▪سیاہ رنگت ہے
مگر سفید جوڑا پہننے کا دل ہے اور آپ لوگوں کے تمسخر سے خوفزدہ ہیں تو ڈنکے کی چوٹ پر سفید پہنو پروا مت کرو لوگ کیا کہیں گے۔۔🥰
▪بھری محفل میں چاول کھانے ہیں مگر ہاتھ سے کھانے کی عادت ہے،اور ماڈرن لوگوں کے مذاق
اڑانے کی عادت سے ڈرتے ہو،تو پریشان مت ہوں
چمچ اٹھا کر مزہ خراب مت کرنا۔۔🙃
▪قد کے چھوٹے ہو ،
رقیبوں کی محفل میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھو خود کو کمتر سمجھو گے تو روندے جاو گے۔😇
▪کیا ہوا جو تمہارے دانت باہر ہیں کھل کر ہنسو تمہاری ہنسی نے کسی کی غلامی کی بیڑیاں نہیں پہن رکھی۔۔🖤
بند کر دو۔۔۔۔
سر پر کالا رنگ لگا لگا کر خود کو جوان کہلوانا۔
کاٹن کا اکڑا ہوا لباس پہنو ہاتھ پر گھڑی سجاو سفید چمکتے ہوئے بالوں کو ایک طرف کر کے سپرے کرو ماتھے پر ایک بل ڈالو اور اپنے دبدبے سے چلو۔۔😎😎
▪بیوہ ہو؟ کس نے کہہ دیا چوڑیاں توڑو؟
میلے کچیلے کپڑے پہنو،
جاو الماری سے
نیلا لباس نکال کر پہنو میچینگ کی چوڑیاں پہنو اور جاو خاندان میں شادیوں پر۔۔ کوئی تم کو گھورے کہ بیوہ کو دیکھو زرا۔۔ تو اس کے قریب جا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو نان آف یور میٹر۔۔ 🖤🖤
♡خود کو کبھی بھی احساس کمتری کا شکار مت بنائیں، یہ دنیا والے آپ کو خاص وہیں چوٹ
لگائیں گے جہاں سے آپ کمزوری دکھاو گے۔۔۔
▪بہت جی لیا دوسروں کے لیے اب جیو اور ایسے جیو کہ لگے ہاں یہ تمہاری اپنی زندگی ہے۔۔
وعدہ کریں آپ عمل کریں گے۔۔؟
💕💕💕
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں ریڈیو اناؤنسر نے اپنے مہمان سے جو ایک عرب پتی شخص تھا ، پوچھا :" زندگی میں سب سے زیادہ خوشی آپ کو کس چیز میں محسوس ہوئی؟"
وہ کروڑ پتی شخص بولا:
میں زندگی میں خوشیوں کے چار مراحل سے گزرا ہوں اور آخر میں مجھے حقیقی خوشی کا مطلب سمجھ میں آیا.
سب سے پہلا
مرحلہ تھا مال اور اسباب جمع کرنے کا. لیکن اس مرحلے میں مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو مجھے مطلوب تھی.پھر دوسرا مرحلہ آیا قیمتی سامان اور اشیاء جمع کرنے کا. لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس چیز کا اثر بھی وقتی ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتی.
پھر تیسرا مرحلہ آیا
بڑے بڑے پروجیکٹ حاصل کرنے کا. جیسے فٹ بال ٹیم خریدنا، کسی ٹورسٹ ریزارٹ وغیرہ کو خریدنا . لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کا میں تصور کرتا تھا.
چوتھی مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ میں کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیرس خریدنے میں حصہ لوں.
