Zahid Hussein Profile picture
Jan 30 25 tweets 8 min read
گنگا طیارہ ہائی جیکنگ -اکیاون سال پہلے 30 جنوری 1971 کا ایک واقعہ جس نے خطے کی تاریخ اور جغرافیہ بدل کر رکھ دیا۔ ایک ہائی جیکنگ تک سائیکل چلا کر پہنچنے، رن وے پر ٹہلنے اور ہسپتال کے کمروں تک چہل قدمی کرنے کی ایک کہانی جہاں ہائی جیکرز کا علاج کیا جا رہا تھا کہ وہ جلے ہوئے تھے
30 جنوری 1971 بروز ہفتہ لاہور کا ایک سرد دن تھا۔ جب میں اپنے دفتر پہنچا تو ہمارے کرائم رپورٹر پرویز چشتی (جنہیں ہم بابا چشتی کہتے تھے) نے مجھے کہا کہ فوری طور پر لاہور ایئرپورٹ پہنچ جاؤ کیونکہ وہاں ایک بھارتی ہائی جیک شدہ طیارہ اترا ہے۔ ان دنوں میرے
پاس موٹرسائیکل نہیں تھی۔ اس کے بجائے میں نے اپنی سائیکل لاہور کی سڑکوں پر چلانے کے لیے استعمال کی۔ چنانچہ میں تیزی سے سائیکل چلاتا ہوا ائیرپورٹ پہنچ گیا۔ ان دنوں کوئی سیکورٹی چیکنگ، کوئی تلاشی اور کوئی رکاوٹیں نظر نہیں آتی تھیں۔ میں رن وے پر
پہنچا جہاں کچھ نیوز رپورٹر جہاز سے تقریباً 200 فٹ دور کھڑے تھے۔ وہ ہائی جیکنگ پر اپنے خیالات کا تبادلہ کر رہے تھے۔ میں نے ایک فوکر طیارہ دیکھا جس کے کنارے پر گنگا کا نام لکھا ہوا تھا اور کچھ پولیس والے جہاز کے پاس کھڑے تھے۔ ایک رپورٹر نے مجھے
بتایا کہ جہاز میں مسافروں اور عملے کے ارکان کے ساتھ ہاشم قریشی اور اس کے کزن اشرف قریشی نام کے دو ہائی جیکر ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ کشمیری مجاہدین ہیں جنہوں نے جموں سے انڈین ایئر لائن کی پرواز کو ہائی جیک کیا اور پائلٹ کو زبردستی لاہور ایئرپورٹ پر
جہاز اتارنے کو کہا۔ انہوں نے بھارتی حکام سے جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ (جے کے این ایل ایف) کے کچھ کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جو بھارتی جیلوں میں بند تھے ۔ جے کے این ایل ایف کی قیادت مقبول بٹ (بھٹ) کر رہے تھے اور وہ ان دنوں پاکستان میں تھے۔ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو
کشمیریوں میں بہت مقبول تھے، ہائی جیکروں نے ان سے ملنے کا مطالبہ بھی کیا۔ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ ناکام مذاکرات کے بعد ان دنوں بھٹو ڈھاکہ سے لاہور آ رہے تھے۔ دسمبر 1970 کے عام انتخابات نے مشرقی پاکستان میں سیاسی افراتفری اور عدم استحکام پیدا
کر دیا تھا اور بھارتی مداخلت کا سلسلہ جاری تھا۔ بھٹو ہائی جیکروں سے ملے اور رن وے پر کھڑے ہو کر ان سے بات کی جبکہ ہائی جیکرز نے کاک پٹ کی کھڑکی سے ان سے بات کی۔ بھٹو نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ تمام مسافروں اور عملے کے ارکان کو رہا کر دیں یا کم از کم خواتین اور بچوں کو رہا کر دیں۔
مذاکرات کے بعد بھٹو نے ایئرپورٹ پر ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس دوران ہائی جیکرز نے تمام مسافروں اور عملے کو چھوڑ دیا۔ جنہیں ہوائی اڈے کے لاؤنج میں لایا گیا اور چائے اور دیگر لوازمات پیش کئے گئے۔ بعد ازاں دو بسیں انہیں لاہور کے ایک ہوٹل میں لے گئیں جہاں وہ ایک
یا دو رات رہے اور انہیں سڑک کے ذریعے حسینی والا سیکٹر پر پاک بھارت سرحد پر لے جایا گیا۔ وہاں سے انہیں بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ ادھر لاہور ہوائی اڈے پر لوگوں کا ہجوم ہائی جیکروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آرہا تھا جنہیں وہ (عوام) کشمیری مجاہدین کہتے تھے
