لگتا ہے کہ پاکستان ،پاک فوج اور پاکستان کی مایہ ناز انٹیلیجنس کو کمزور کرنے کا وہ ایجینڈا جو دہشت گرد اے پی ایس حملے اور 80 ہزار پاکستانیوں کے خون کے بعد بھی الحمدللہ حاصل نہیں کر سکے ، اس ایجینڈے کو اب پاکستان کی بدنام زمانہ نام نہاد عدلیہ پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ ایجینڈا پاکستان کے خلاف بہت عرصے سے برسر عمل ہے اور نوازشریف کا بدنام زمانہ بیانیہ بھی اس ہی ایجینڈے کا حصہ ہے۔
یہ وہ نام نہاد عدلیہ ہے جس کا شمار بھاری مراعات بٹورنے کے بعد بھی کرپشن کے لحاظ سے دنیا کی بدترین عدلیہ میں ہوتا ہے اور جس کے ہوتے ہوئے تمام پاکستانیوں کی
متفقہ رائے یہ ہی ہے کہ پاکستان میں انصاف نہیں ہے۔ گرمیوں کی تین تین مہینے کی چھٹیاں پرتعیش مقامات پر گزارنے والی اس عدلیہ کے پاس ہزاروں کے حساب سے کیس ملتوی پڑے رہتے ہیں ۔
اس اندھی اور بزدل عدلیہ نے پاکستانیوں کا خون بہانے اور چوسنے والے تمام بڑے مجرموں کو مکمل آزادی اور
تحفظ دیا ہوا ہے جب کہ یہ بس سرکاری عہدیداروں اور ملازمین پر غصے وغیرہ دکھا کر اور ان پر اپنا رعب جما کر اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس عدلیہ کے دباؤ میں آنے کی بھی عجیب و غریب کہانی ہے، مثال کے طور پر پہلے تو بھٹو اور اس کے ساتھی چار ملزمان کو تمام گواہان اور ثبوتوں کی
بنیاد پر پھانسی چڑھا دیتی ہے اور پھر کئی سال بعد نئی ہوا کے رخ پر ان کا ایک جج بیان دے دیتا ہے کہ وہ پھانسی کا فیصلہ دباؤ میں دیا گیا تھا۔ اس ہی طرح نوازشریف کو واضح کیس میں سزا دینے کے بعد ایک وڈیو سامنے آتی ہے جس میں جج مافیا کے بندوں سے ملاقات کرتا ہے اور یہ کہتا ہوا پایا جاتا
کہ مجھ پر دباؤ تھا ، پھر جب اس بیان پر انکوائری ہوتی ہے تو بتاتا ہے مجھے نوازشریف گینگ دھمکیاں دے رہا تھا اور نوازشریف کے بیٹے نے مجھ سے فلاں دنوں میں مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر میں ملاقات کر کے نوازشریف کے حق میں فیصلہ دینے کے لئیے ملاقات بھی کی تھی اور پچاس کروڑ رشوت دینے کی
آفر بھی کی تھی۔ اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ یہ عدلیہ غلط یا تاخیری فیصلے دینے والے اپنے ججوں کی خلاف کوئی قرار واقعی اقدام بھی نہیں اٹھاتی بلکہ اس بارے میں انتہائی بے شرمی سے خاموشی اختیار کرتی ہے۔ اور بھی طرفہ تماشا یہ کہ اس عدلیہ نے توہین عدالت کا ہتھیار بھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
اس عدلیہ کے ماڈل ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن کے قاتلوں سے تو پاؤں کانپتے ہیں اور وہاں اصل ذمہ داران کے بارے اس کے سوالات کی سیٹی گم ہو جاتی ہے ۔
آپ اس عدلیہ کی حالت دیکھیں کہ سانحہ اے پی ایس جس وزیراعظم کے ہوتے ہوئے ہوا اس وقت اس وزیراعظم سے تو سانحے کے بارے میں سوال تک نہیں کیا بلکہ
اسے اس کے دیگر جرائم میں بھی تحفظ دیتی رہی اور یہاں تک کہ اس وزیراعظم کو تو صرف پچاس روپے کے اسٹام پر بیرون ملک فرار کی سہولت فراہم بھی کردی جس کے دور میں سانحہ ہوا تھا لیکن بعد میں آنے والے وزیراعظم سے سوالات کر رہی ہے۔
اور پھر آپ اس عجوبہ عدلیہ کے سوالات اور ریماکس بھی دیکھیں
کے کس طرح کے ہوتے ہیں۔ نوازشریف کے کیس میں اس کا سوال تھا کہ یہ ضمانت دی جائے کہ نواز شریف کی زندگی کو کچھ نہیں ہو گا ۔ آج اے پی ایس کی سماعت میں جب وزیراعظم نے کہا کہ لواحقین کی دلجوئی کے لئیے ریاست پاکستان نے ہر ممکن اقدام کئیے تو ایک جج کے ریمارکس تھے کہ لواحقین کو دلجوئی نہیں
بلکہ انہیں ان کے بچے چاہئیں۔ کون پوچھے ان سے کہ زندگی کی گارنٹی کیسے دی جا سکتی ہے یا پھر جو جدا ہوگئے انہیں کیسے واپس لایا جا سکتا ہے ۔ یہ عقل سے عاری عدلیہ محض سستے قسم کے ڈائیلاگ بولنے کے قابل ہی ہے۔آپ اس قسم کے سوالات اور اس قسم کے ریمارکس دینے والی
عدلیہ کی ذہنی پختگی کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو اس عدلیہ نے ملک اور قوم کے لئیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو آج ملک میں انصاف اور قانون کا یوں جنازہ نہ نکل رہا ہوتا جیسے سندھ میں وڈیرے
