The photograph was taken at PMA after dress inspection and before advanced drill competition
The very next term on passing out I opted for Engineers as my first choice of arms but got Artillery, the second choice
That was the first time I missed a potential visit to Risalpur
🧵
There were more chances of visiting the 'Home of Engineers' but somehow I couldn't make it
Had I been there, I would have known about Capt Nisar Ahmed Shaheed
___
Nisar of Gibraltar
M̵i̵s̵s̵i̵n̵g̵ ̵B̵e̵l̵i̵e̵v̵e̵d̵ Killed in Action
Captain Nisar was part of Op Gibraltar the botched venture aimed at infiltrations into IHK by a composite force of Pak Army regulars and mujahids
The details about the Op and Nisar’s force are scanty, not readily available and shrouded into mystery
___
*images from Facebook*
Gen Mahmud's magnum opus on 1965 Indo-Pak war gives us the broad parameters of Gibraltar Forces
Nisar was part of Salahuddin Force led by Major Mansha launched from Bedori Bulge aiming to strike targets in and around Srinagar
Still we don't see Capt Nisar into much of action
@capt_amarinder and LTG Tejinder Shergill's monumental Monsoon War brings to us some news from the valley from the initial days of the infiltrations
Salahuddin Force having infiltrated undetected lost cover on Aug 5 through the hands of a Gujjar boy of village Darra Kassi
and then an unconventional narrative
“Commando Alamgir Ki Kahani” a live memoir of an officer from Gibraltar Force first featured in 1985 Silver Jubilee Number of Urdu Digest
Inayatullah of Hikayat Digest then published a story based onto Alamgir's narrative ‘Do Puloñ Ki Kahani’
Of all these, the most accurate and an intimate account comes from Shemeem Abbas, widow of Capt Nisar Ahmed Shaheed SJ
The last letter from her husband and her rough journey of discovering Nisar from believed missing to killed in action
__
image from thefridaytimes.com/the-last-lette…
Captain Nisar Ahmed Shaheed, SJ of Operation Gibraltar lies buried in an unmarked grave in a village named Khag not very far from Srinagar
My readers interested to read more can access the full story at MANI JUNCTION 👇 meemainseen.com/2019/09/gibral…
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
عشق تیرے نے حضرت یوسف میری جان جلائی
۔۔۔
مولوی غلام رسول عالمپوری کا یوسف زلیخا
اور اٹھاٹ گ ب کا قصہ گو مہر محمدشفیع
مستنصر حسین تارڑ نے کہیں لکھا ہے کہ ان کے بچپن کی بھولی بسری یادوں میں سے ایک سبز چولے میں ملبوس ملنگ فقیر ہے۔ اس کی داہنی کلائی میں کچھ کڑے ہیں
اور اسی ہاتھ میں تیل پلایا لکڑی کا ایک گول ڈنڈا ہے۔ گاوٗں کی گلیوں میں گھومتا یہ فقیر آہنی کڑوں پر لکڑی کے بانس کی کھنک سے ایک مجذوب سی لے تخلیق کرتا گاتا پھرتا ہے
جس ویلے یعقوب نبی تھیں یوسف ہوگیا راہی
اپنے باپ یعقوب علیہ السلام سے ان کے پیغمبر بیٹے یوسف کے بچھڑ جانے کے یہ بول جو بقول تارڑ سامعین کی آنکھوں میں آنسو لے آتے تھے ہمارے مصنف کو قصہ یوسف زلیخا کے خالق مولوی غلام رسول عالمپوری تک لے جاتے ہیں
بالکل ایسے ہی ایک بھولی بسری یاد ہماری یادوں کی پوٹلی میں سےبھی جھانکتی ہے
’ آدمی کی یاد کا لنگر بھی کیا عجب منظر ہے۔ ‘
۔۔۔
کچھ تو ہے کہ چک نمبر اٹھاٹ گ ب رام گڑھ کا مغربی رُخ اس دِل کے آئینے پر نقش ہے۔
شاید اس سبب سے کہ گاوٗں کے اسی مغربی رُخ کی جانب شفیع آرائیں کے کھیت شروع ہوتے تھے۔ بالکل ایسے جیسے کہ نادار لوگ کے ’یکوب اوان‘ کے کبیر سنگھ والا کے
جنوبی رُخ پر شروع ہوتے تھے، اور پلٹتےسمے کبیرے کے جنوبی رُخ کا عکس اس کی پتھر ہوتی پتلیوں پر ٹھہر گیا تھا۔
یا پھر اس سبب سے کہ ڈیگر ویلے گاوٗں کو پلٹتے ڈھور ڈنگروں کے گلے کی گھنٹیاں اہلسنت والجماعت کی مسجد کی قربت میں چلتی آٹا چکی کی کوُ کوُ کے ساتھ مدغم ہوتی تھیں
