وہ وقت جب بغداد میں اسلامی سلطنت کا زوال ہوا اور ہلاکو خان نے ظلم و بربریت سے بغداد کی پرسکون فضاء کو تباہ و برباد کیا تو علم حاصل کرنے کی غرض سے موجود ایک مسافر نے حالات دیکھ کر شکستہ دلی کے ساتھ وہاں سے کوچ کیا۔ لیکن پھر وہ کسی ایک جگہ کے قیام پر مطمئن نہ ہوسکے اور
(1/15)
(2/15)
اطراف عالم کو دیکھنے کے آرزو مند ہوۓ۔
دوستو۔۔!
آج بات کرتے ہیں اس مشہور زمانہ شخصیت کی جن کی رباعیاں اور حکاٸتیں دنیا بھر میں پڑھی اور پڑھاٸی جاتیں ہیں اور انکی لکھی کتابیں بلاشبہ شاہکار ہیں۔
اس شخصیت کا اسم گرامی شرف الدین تھا لقب مصلح الدین اور سعدی تخلص ہے۔ اور
(3/15)
عام طور پر دنیا انہیں شیخ سعدی رح کے نام سے جانتی ہے۔
آپ ایران کے شہر شیراز میں تقریباً 1184 ع میں عبداللہ شیرازی کے گھر پیدا ہوئے۔
آپ کے والد عبداﷲ شیرازی ملک کے حکمران سعد زنگی کے پاس کام کرتے تھے۔
شیخ سعدی کو بچپن ہی سے ادب اور شعرو شاعری کا شوق تھا اس لیے بچپن
(4/15)
سے ہی حاکم وقت کے نام کی مناسبت سے آپ نے ”سعدی“ تخلص تجویز کرلیا تھا۔
بعد ازاں اواٸل لڑکپن میں والد کی وفات کے بعد آپ نے شیراز کےعلما سے ابتداٸی تعلیم حاصل کی اور پھر شیراز سے بغداد آئے جہاں انہوں نے مشہور استاذ عبدالرحمن بن جوزی سےفقیہانہ تعلیم پائی۔آپ امام شافعی رح
(5/15)
کے پیروکار تھے۔
بغدار پر تاتاریوں کی یلغار اور مسلمانوں کی تباہی دیکھ کر وہ مسلمانوں کے زوال پر بہت رنجیدہ تھے مگر اپنے چاروں طرف انسانیت سوز اور دہشت کے ماحول کے باوجود انہیں انسانوں سے اچھی امید تھی اور اس لیے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اخلاقیات اور خیرو شر کی وضاحت
(6/15)
کرنے پر صرف کردی۔
شیخ سعدی نے جس قدر اچھائی اور بھلائی کی وکالت کی ہے وہ اسی قدر عملی اور حقیقت پسندانہ مفکر بھی تھے۔ جس دور میں شیخ سعدی زندگی گزار رہے تھے وہ انتہائی متشدد اور سفاکیت سے بھرا دور تھا۔ انہوں نے زندگی کے اگلے تیس سال سفر میں گزارے۔
ان کے وطن سے طویل
(7/15)
باہر رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شیراز اور ان کے گرد و نواح کے علاقوں میں امن و امان نہ تھا۔ یہ زمانہ مظفرالدین سعد بن زنگی کی حکومت تھا۔
1236ء میں سعد زنگی فوت ہوا تو عنان حکومت اس کے بیٹے مظفر الدین ابوبکر بن سعد بن زنگی نے سنبھالی۔
اس نے تاتاریوں سے مصلحت کرکے
(8/15
فارس کو قتل و غارت سے بچایا اور اہل فارس کو امن و امان نصیب ہوا ۔
جب دور دور تک اسکے عدل و انصاف کی خبریں پہنچیں تو شیخ سعدی کو وطن واپسی کا خیال آیا اور وطن کی محبت بالآخر انہیں شیراز لے آئی۔
آپ نے تقریبا سو سال زندگی پاٸی۔ جس میں تیس سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے، تیس سال
(9/15)
سیروسیاحت کی، تیس سال تصانیف لکھنے میں گزارے اور بقیہ زندگی گوشہ نشینی میں گزار دی۔
ایک یہ بھی ان کی عظمت کی دلیل ہے کہ آج تقریباً 800 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ایران سے باہر کے ممالک میں ان کی تصنیف کردہ کتاب گلستان کسی نہ کسی شکل میں درسی نصاب میں ضرور شامل ہے۔
(10/15)
شیخ سعدی رح کو ان کے اقوال زریں کی وجہ سے بہت شہرت حاصل ہے جن میں سب سے زیادہ مشہور "بنی آدم" اور "گلستان" کا حصہ ہے۔
سعدی کو گلستان اور بوستان تحریر کیے ہوئے بہت سے خزاں کے موسم گزر چکے ہیں لیکن صدیوں پہلے شیراز واپس آنے کے بعد ان کی گٸی پیشن گوئی کے مطابق ان کی حکمت
(11/15)
اور دانشمندی سےبھری یہ کتابیں وقت کی آزمائش پر پوری اتری ہیں۔
شیخ سعدی کی ایک عربی رباعی بہت مشہور ہے۔
بلغ العلےٰ بکمالہٖ
کشفَ الدُجیٰ بجمالہٖ
حسُنت جمیعُ خِصالہٖ
صلو علیہ و آلہٖ
ترجمہ:
پہنچے بلندیوں پہ ، وہ ﷺ اپنے کمال سے
چھٹ گئے اندھیرے آپ ﷺ کے حسن و جمال سے
(12/15)
آپ کی سبھی عادات مبارکہ اور سنتیں بہت پیاری ہیں
آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر سلام ہو
مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسول میں تین مصرعے کہے ،کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ بن پا رہا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی حضور سرور کائنات
(13/15)
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔
شیخ سعدی نے تینوں مصرعے سنائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو
”صلو علیہ و آلہ“
اور یوں حضرت شیخ سعدی کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔
(14/15)
اللہ تعالیٰ نے شیخ سعدی رح کی اس رباعی کو شرف قبولیت بخشا۔
ہندوستان سے ملتان کے حاکم نے قاصد بھیج کر آپ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی مگر ضعف و کمزوری کی وجہ سے آپ نے معذرت کرلی تھی۔ آپ نے اپنی باقی عمر شیراز کی ایک خانقاہ میں گوشہ نشینی اختیار کر کے گزاری، جو شیراز سے
(15/15)
ڈیڑھ میل کے فاصلے پر رکن آباد کے کنارے واقع ہے۔
بعد از وفات اسی خانقاہ میں انہیں دفن کیا گیا۔
آپ کا مزار سعدیہ کے نام سے مشہور ہے جس کے اردگرد ایک شاندار باغ ہے جو کہ مرجع خلائق ہے۔
بعد از وفات تربت ما در زمیں مجوی
درسینہ ھای مردم عارف مزار ما است
چاچا افلاطون بقلم خود
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Swat
” یہ ایک یہودی تھا جو سکائی ویز ہوٹل میں رکا ہوا تھا شام کا وقت تھا شور مچا اور میں وہاں چلا گیا تب تک اس کا ہوٹل والے اسے چھڑوا گئے تھے اور وہ بازار کی طرف بھاگ گیا میں اور میرے ایک دوست نے اس کا پیچھا کیا اسے خور بازار میں پکڑ لیا میں نے اسے پکڑا میں نے اس کا بیگ ⬇️
کھینچا لیکن اس نے مزاحمت کی میں نے اسے چپیڑے ماری لوگوں نے اسے پھر مجھ سے چھڑوا لیا یہ رکشے میں وہاں سے چلا گیا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے بازار کے پرلے کنارے پر پھر پکڑ لیا ہم نے تو پھر مارنا شروع کیا تو لوگوں نے پھر چھڑوا لیا لوگ مجھ سے ثبوت مانگ رہے تھے میں نے ⬇️
کہا ثبوت میرے پاس ہے لیکن لوگ نہ مانیں اور اس سے انہوں نے اسے چھڑوا لیا اور پھر میں نے ایس ایچ او کو فون کیا ایس ایچ او صاحب آئے اور موبائل میں ڈال کے اسے تھانے لے گئے ہم بھی ساتھ ساتھ تھانے پہنچ گئے اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس نے 25 دن⬇️
خواتین پر تہمت و بہتان جیسی غلاظت پھینکنا غلیظ منافقین کا پرانا ہتھکنڈا ہےجو رٸیس المنافقین عبداللہ بن ابی سے لیکر جنرل ایوب خان ،فرزند جنرل ضیاالحق(نواش ریف) سے ہوتا ہوا موجودہ جنرل تک تقریباً ایک طرز پر جاری ہے۔عبداللہ بن ابی نے پاک بی بی ام المومنین حضرت عاٸشہؓ پر بہتان (1/4)
(2/4)
درازی کی۔ جنرل ایوب نے بانی پاکستان قاٸداعظم رح کی سگی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر الیکشن لڑنے کی وجہ سے غلیظ ترین الزامات کی بوچھاڑ کرواٸی۔ جنرل ضیا کے سیاسی تخم نواش ریف نے ذوالفقار بھٹو کی صاحبزادی بےنظیر بھٹو کے الیکشن لڑنے پر ایڈٹ شدہ ننگی تصاویر بذریعہ ہیلی کاپٹر
(3/4)
جگہ جگہ پھینکواٸی۔ جب عمران خان سیاسی میدان میں اترا تو اسکی بیوی جماٸمہ کے خلاف اسقدر پروپیگنڈے کیےگٸے کہ انکی طلاق تک ہوگٸی۔ اور اب عمران خان کو جُھکانےکیلیے موجودہ غلیظ جنرل ٹولا اسکی بیوی #BushraBibi پر ن لیکی سوشل میڈیا کو قابو میں کرکے اسقدر بہتان اور غلیظ پروپیگنڈے
آٸی ایس پی آر نے انتہاٸی پیشہ وارانہ انداز میں میڈیا ٹاک کرتے ہوۓ فرمایا کہ
” پاک فوج کا بٹگرام میں انتہاٸی پیچیدہ اور مشکل ریسکیو آپریشن مکمل“
اب زرا یہ اصل حقاٸق پڑھیے اور کمپنی کے ان دلالوں پر لعنت بھیجنا ہرگز نہ بھولیے
”میرا تعلق چونکہ بٹگرام سے ہے اس لیے آج کے واقعے ⬇️
کا اصل منظرنامہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں, الائی ضلع بٹگرام کی تحصیل ہے جس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے, یہ ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ ہے جو کہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن سہولیات زندگی خاص کر سڑکیں اور پل نہ ہونے کی بنا پر یہاں کے باشندے دو پہاڑوں کے درمیان ⬇️
