A Mistaken Assassination
Lahore's Bombmaker
An Explosion on Ravi’s Banks
____
A bit of Rang De Basanti in #Lahore
New Year Special
🧵
On December 17, 1928 at 4:20 PM outside District Police Office Lahore a shot rang out, followed by multiple bullets emptied onto a fallen European
Soon after a poster would appear on Lahore's walls
"J.P. Sauders is dead!
Lala Lajpatrai is avenged!"
It would say ....was it so?
John Poyntz Saunders, 21 was on probation in Lahore when killed
Saunders in fact was innocent. It was Superintendent of Police James Scott who revolutionaries were looking for and mistook Saunders for him
Scott was responsible for Lala Lajpat Rai’s death about a month earlier
Scandal Point in Shimla hosts a statue. A majestic figure with index finger raised as if convincingly addressing an audience
The podium introduces him as Lala Lajpat Rai, "The Great Patriot of Punjab"
The statue once stood in Gol Bagh near Lower Mall Lahore before it got smuggled
Lower Mall’s Gol Bagh remember the roaring speeches of Lalaji as the walls of Rettigon Road’s Bradlaugh Hall
Lala Lajpat Rai, an anti-colonial leader, is remembered as Lion of Punjab
One of his gifts to Lahore is Gulab Devi Hospital, but for now we shall focus on ‘the revolution’
In November of 1928 a political rally left Mochi Gate of Lahore towards Railway Station
They were protesting the Simon Commission shouting that iconic slogan “Simon Go Back”
Lalaji was in this procession when it was intercepted by a police contingent led by James A.Scott
This scene from Indian movie Rang de Basanti depicts the action that followed
Shot in the movie at Lahore Railway Station this actually happened outside Delhi Gate
‘Lathi Charge’ on Scott's orders inflicted injuries that proved fatal for Lalaji who later expired in a hospital two
In avenging Lala Lajpat Rai’s death, Bhagat Singh would find his rise to fame in our popular history of freedom struggle
That December evening it was Bhagat Singh with his accomplices Jai Gopal and Rajguru and Chandra Shekhar Azad who took on Saunders
A.G. Noorani in his book on Trial of Bhagat Singh has included a Site Plan of 'the murder' based onto which the team at lums.edu.pk has made a nice animation (link at the end of this thread)
My readers my revisit the happenings on Google Earth animation here 👇
Now from Dev Samaj road what happened next is brought to us by Majid Sheikh the teller of the tales of old Lahore
Having attained a clean run the group disappeared in Krishan Nagar, the next night they came to Lakshmi Chowk and went to Bhagwati Charan’s House on Nisbet Road
Now Bhagwati Charan was another revolutionary in Lahore but we shall come to him in a bit
First the story of the great escape of Bhagat Singh
Assisted by the genius of Durgawati Devi who posed as his wife with her 3 years old son, 'the couple' manage to flee to Calcutta
Bhagat Singh would be caught later upon his arrival back to Lahore but that, dear reader, is a different story
We shall come back to Bhagwati Charan who along with his wife Durgawati Devi resided in Lahore while actively working under Hindustan Socialist Republican Army (HSRA)
