تحریر: جہانگیر خان (جہانگیر خان)
چھوٹے سے کیمرے کے ساتھ معصوم سی شکل کا یہ آدمی ایک خطرناک قسم کا فوٹو جرنلسٹ ہے۔ جس نے نامساعد حالات میں مانگے تانگے کے ان ٹوٹے پھوٹے کیمروں سے پاکستان کی تصویری تاریخ محفوظ کی ہے۔ یہ تصویر اگست 1978 کی ہے جب وہ ریگل چو ک کراچی میں ڈکٹیٹر
جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے دوران صحافیوں کی تاریخی جدوجہد کو اس سادہ اور معمولی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر رہا تھا۔اخبارات پر بد ترین سنسرشپ نافذ تھا ۔ ذرا ذرا سی بات لکھنے پر اخبارات کو ہزاروں روپے کے جرمانوں کا نوٹس ملنا روز کا معمول تھا۔ سرکاری ہینڈ آؤٹ ، سرکاری خبر رساں
ایجنسی کی جاری کردہ خبروں اور پی ٹی وی سے نشر ہونے والی خبروں کے علاوہ کچھ بھی اور لکھنے اور چھاپنے پر پابندی تھی اور فوجی حکام کی اخبارات کے ایڈیٹرز کو دھمکیاں روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ ایسے میں صحافیوں کی پہلے مرحلے میں لاہور میں اور پھر کراچی میں مزدورں، ھاریوں اور طلبہ
کی حمایت سے چلنے والی تحریک نے مارشل لاء کے جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کر دی۔ کراچی والی تحریک چوراسی دن تک چلی جس کے بعد مارشل لاء انتطامیہ نے بین الاقوامی دباؤ برداشت نہ کرتے ہوئے صحافیوں کے مطالبات مان لئے اور بند کئے گئے اخبارت اور رسائل کو جاری رہنے کی اجازت
دینے کے ساتھ گرفتار شدہ صحافیوں، ھاریوں اور طلبہ کو رہا کر دیا ۔کراچی میں روزنامہ مساوات کے ساتھ ساتھ روزنامہ امن اور اعلان بھی روزانہ کی بنیاد پر صحافیوں کی گرفتاریوں کی خبر اور تصاویر چھاپتے تھے۔ مگر جب فوج کے آئی ایس پی آر کے کراچی میں سربراہ کرنل عقیل نے حکم جاری کیا کہ جو
فوٹوگرافرز ا ن گرفتاریوں کی تصاویر بنا رہے ہیں ان کو بھی گرفتار کر لیا جائے تاکہ اخبارات میں یہ تصاویر نہ چھپ سکیں تو پہلے تو امن کے فوٹوگرافر کو گرفتار کر لیا گیا اس کے بعد اعلان اخبار کی انتظامیہ نے اپنے فوٹوگرافر کو صحافیوں کے مظاہرے میں جانے سے روک لیا۔ چنانچہ اس کے بعد
اب صحافیوں کی گرفتاری کی تصاویر بنانے اور اخبارات کو مہیا کرنے کی ذمہ داری مساوات کے اس فوٹوگرافر جس کا نام زاہد حسین کے کاندھوں پر آن پڑی۔ یہ روزانہ مظاہرے کے مقام پر گرفتاریوں کے عین وقت پر آندھی کی طرح کسی سمت سے نمودار ہوتا تھا اور نعرے بازی اور پکڑ دھکڑ کے دوران دو چار
تصویریں بنا کر ایسا غائب ہو جاتا کہ سرکاری جاسوس اسے ڈھونڈتے ہی رہ جاتے۔اس نے دنیا کی تاریخ میں صحافیوں کی اس سب سے بڑی جنگ کو چوراسی دن تک بہ احسن و خوبی کور کر کے محفوظ کیا۔ اس کے علاوہ مارشل لاء کی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی کی جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں
بھی اپنا حصہ ڈالا اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری دیتے وقت کی تصاویر بنا کر اس کوبھی محفوظ کیا۔اس نے مارشل لاء دور میں پھانسیوں اور کوڑے لگائے جانے کی تصاویر بھی بنائیں اور انہیں محفوظ کیا۔ میں نے اس شخص کو کسی انعام، ایوارڈ یا تعریفی اسناد کے چکر میں پڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا
گنگا طیارہ ہائی جیکنگ -اکیاون سال پہلے 30 جنوری 1971 کا ایک واقعہ جس نے خطے کی تاریخ اور جغرافیہ بدل کر رکھ دیا۔ ایک ہائی جیکنگ تک سائیکل چلا کر پہنچنے، رن وے پر ٹہلنے اور ہسپتال کے کمروں تک چہل قدمی کرنے کی ایک کہانی جہاں ہائی جیکرز کا علاج کیا جا رہا تھا کہ وہ جلے ہوئے تھے
30 جنوری 1971 بروز ہفتہ لاہور کا ایک سرد دن تھا۔ جب میں اپنے دفتر پہنچا تو ہمارے کرائم رپورٹر پرویز چشتی (جنہیں ہم بابا چشتی کہتے تھے) نے مجھے کہا کہ فوری طور پر لاہور ایئرپورٹ پہنچ جاؤ کیونکہ وہاں ایک بھارتی ہائی جیک شدہ طیارہ اترا ہے۔ ان دنوں میرے
پاس موٹرسائیکل نہیں تھی۔ اس کے بجائے میں نے اپنی سائیکل لاہور کی سڑکوں پر چلانے کے لیے استعمال کی۔ چنانچہ میں تیزی سے سائیکل چلاتا ہوا ائیرپورٹ پہنچ گیا۔ ان دنوں کوئی سیکورٹی چیکنگ، کوئی تلاشی اور کوئی رکاوٹیں نظر نہیں آتی تھیں۔ میں رن وے پر