اس طرح کے چیئر لفٹ لگا کر اس کے زریعے سفر کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کی چیزیں سپلائی کرتے ہیں, اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک گھنٹوں کا سفر چند منٹوں میں کٹ جاتا ہے دوسرا جب بارش کے وقت ندیوں میں طغیانی کی وجہ سے زمینی راستے بند ہوجاتے ہیں تو لوگ انہی چیئر لفٹ کے زریعے ⬇️
سلطنت بنو امیہ اور سلطنت پاکستان کے وساٸل ، جگہ اور وقت مختلف ضرور ہیں لیکن تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی رہتی ہے۔
جس وقت عبد الملک بن مروان کی خلافت کی بیعت ہوئی تھی اسی وقت اس کے دو بیٹوں ولید اور سلیمان کی ولی عہدی کی بیعت بھی ہوئی تھی ۔جس کا سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ (1)
(2) عبدالملک کی خلافت کے بعد ولید خلیفہ بنے گا اور اس کے بعد سلیمان بنے گا ۔
ولید نے اپنے دور خلافت میں چاہا کہ اپنے بھائی سلیمان کو معزول کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد نامزد کر دے ۔ جس پر حجاج بن یوسف نے ولید کے اس منصوبے میں اس کی حمایت کی ۔حجاج کی حمایت بہت معنی
(3) رکھتی تھی کیونکہ وہ عراق اور مشرقی اضلاع کا گورنر تھا اور جتنا رقبہ اس کے زیر انتظام تھا، وہ کم و بیش نصف مملکت تھی ۔ گویا اس حمائت کا مطلب یہ تھا کہ حجاج اپنے زیر انتظام علاقوں میں عبدالعزیز کی ولی عہدی کی بیعت کی حمائت کرے گا ۔یہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا، بلکہ اس کی
کیا ہم سب بھی کوفی ہیں؟؟؟
”کوفہ کسی ایک جگہ کا نام نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں ظلم ہے اور اس پر چپ رہنے والے موجود ہیں، وہ جگہ کوفہ ہے“ یہ الفاظ واقعہ کربلا کے شاہد اور مظلوم حضرت امام علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ہیں۔
اہل کوفہ وہ بے حس ٹولہ تھا جو ایمان کی
(1/5)
(2/5)
کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بزدلی کی وجہ سے کوفی کہلایا۔
اپنے تمام تر تنوع کے باوجود کوفہ اپنے بہادروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بزدلوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ایک استعارہ بن گیا ہے بے حسی اور بے عملی کا۔ یہ ظالموں کے گروہ کا نام نہیں ہے، بلکہ اس ظلم پر چپ رہنے والے
(3/5)
مجمعے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کی شکل ہے جہاں کسی ایک مظلوم گروہ کو ایک ظالم گروہ مسلسل ظلم کا نشانہ بناتا ہے، لیکن اس ظلم سے نفرت کے باوجود لوگ تماشائی بنے اپنی اپنی عافیت گاہوں میں دبکے رہتے ہیں۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخاطَب بھی یہی لوگ تھے،
*عمران خان اور پاک فوج کے ٹکراؤ کی اندرونی کہانی کیا ہے.*
یہ ننگی حقیقت تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ عمران خان اور فوج کے درمیان مسائل کا خراب ہونا، کرپشن کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ کرپشن کے سب سے زیادہ کیسز تو pdm سرکار اور پھر عوامی عدالت کے مطابق خود سابقہ جرنیلوں پر (1)
(2) ہیں. ایک بات جو 75 سالہ سیاست میں مشترک ہے جس کے خلاف سارے سیاستدان چیختے رہے ہیں وہ پاک فوج کا غیر آئینی کردار ہے بُھٹو سے نواز شریف اور زرداری سے عمران خان تک سب کی ریکارڈنگز آن دی سکرین موجود ہیں کہ پاک فوج اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتی ہے اور پھر ڈنڈے کے زور پر عدلیہ،
(3) انتظامیہ اور حکومتوں کے اختیارات جبراً اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے اور پورا ملک لاقانونیت اور اقتصادی مشکلات کی دلدل میں پھنس جاتا ہے.
ابھی عمران خان اور فوج کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے بقول عمران خان کہ پاک فوج نے 9 اپریل کو اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اسے گھر