عام غریب لوگوں کی جانوں اور عزتوں سے کھلم کھلا کھیلتے پھر رہے ہیں۔
اس تمام ڈرامہ قسم کے نام نہاد عدالتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
عرب ممالک میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھے کہ آپ کو عربی زبان آ جاتی ھے۔
اور عربی زبان آجائے تو کسی حد تک قرآن سمجھ میں آنا شروع ہو جاتا ھے۔ عرب
قرآن تو آپ ترجمے کے ذریعے بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن لہجے آپ ترجمے سے نہیں سجھ سکتے۔
لہجے آپ کو عربیوں سے سمجھ آئیں گے۔
جیسا کہ
سٹور میں جب کوئی بچے اپنے والدین کے ساتھ آئیں۔ والدین شاپنگ کر کے بل پے کر کے جانے لگیں۔
بچہ جو کہ مختلف شیلف کے سامنے کھڑا ھے۔
میں نے یہ لینا ھے میں نے وہ لینا ھے۔
باپ پہلے پیار سے کہتا ہے
“تعال یا ولد" ( آ جاؤ بیٹا)
بیٹا پھر بھی کھلونوں والی شیلف یا
چاکلیٹ سیکشن میں کھویا ہوا ھے اور اس کا بس نہیں چل رہا وہ سب اُٹھا لے۔
پھر باپ سختی سے کہتا ھے
“حی”
“دوڑ کر آؤ" ( چلو )
محسوس کیا آپ نے کہ جب تھوڑا سختی سے کہنا ہو لہجہ تھوڑا حتمی کرنا ہو تو الفاظ بدل گئے,
"تعال" کی جگہ "حی" آ گیا۔
اور "تعال" کے بعد پھر گنجائش ھے۔
ایک دکاندار سے پوچھا گیا
کس طرح اس چھوٹی اور بند گلی میں اپنی روزی روٹی کما لیتے ہو ؟ دکاندار نے جواب دیا: میں جس سوراخ میں بھی چھپ جاؤں موت کا فرشتہ مجھے ڈھونڈ نکالے گا تو یہ کس طرح ممکن ہے رزق والا فرشتہ مجھے نہ ڈھونڈ سکے
*♥️ 2۔ حکایت دوم*
ایک نیک اخلاق وکردار کا حامل لیکن غریب لڑکا کسی کے گھر اس کی بیٹی کا رشتہ لینے گیا
بیٹی کا باپ بولا :
تم غریب ہو اور میری بیٹی غربت اور تکالیف
کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی اس لئے میں تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے سکتا ۔
پھر ایک بد اخلاق و بدکردار لڑکا
اسی لڑکی کا رشتہ لینے گیا تو اس کاباپ رشتہ دینے کیلئے راضی ہوگیا اوراس کے بد اخلاق ہونے کے بارے میں یہ کہا اللّٰہ اس کو ہدایت دے گا انشاءاللہ تو اس کی بیٹی نے کہا : باباجان کیا جو اللّٰہ ہدایت دے سکتا ہے وہ رزق نہیں دے سکتا ؟؟؟
یا ان دونوں خداؤں میں کوئ فرق ہے ؟
ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ھوا "شیوانا" (قبل از اسلام ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا.. "میری ماں نے فیصلہ کیا ھے کہ معبد کے کاھن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے.. آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں.."
شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ھے کہ عورت نے بچی کے ھاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ھیں اور چھری ھاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رھی ھے
بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے اور بُت خانے کا کاھن بڑے فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رھا تھا
شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ھے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رھی ھے مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاھتی ھے
شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رھی ھے
حملہ کرنے والے افغانی،
پلاننگ افغانستان میں،
حملے کے دوران رابطہ افغانستان سے،
پاکستان میں حملہ آوروں کے سہولت کار افغانی،
حملہ آور تنظیم کا مرکز افغانستان،
حملے کا ماسٹر مائنڈ خراسانی جس کو افغانستان نے چار گھر دے رکھے ہیں،
دوران اٹیک حملے کو لیڈ کرنے والا نعمان شاہ ہلمند بھی افغانی،
حملے پر پوری دنیا روئی لیکن افغانی واحد قوم ہیں جو اس حملے پر بھی " خواند ی شتہ" کے سٹیٹس سوشل میڈیا پر لگاتے نظر آئے۔
افغان اسٹیبلسمنٹ اور لر و بر کے علمبرداروں نے ستر سالوں میں پاکستانیوں اور خاص طور پر پشتونوں کو جو زخم لگائے ہیں ان میں اے اپی ایس پر حملہ سب سے گہرا زخم تھا جو شائد کبھی مندمل نہ ہوسکے۔
حملے میں مجموعی طور پر 149 لوگ شہید ہوئے جن 134 بچے تھے۔ جب کہ 121 زخمی ہوئے۔ سکول میں