تو’عین وہی وقت ہوتا‘جب اٹھاٹ گ ب رام گڑھ کےمغربی رُخ پر پڑتی پہلونٹی کی گلی میں ڈھلتے سورج کی کرنیں آرائیں برادری کے کوٹھوں اور ان کی ممٹیوں پر پڑتی انہیں اجالتی اس مٹیالے سونے میں پل بھر کو ٹھہر جاتیں۔ بالکل ایسے جیسے خس و خاشاک زمانے کے امیر بخش اور سوہن سنگھ شہر کےجنگل سے
انٹاریو کے برفاب رکھوں کے شہر میں آج کرسمس ہے
دسمبر کے مانند بھیگے کہربار اِس دل پر یادوں کی برف گرتی ہے
پاس کے ایک کلیسا میں دور کہیں ساز بجتے ہیں
اور گزرے دنوں کی جلتی بجھتی انگیٹھی میں جھلملاتے دو منظر ہیں
۔۔۔
جھنگ مگھیانے کا درویش، میونخ کی شالاط
ساہیوال ابھی منٹگمری ہے، اور فرید ٹاوٗن ابھی سٹیلائٹ ٹاوٗن۔ تو صاحبو، اسی سٹیلائٹ ٹاوٗن کا ایک کوارٹر ہے جس کے صحن میں دو آم کے درخت اور درجن بھر گلاب کے پودوں سے پرے ایک مقفل کِواڑ ہے جسکی درزوں سے جھانکتی چھچھلتی اپنے نہ ہونے کی ہونی کے اندیشوں میں لپٹی ایک نظر ہے
کہ چلتی چلی جاتی ہے اور گلی کی نکڑ پر جا ٹھہرتی ہے
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں، کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
آخری آرام گاہ
حاجی محمد عالم لوہار
ـــ
کاکول اکیڈیمی میں ہر چھ ماہ کے بعد ٹرم کے اختتام پر ایک ماہ کی چھٹیاں ہوتیں تو ایبٹ آباد میں اترتی شام کے دھندلکے میں بیرونی گیٹ پر نصرتِ خداوندی سے دی جانے والی فتح کی بشارت کے جلو میں ایک میلہ سجتا۔ اس دن اکیڈیمی کا پارکنگ لاٹ
ایک چھوٹے موٹے لاری اڈے کا منظر پیش کرتا۔ پنڈی وال کیڈٹ تو کوسٹرز اور ویگنوں میں بیٹھ مریڑ چوک یا پھر سیروز سینما کی راہ لیتے۔ لاہوریوں کو لے جانے والی بڑی فلائنگ کوچ بسیں ہوتیں جو کاکول سے بادامی باغ کی شست باندھے جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتی چلتی چلی جاتیں۔
ہم گنتی کے مسکین کراچیائٹ ایک لمبے سفر کو دو حصوں میں بانٹ پہلی تقسیم میں انہی فلائنگ کوچوں میں لاہوریوں کے ہم سفر بنتے۔ رات بھر کے سفر کے بعد یہ کوچیں لاری اڈے پہنچتیں تو ہم کراچی والے لاہور ریلوے سٹیشن کے بکنگ کلرک کی بند کھڑکی کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے کہ بعد از فجر
دنیا کے لذیذ ترین ٹھپّر
نور والوں کا ڈیرہ
ـــ
غالباً کیا یقیناً رمضان کا مہینہ تھا، وہ اس لیےکہ روزوں کے ہی دن تھے جب بھوک کے عالم میں جمعے کی نماز اور افطار کے درمیان اپنے اشفاق احمد کا لکھا یہ اشتہا انگیز قصہ پہلے پہل پڑھا۔ تب انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی چار برس بیت چکے تھے۔
ٹل پوسٹنگ کے دنوں میں ہمارے کمانڈنگ افسر کرنل بھٹی ہمارے ’کتاب دوست‘ بنے۔ اگوکی میں یہ ’اعزاز‘ کیپٹن بخاری کو حاصل تھا جو یونٹ ایڈجوٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے روم میٹ محض اس بنا پر بنے کہ کتب بینی اور موسیقی میں ہمارا ذوق بہت ملتا تھا۔
اگوکی کی عباسیہ سے ٹل والی میڈیم رجمنٹ میں پوسٹنگ ہونے پر ہمارے مطالعاتی شوق نے بھی ترقی پائی اور ایڈجوٹنٹ سے کئی درجے اوپر اب یونٹ کے سی او سے یاری گانٹھ لی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں کو ’یاری گانٹھ لینے‘کی اس ترکیب میں مبالغے کی آمیزش نظر آئے تو صاحبو ایک
گورا جھوٹ نہیں بولتا
سکول بس کی فلیشنگ لائٹس، ڈیف چائلڈ ایریا
ـــ
شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیوں کے برعکس بہت پرانی بات نہیں ہے، ایک دہائی سے بھی کم کا قصہ ہے، اور پھر یہ بھی تو شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانی نہیں ہے۔
🧵
تو صاحبو ایک دہائی سے چند ایک برس اِدھر کا قصہ ہے جب زندگی اور اس کے محلِ وقوع نے کروٹ بدلی اور ہم اس دیس کو پدھارے تو ہمارے عزیز دوست نے یاد دہانی کروائی کہ ’بھائی جا‘ اب گریٹ وائٹ نارتھ جارہے ہیں۔
ہمارے من پسند شاعر سلیم کوثر نے کہا تھا
تمھیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کرلیتے
الحمدللہ زندگی میں کوئی گھٹن نہیں تھی اور نہ ہی اس کا خوف، مگر اپنی جنم بھومی، ایک عمر کے یارانوں اور دوستیوں اور جس دھرتی کے شہروں اور قصبوں سے عشق کیا تھا،