۔ 2 فروری 1971 کی رات تک ہائی جیکر طیارے میں موجود رہے تو صحافی اپنے دن اور راتیں جہاز سے کے قریب ہی گزارتے رہے ۔ ہائی جیکنگ کی کوریج ایک منفرد کوریج ہوتی ہے۔ آپ جگہ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حکام کی طرف سے کمانڈو ایکشن، ہائی جیکرز طیارے کو
آگ لگا دیں یا وہ کوئی دھماکہ وغیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس دوران سرکار کی طرف سے کوئی مذاکرات کے لئے بھی آ سکتا ہے جیسے بھٹو صاحب نے اچانک آ کر بات کی تھی۔ 2 فروری 1971 کو رات تقریباً 11 بجے ہائی جیکروں نے طیارے کو آگ لگا دی اور جہاز سے چھلانگ لگا دی لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں
گرفتار کر لیا۔ جہاز سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور ہائی جیکر کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ میں نے کچھ تصاویر بنائیں اور اپنی سائیکل پر آفس کی طرف بھاگا ۔ خوش قسمتی سے میں اخبار کی کاپی چھپنے کے لیے پریس میں بھیجے جانے سے قبل چند تصاویر
لگوانے میں کامیاب ہو گیا۔ اور جلتے ہوئے طیارے کی چند تصاویر شائع ہو گئیں۔ بابا چشتی نے دفتر میں میرے کان میں سرگوشی کی "دونوں ہائی جیکرز کے ہاتھ اور بازو کچھ جلے ہوئے ہیں، وہ سروسز ہسپتال میں داخل ہیں، جا کر قسمت آزماؤ"۔
رات 2 بجے کے قریب اپنے کیمرے کے ساتھ سروسز ہسپتال میں
داخل ہونا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن میں نے یہ اہم تصاویر بنانے کے لیے کوشش کرنے کا فیصلہ کیا جو صرف میرے پاس ہی ہوتیں۔ میں سروسز ہسپتال پہنچا۔ انفارمیشن کاؤنٹر کی طرف گیا جہاں ایک نرس بیٹھی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مریض کس کمرے میں ہیں جنہیں لاہور ایئرپورٹ سے لایا گیا ہے؟
اس نے مجھے دونوں قریشیوں کے کمروں کے نمبر دیئے۔ میں دھیرے دھیرے چلتا ہوا ان کمروں کی طرف گیا جو تھوڑی دور تھے اور ایک کمرے کا دروازہ کھولا۔ میں نے ہائی جیکر ہاشم قریشی کو بستر پر دیکھا۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا۔ اور اپنے کیمرے رخ اس کی طرف کر کے دو شاٹس لیے۔ وہ خاموش تھا
اور صرف میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں خاموشی سے واپس ہوا، دروازہ بند کر کے دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں اشرف قریشی لیٹا ہوا تھا۔ میں نے اس کی بھی دو تصاویر بنائیں اور خاموشی سے سروسز اسپتال سے نکل آیا اور دفتر کے لیے روانہ ہو گیا۔ (آپ خوش قسمت ہیں
)۔ میں اپنے پیشے کے آغاز سے ہی ایک نظریہ رکھتا ہوں۔ کسی بھی اسائنمنٹ پر ایک اخباری فوٹوگرافر کی 50 فیصد اپنی کوشش ہوتی ہیں اور 50 فیصداس کی قسمت۔ یہاں بھی رات کے پچھلے پہر کچھ کوشش میں نے کی اور کچھ قسمت نے یاوری کی ورنہ میں کوشش کر کے پہنج تو گیا مگر اگر کوئی
سیکیوریٹی اہلکار روک دیتا تو میرے کوشش رائیگاں جاتی۔
اس دوران پاکستانی عوام بے چینی سے کشمیری مجاہدین کے زخموں سے صحت یاب ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ جب انہیں ہسپتال سے فارغ کیا گیا تو ہزاروں پاکستانیوں کی طرف سے انہیں ایک بہت بڑی ریلی میں لاہور شہر میں گھمایا گیا۔
