ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ھے؟
جواب ملا
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ھے
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے
🔰
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے
(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استمعال کرتے تھے۔
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے
🔰
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا
🔰
گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے
آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے
آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم ضرور ہوتے ہیں
🔰
آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔
ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی
آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے
🔰
اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے
🔰
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے
اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں
غریب ہوں
آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے
ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.
🔰
سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی اسٹیٹس کم و بیش ایک جیسا تھا توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھتے تھے جبکہ آجکل تنہائی پسندی ہے، علم کم مگر عمل بہتر تھا
اس دور میں اللہ کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں لیکن اکثر شکر توکل اور باہمی تعلقات کمزور ہیں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ضلع راجن پور کے شہر کوٹ مٹھن سے اگر چاچڑاں شریف کی جانب جائیں تو بے نظیر برِج پر چڑھنے سے پہلے دائیں ہاتھ پر ایک کچا راستہ مڑتا ہے جہاں دریا پار کرنے کے لیئے ایک عارضی پل قائم تھا۔ اِس پُل کے نزدیک حفاظتی بند کے ساتھ ایک حیران کُن منظر آپ کو اپنی جانب متوجہ کرے گا
🔰🔰
۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے یہاں ماضی میں کوئی بحری جنگ لڑی گئی ہو اور دشمن اپنے جہاز چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ یہاں آپ کو لہلہاتے اور سر سبز کھیتوں کے کنارے کیچڑ میں دھنسا ہوا ایک دیو ہیکل لوہے کا بحری جہاز نما ڈھانچہ نظر آئے گا، یہ "انڈس کوئین" ہے۔
🔰🔰
سابقہ ریاست بہاول پور کا "ستلج کوئین" جس سے کچھ دور ایک سٹیمر اور دو کشتیاں بھی اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہیں
اس کی مکمل تاریخ کے لیئے ہمیں ماضی کا چکر لگانا ہو گا۔ برِصغیر میں جب برٹش راج قائم ہوا تو سندھ سے پنجاب تک پُختہ سڑک اور ریلوے لائن نہ ہونے کی وجہ سے
🔰🔰