دوست کی بات پر میں
ڈاکٹر تیزی سے ہسپتال میں داخل ہوا ، کپڑے تبدیل کیے اور سیدھا آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھا ۔ اسے ایک بچے کے آپریشن کے لیے فوری اور ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا ۔
ہسپتال میں موجود بچے کا باپ ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر چلایا ، ”اتنی دیر لگا دی؟ تمہیں پتا نہیں میرا بیٹا کتنی سخت اذیت میں ہے ،
زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ، تم لوگوں میں کوئی احساس ذمہ داری نہیں ہے؟“۔
”مجھے افسوس ہے میں ہسپتال میں نہیں تھا ، جیسے ہی مجھے کال ملی میں جتنی جلدی آ سکتا تھا آیا ہوں “ ، ڈاکٹر نے مسکرا کر جواب دیا ۔ ”اب میں چاہوں گا کہ آپ سکون سے بیٹھیئے تاکہ میں اپنا کام شروع کر سکوں“
”
میں اور سکون سے بیٹھوں ، اگر اس حالت میں تمہارا بیٹا ہوتا تو کیا تم سکون سے بیٹھتے ؟ اگر تمہارا اپنا بیٹا ابھی مر رہا ہو تو تم کیا کرو گے؟“ باپ غصے سے بولا ۔
ڈاکٹر پھر مسکرا کر کہا، ” ہماری مقدس کتاب کہتی ہے کہ ہم مٹی سے بنے ہیں اور ایک دن ہم سب کو مٹی میں مل جانا ہے ، اللہ
عمران خان کی سوا 3 سالہ کارکردگی کا خلاصہ
آٸینہ کی طرح صاف ایک کہانی میں لکھ لیا ہے برائے مہربانی
بڑے غور سے پڑھیں 👇
کسی گاؤں میں ایک بیروزگار مسٹنڈا رہتا تھا۔
مسٹنڈے نے ساتھ والے گاؤں میں ہونے والے ایک کبڈی ٹورنامنٹ کو بھی جیتا ہوا تھا۔
ایک دن مسٹنڈے نے کچھ لفنگے ساتھ لیئے
اور شور مچانا شروع ہوا کہ گاؤں کے بازار میں جو اکلوتا ہوٹل موجود ہے اس ہوٹل کا مالک چائے میں ملاوٹ والا دودھ ملاتا ہے۔ کھانے میں آئل بھی صحیح نہیں استعمال کرتا اور گوشت بھی صاف نہیں ہوتا مجھے ہوٹل کھولنے دیں۔ میں بہترین تیل🍲 میں کھانا پکاؤں گا اور میرے پاس بہترین کک بھی ہیں اور
بہت صاف ستھرے ویٹر بھی۔ میں ایسا ہوٹل بناوں گا کہ دور دور سے لوگ کھانا کھانے ادھر آئیں گے"۔
لفنگوں نے ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ دیئے اور لفنگوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ کیونکہ مسٹنڈا کبڈی جیتا ہوا ہے اس لیے اسے ایک موقع ضرور ملنا چاہیے ۔
گاؤں میں کافی شور مچ گیا اور بالآخر گاؤں کے
ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو موسمیات کا وزیر لگا دیا ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیرِ موسمیات سے موسم کا حال پوچھاوزیر نے کہا کہ موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک اسی طرح رہے گابارش وغیرہ کا قطعاً کوئی امکان نہیں بادشاہ مطمئن ہوکر
اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا۔
اس نے کہا حضور! آپ کا اقبال بلند ہو‘ آپ اس موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟
بادشاہ نے کہا شکار پر
کمہار کہنے لگا‘حضور! موسم کچھ ہی دیر بعد خراب ہونے اور بارش کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
بادشاہ نے کہا ابے او
برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے ‘ تو کیا جانے موسم کیا ہے ؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیے بہت موزوں اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟
پھر بادشاہ نے ایک مصاحب کو حکم دیا کہ اس بے پر کی چھوڑنے والے کمہار کو دو جوتے مارے جائیں۔
بادشاہ کے حکم پر
کیا کہا وہ بہت اچھا ہے؟؟
ہمممم
ہو سکتا ہے بابا مگر مجھے تو ہمیشہ سولی پہ ہی چڑھائی رکھا ہے اُس نے
مگر پُتر میں نے یہ کب کہا ہے کہ جو سب کہ لیے اچھا ہے وہ ہمارے لیے بھی اچھا ثابت ہوگا؟
تو پھر؟
پھر یہ جھلے کہ جو دوسروں کے لیے نقصان دہ ہے وہ ہو سکتا ہے تیرے لیے بے ضرر ہو
اور یہ
بھی بالکل ممکن ہے کہ جو دوسروں کے لیے اچھا ہے وہ تیرے لیے ایک بھیانک حقیقت بن جائے
تو بابا پھر بندہ کس کو اچھا سمجھے کس کو غلط؟
پُتر ہمارے لیے اچھا وہی ثابت ہوگا جسے اُوپر والے نے ہم سے بھلائی کے لیے چنا ہوگا
جبکہ ہماری دشمن تو ہر وہ ذات ہوگی جس کہ معیار پہ ہم پورے نہ اُتریں گے
اسلئے پُتر خود اچھا بن اور اچھے لوگ ڈھونڈنے کی کوشش چھوڑ دے کیونکہ جب رب کی رضا ہوگی اچھے لوگ خودی تجھے ڈھونڈ لیں گے
اور محتاط رہ اُن لوگوں سے جو اچھائی کی آڑ میں برائی کی راہ لگا دیتے ہیں