اگلے روز انہیں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاؤالدین صدیقی نے مدعو کیا جہاں ہاشم قریشی، اشرف قریشی اور مقبول نے بڑی تعداد میں طلباء، صحافیوں،دانشوروں اور دیگر لوگوں سے خطاب کیا۔ پاکستان کے لیے صورتحال اس وقت اچانک خراب ہو گئی جب بھارت نے اپنے فوکر جہاز گنگا کو جلائے جانے
پر مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کے لیے اپنی فضائی حدود میں سے گذرنے والے تمام پاکستانی جہازوں کی پروازوں پر پابندی لگا دی۔ جس کے نتیجے میں کراچی یا لاہور سے ڈھاکہ تک طیاروں کے ذریعے سفر بہت طویل ہو گیا اور اب جہاز کراچی ۔ کولمبو۔ ڈھاکہ کا طویل سفر کرنے پر مجبور ہو گئے
جس سے ایندھن کی طلب بھی بڑھ گئی اور وقت بھی زیادہ صرف ہونے لگا ۔ اور مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان تک فوجی سازوسامان بھیجنے میں بہت مشکل پیش آنے لگی۔ یہ بات ظاہر ہوئی کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کو بھارت کی فضائی حدود استعمال نہ کرنے سے روک کر اپنا ہدف کامیابی سے مکمل
کر لیا تھا اور یہ ہائی جیکنگ بھارتی سازش تھی۔ پاکستانی حکام نے ہاشم قریشی، اشرف قریشی اور مقبول کو گرفتار کر لیا اور ان پر پاکستان میں لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا۔ دو سال جیل میں رہنے کے بعد مقبول اور اشرف کو رہا کر دیا گیا لیکن ہاشم قریشی 1980 تک جیل میں رہا۔ برسوں بعد
مقبول بٹ کو بھارتی حکام نے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی۔ ہاشم قریشی ہالینڈ اور انگلینڈ میں مقیم رہا جبکہ اشرف قریشی نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور آزاد کشمیر میں پڑھایا۔ اس کا انتقال 2012 میں آزادکشمیر پاکستان میں ہوا۔
#zahidpix #photographer #photojournalist

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Zahid Hussein

Zahid Hussein Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @zahidpix

Jan 28
تحریر: جہانگیر خان (جہانگیر خان)
چھوٹے سے کیمرے کے ساتھ معصوم سی شکل کا یہ آدمی ایک خطرناک قسم کا فوٹو جرنلسٹ ہے۔ جس نے نامساعد حالات میں مانگے تانگے کے ان ٹوٹے پھوٹے کیمروں سے پاکستان کی تصویری تاریخ محفوظ کی ہے۔ یہ تصویر اگست 1978 کی ہے جب وہ ریگل چو ک کراچی میں ڈکٹیٹر
جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے دوران صحافیوں کی تاریخی جدوجہد کو اس سادہ اور معمولی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر رہا تھا۔اخبارات پر بد ترین سنسرشپ نافذ تھا ۔ ذرا ذرا سی بات لکھنے پر اخبارات کو ہزاروں روپے کے جرمانوں کا نوٹس ملنا روز کا معمول تھا۔ سرکاری ہینڈ آؤٹ ، سرکاری خبر رساں
ایجنسی کی جاری کردہ خبروں اور پی ٹی وی سے نشر ہونے والی خبروں کے علاوہ کچھ بھی اور لکھنے اور چھاپنے پر پابندی تھی اور فوجی حکام کی اخبارات کے ایڈیٹرز کو دھمکیاں روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ ایسے میں صحافیوں کی پہلے مرحلے میں لاہور میں اور پھر کراچی میں مزدورں، ھاریوں اور طلبہ
Read 10 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(