Other than being a gifted orator, Bhagwati’s expertise was in bomb making
How extreme and radical were young revolutionaries of their time we can sense in an excerpt from Vohra’s ‘Philosophy of the Bomb’ an article he co-authored in reply to Mahatma Gandhi’s ‘The Cult of Bomb”
Our bomb maker in Lahore was onto something
Later as the events took a new turn and Bhagat Singh with his compatriots faced trial in the court, Bhagwati planned of bombing Lahore Jail at a time when Bhagat was being escorted to a court hearing with an aim to help him flee
But here, lady luck had other plans
Bhagwati and his friends had taken a boat on Ravi to reach a wooded patch in between the stream to test the efficacy of the bomb
A loose trigger caused a premature explosion that proved fatal for Bhagwati and injured Sukhdev
Here Majid Sheikh tells us that his wife Durgawati was also present on the scene where a profusely bleeding Bhagwati forcing everyone to leave let himself to the deadly depths of Ravi to avoid a capture by police
Some accounts state that his dead body was cremated beside Ravi
Of all the characters of this socialist revolution, our Durgawati Devi outlived all
After her husband’s death she actively continued the struggle
During late 1930s she settled in Lucknow
An educator in her later life our ‘Durga Bhabhi’ breathed her last in Ghaziabad in Oct of 99
انٹاریو کے برفاب رکھوں کے شہر میں آج کرسمس ہے
دسمبر کے مانند بھیگے کہربار اِس دل پر یادوں کی برف گرتی ہے
پاس کے ایک کلیسا میں دور کہیں ساز بجتے ہیں
اور گزرے دنوں کی جلتی بجھتی انگیٹھی میں جھلملاتے دو منظر ہیں
۔۔۔
جھنگ مگھیانے کا درویش، میونخ کی شالاط
ساہیوال ابھی منٹگمری ہے، اور فرید ٹاوٗن ابھی سٹیلائٹ ٹاوٗن۔ تو صاحبو، اسی سٹیلائٹ ٹاوٗن کا ایک کوارٹر ہے جس کے صحن میں دو آم کے درخت اور درجن بھر گلاب کے پودوں سے پرے ایک مقفل کِواڑ ہے جسکی درزوں سے جھانکتی چھچھلتی اپنے نہ ہونے کی ہونی کے اندیشوں میں لپٹی ایک نظر ہے
کہ چلتی چلی جاتی ہے اور گلی کی نکڑ پر جا ٹھہرتی ہے
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں، کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
آخری آرام گاہ
حاجی محمد عالم لوہار
ـــ
کاکول اکیڈیمی میں ہر چھ ماہ کے بعد ٹرم کے اختتام پر ایک ماہ کی چھٹیاں ہوتیں تو ایبٹ آباد میں اترتی شام کے دھندلکے میں بیرونی گیٹ پر نصرتِ خداوندی سے دی جانے والی فتح کی بشارت کے جلو میں ایک میلہ سجتا۔ اس دن اکیڈیمی کا پارکنگ لاٹ
ایک چھوٹے موٹے لاری اڈے کا منظر پیش کرتا۔ پنڈی وال کیڈٹ تو کوسٹرز اور ویگنوں میں بیٹھ مریڑ چوک یا پھر سیروز سینما کی راہ لیتے۔ لاہوریوں کو لے جانے والی بڑی فلائنگ کوچ بسیں ہوتیں جو کاکول سے بادامی باغ کی شست باندھے جی ٹی روڈ پر فراٹے بھرتی چلتی چلی جاتیں۔
ہم گنتی کے مسکین کراچیائٹ ایک لمبے سفر کو دو حصوں میں بانٹ پہلی تقسیم میں انہی فلائنگ کوچوں میں لاہوریوں کے ہم سفر بنتے۔ رات بھر کے سفر کے بعد یہ کوچیں لاری اڈے پہنچتیں تو ہم کراچی والے لاہور ریلوے سٹیشن کے بکنگ کلرک کی بند کھڑکی کے باہر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے کہ بعد از فجر
دنیا کے لذیذ ترین ٹھپّر
نور والوں کا ڈیرہ
ـــ
غالباً کیا یقیناً رمضان کا مہینہ تھا، وہ اس لیےکہ روزوں کے ہی دن تھے جب بھوک کے عالم میں جمعے کی نماز اور افطار کے درمیان اپنے اشفاق احمد کا لکھا یہ اشتہا انگیز قصہ پہلے پہل پڑھا۔ تب انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی چار برس بیت چکے تھے۔
