بیج والی فصل میں کانگیاری زدہ پودے کے سٹے کھیت سے کاٹ کر جلا دینے چاہئیں اس طرح بیماری کا پھیلاؤ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
چارہ کی فصل کو 50 فیصد پھول نکلنے پر کاٹ لینا چاہیے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اگر فصل کو کاٹنے سے چند دن پہلے پانی لگا دیا جائے تو اس سے چارے کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت فصل کاٹنے پر زیادہ پیداوار اور مناسب غذائیت حاصل ہوتی ہے۔
#آؤ_شجرکاری_کریں
بیج والی فصل نومبر میں پک کر تیار ہو جائے تو اس کے سٹے کاٹ کر خشک جگہ پر اکٹھے کرتے جائیں اور کڑب کے گٹھے باندھ کر رکھ لیں جو سردیوں میں جانوروں کو کھلانے کے کام لائے جا سکتے ہیں۔
تحریر: ہارون احمد خان ( اسسٹنٹ ڈائریکٹر زرعی اطلاعات، راولپنڈی)
آپ اگر موٹر وے ایم ٹو پر اسلام آباد کی طرف سے لاھور آئیں تو ٹول پلازہ پہ ایک درجن سے زیادہ بوتھ ہیں ، ہر بوتھ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک منٹ میں چھ گاڑیاں گذرتی ہیں ،اور یہی ایک بوتھ ایک گھنٹے میں 360 گاڑیوں کی گذر گاہ ھے ،،
اسی طرح بارہ عدد بوتھ سے 4320گاڑیاں ایک گھنٹے میں گذرتی ہیں،اور چوبیس گھنٹوں میں 103680 گاڑیاں گذرتی ہیں۔اسلام آباد سے لاھور تک ایک کار کا ٹیکس 1000ہزار روپے ہے اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا چار پانچ ہزار تک یہ ٹیکس چلا جاتا ھے، ھم اگر ایوریج ایک گاڑی کا ٹیکس صرف1000 ہزار بھی لگائیں
تو اس حساب سے 24 گھنٹوں میں یہ پلازہ کم از کم ساڑھے دس کروڑ روپے جنریٹ کرتا ھے ، اسی طرح ملک بھر کے موٹر ویز اور ہائی ویز پر ان ٹول پلازوں کی تعد گن لیں اور پھر ان کو کروڑوں سے ضرب دیں تو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں روزانہ کے حساب سے اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ھو جاتے ہیں ۔
نامیاتی مادہ کاربن کے مرکبات کے ذخیرے کو کہتے ہیں جو قدرتی ، آبی اور زمینی ماحول میں زندہ جانداروں کے ذریعہ بنائے جاتے ہیں
نامیاتی مادے کو انگریزی میں
Organic Matter
کہتے ہیں ۔
نامیاتی مادے کو عام طور ڈیٹریٹس ( کسی ایسی چیز کی باقیاتِ جو تباہ یا ٹوٹ چکی ہو ) یا نباتاتی کھاد بھی کہا جاتا ہے۔
نامیاتی مادے میں کونسے اجزاء پائے جاتے ہیں ؟
نامیاتی مادہ میں وزن کے لحاظ سے
45-55٪ کاربن.
35-45٪ آکسیجن.
3-5٪ ہائیڈروجن.
1-4٪ نائٹروجن
پائی جاتی ہے
نامیاتی مادہ کیسے بنتا ہے ؟.
نامیاتی مادہ متضاد مرکبات پر
مشتمل ہوتا ہے۔ مٹی میں بنیادی طور پر نامیاتی مادہ پودوں،جانوروں اور مائیکرو حیاتیات، جانوروں کے فضلہ کے گلنے سڑنے اور بیکٹیریا اور الجی کی ٹوٹ پھوٹ سے حاصل ہوتا ہے۔
ہائیڈروجن پر آکسائیڈ کا باغبانی میں حیرت انگیز استعمال‼️
کیا آپ جانتے ہیں کہ پانی اور آکسیجن کے تعامل سے بننے والا ہائیڈروجن پرآکسائیڈ H2O2 اینٹی سیپٹک اور بلیچنگ کے علاوہ بھی فوائد رکھتا ہے؟زیادہ ترلوگ نہیں جانتے کہ ہائیڈروجن پرآکسائیڈ ایک خوبصورت باغیچہ اگانے میں مدد دےسکتا ہے۔
اس کے جراثیم کش اور آکسیجن پیدا کرنے والی خصوصیات کی وجہ سے پودوں میں بڑھنے کے ہر مرحلے کے لیے مختلف فوائد اور استعمال ہوتے ہیں۔ آپ اپنے باغ میں ہائیڈروجن پر آکسائیڈ کو جراثیم کشی، پودوں کی نشوونما کو بڑھانے اور نقصان دہ کیڑوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
گملوں اور باغبانی کے اوزاروں کی صفائی ‼️
ہائیڈروجن پر آکسائیڈ پودوں کی پروننگ کے آلات گملوں ،برتنوں کو
6%-9% پر آکسائیڈ محلول میں استعمال سے پہلے اور بعد میں ڈبونے سے جراثیم سے محفوظ رکھتا ہے اور دوسرے پودوں یا پیتھوجینز سے آلودگی کے خطرے کو کم کرتا ہے
#Shallots
"شِیلَٹس"اور پیاز دونوں سبزیاں ہیں جو جنس ایلیم کےخاندان Amaryllidaceae سےہیں ،شِیلَٹس کا لاطینی نباتاتی نام باضابطہ طور پر2010 میں تبدیل کرکےAllium cepa gr۔aggregatumرکھا گیا ہے
شِیلَٹس کا ذائقہ میٹھا اور پیاز سے ملتا جلتا ہےاوربطور پیاز ہی کھانے میں استعمال ہوتا ہے
شِیلَٹس کا آبائی وطن ایشیاء اور مشرق وسطیٰ ہے۔ شِیلَٹس کی سفید، سرخ، سنہری، گلابی اور جامنی اقسام ہیں۔
موسم خزاں میں لگائے گئے سیٹ 36 ہفتوں کے بعد تیار ہوتے ہیں۔ موسم بہار میں لگائے گئے سیٹ 20 ہفتوں بعد تیار ہوتے ہیں
آپ گروسری سٹور سے خریدے ہوئے تازہ شِیلَٹس کو بھی اگاسکتے ہیں
شِیلَٹس کو کیسے اگائیں؟‼️
شِیلَٹس کو بیج اور لونگ دونوں کے زریعے اگایا جاسکتا ہے۔
شِیلَٹس کے بیج ‼️پودے کے پھولوں کے سب سے اوپر کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اور چھوٹے اور سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں.
شِیلَٹس بیج سے اگائیں تو4 بلب پیدا کرتے ہیں۔ سو سے120 دن کے بعد کٹائی کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
#Septoria_tritici_balatch
سپٹوریا ٹریٹی بلاچ کا جب گندم پہ حملہ ہوتا ہے تو پتے جھلسے ہوئے نظر آتے ہیں پتے اوپر سے نیچے کی طرف جھلسنا شروع ہوتے ہیں جب پتوں پر ہاتھ لگاتے ہیں تو ہاتھوں پر پیلا کلر کا زنگ یا پاوڈر بھی ہاتھ پر نہیں لگتا
یہی اسکی خاص نشانی ہے
جب آپ کے ہاتھ پر زنگ نہ پاوڈر لگے تو سمجھو کہ یہ کنگی ،رسٹ کی بیماری ہےاور اگر ہاتھ پر کچھ بھی نہ لگےتو یہ گنگی نہیں ہے بلکہ یہ سپٹوریا ٹریٹی بلاچ ہے عموماً اس وقت گندم ٹلر کی حالت میں ہے اور بعض علاقوں میں گوبھ پر بھی آ چکی ہے اور سٹے کی طرف جا رہی ہے
سپٹوریا ٹریٹی بلاچ
بیماری متاثرہ پودوں سے صحت مند پودوں میں 12 تا 24 گھنٹوں کے دوران داخل ہو کر نقصان پہنچانا شروع کر دیتی ہے.یہ لازمی نہیں کہ اگر پتے پیلے رنگ کے ہو رہے ہیں تو یہ سپٹوریا ٹریٹی بلاچ بیماری ہو سکتی ہے
Yellowing of wheat Crop leaves
گندم کے پتے پیلے کیوں ہوتے ہیں۔؟؟.
گندم کے پتے پیلے کیوں ہوتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیۓ ہمیں 9 سوالوں کے جواب ڈھونڈنا ہوں گے۔
آئیے جانتے ہیں کہ وہ 9 سوال کونسے ہیں اور انکے جوابات کیا ہیں
سوال نمبر۔1۔
پودے کے کونسے حصے متاثر ہیں ؟ کیا صرف پرانے نچلے پتے پیلے ہو رہے ہیں۔؟کیا صرف نئے پتے پیلے ہو رہے ہیں؟کیا پتوں کی نوک پیلی ہو رہی ہے؟ یا پورا پودا پیلا ہو رہا ہے ؟؟
جواب۔۔
اگر صرف نچلے پتے پیلے ہو رہے ہیں تو یہ نائٹروجن کی کمی کی علامت ہے۔
آگر نئے پتے یا پتوں کی نوک پیلی ہو رہی ہےتو یہ سلفر کی کمی یا سرد درجہ حرارت برن کی علامت ہے۔
آگر پورا پودا پیلا ہو رہا ہے تو یہ ایٹرازین کیری اوور،سلفر کی کمی،پانی کی زیادتی یا لیکوڈ فرٹیلائزر برن کی نشانی ہے۔