ٹل پوسٹنگ کے دنوں میں ہمارے کمانڈنگ افسر کرنل بھٹی ہمارے ’کتاب دوست‘ بنے۔ اگوکی میں یہ ’اعزاز‘ کیپٹن بخاری کو حاصل تھا جو یونٹ ایڈجوٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے روم میٹ محض اس بنا پر بنے کہ کتب بینی اور موسیقی میں ہمارا ذوق بہت ملتا تھا۔
اگوکی کی عباسیہ سے ٹل والی میڈیم رجمنٹ میں پوسٹنگ ہونے پر ہمارے مطالعاتی شوق نے بھی ترقی پائی اور ایڈجوٹنٹ سے کئی درجے اوپر اب یونٹ کے سی او سے یاری گانٹھ لی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں کو ’یاری گانٹھ لینے‘کی اس ترکیب میں مبالغے کی آمیزش نظر آئے تو صاحبو ایک
گورا جھوٹ نہیں بولتا
سکول بس کی فلیشنگ لائٹس، ڈیف چائلڈ ایریا
ـــ
شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیوں کے برعکس بہت پرانی بات نہیں ہے، ایک دہائی سے بھی کم کا قصہ ہے، اور پھر یہ بھی تو شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانی نہیں ہے۔
🧵
تو صاحبو ایک دہائی سے چند ایک برس اِدھر کا قصہ ہے جب زندگی اور اس کے محلِ وقوع نے کروٹ بدلی اور ہم اس دیس کو پدھارے تو ہمارے عزیز دوست نے یاد دہانی کروائی کہ ’بھائی جا‘ اب گریٹ وائٹ نارتھ جارہے ہیں۔
ہمارے من پسند شاعر سلیم کوثر نے کہا تھا
تمھیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کرلیتے
الحمدللہ زندگی میں کوئی گھٹن نہیں تھی اور نہ ہی اس کا خوف، مگر اپنی جنم بھومی، ایک عمر کے یارانوں اور دوستیوں اور جس دھرتی کے شہروں اور قصبوں سے عشق کیا تھا،
بیدیاں کے غازی
جیسور کے باغی
ـــ
مشرقی بنگال کےآتش بجانوں کو سلام
لاہورمیں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈکی زیرِنگرانی اس فوجی قبرستان میں پینسٹھ کی جنگ کے شہیدوں کی قبریں اوریادگاریں ہیں۔ یہیں ایک یادگاراپنی جنم بھومی سےہزاروں میل دورلڑنےوالوں کو
یادکرتی ہےجو اتنی مداراتوں کےبعدبھی اجنبی ٹھہرے۔ یہ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ عرف سینیئرٹائیگرزکےپندرہ شہداء کی یادگارہےجوپینسٹھ کی جنگ میں وطن پرنثارہوگئے۔
لاہورسےقصورکی نیت کرتےہوئےفیروزپورروڈ پکڑیں توقریب قریب نصف راستےکی مسافت پرللیانی کاسٹاپ آتاہےجس کاموجودہ نام مصطفیٰ آباد ہے۔
مین روڈ کے ساتھ للیانی کےقبرستان میں بھی گنجِ شہداء کے نام سے ایک گوشۂ سکون ہے جہاں ایک چاردیواری میں فاتحِ کھیم کرن 5 فرنٹیئرفورس کے وہ سپوت دفن ہیں جو ستمبر پینسٹھ کی جنگ میں کھیم کرن اور اس سے کچھ آگے کی مفتوحہ زمینوں کو دونیم کرتے شہید ہوئے
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
غازۂ رُوۓ شھادت زینتِ قوم و وطن
عزیز بھٹی کی کہانی
ـــ
تارڑ صاحب کی راکھ کی طرح ۔۔ چارچیزیں ہیں ۔۔ جو مجھے لادیاں بلاتی ہیں ۔۔ ان میں ایک کھاریاں چھاؤنی سے پھولوں کی چادر چڑھانے کی فل ڈریس ریہرسل ہے ۔۔ اور کچھ کھُدےان کھُدے مورچوں سے پلٹتی کوٹلہ ارب علی خان کی اداس شام ہے ۔۔
اور منگلا کینٹ میں ایک ہم نفس کی معیت میں یادوں سے دُھل کے نکلتی رات ہے ۔۔ اور برکی کی قربت میں بی آر بی نہر ہے ۔۔
نشانِ حیدرکاتغمہ اپنی چوڑی چھاتیوں پر سجائے، ہمارے جانبازوں کی تربتوں تک، جن تک کہ ہم پہنچ پائے، خود کھوجتے ہوئے پہنچے، ماسوائے ایک شہید کے۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید وہ ہیں جنہوں نے خود ہمیں بلاوہ بھیجا، ایک دفعہ کی بات نہیں، پورے چار مرتبہ۔ گجرات کے شمال اور کھاریاں کے مشرق میں ایک چھوٹا سا گاؤں لادیاں، جسکا نام شاید کھاریاں ہوتا اگر اکبرِ اعظم کے دور میں جب یہ پہلے پہل آباد ہوا قرعۂ فال کھاری گوت کے نام کا نکل آتا،