تخمِ بالنگا جسے عام زبان میں تخم ملنگا بھی کہا جاتا ہےجیسی قدرتی نعمت کو پاکستان میں بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے جو صحت کا ایک خزانہ ہونے کی بنا پر طبی فوائد سے بھرپور ہے
صرف شربت اور فالودہ بناتے وقت ہی تخمِ ملنگا کی یاد آتی ہے لیکن تاریخ میں اس بیج کو بطور کرنسی
بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ازطق سپاہی جنگ سے پہلے اسے کھاتے تھے کیونکہ یہ توانائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر تخمِ ملنگا کو دوڑنے والے کی غذا بھی کہا جاتا ہے۔
اعشاریہ چھ ملی گرام مینگنیز، 265 ملی گرام فاسفورس، 177 ملی گرام کیلشیئم کے علاوہ وٹامن، معدنیات، نیاسن، آیوڈین اور تھایامائن موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تخمِ ملنگا میں کئی طرح کے اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں
اب تخمِ ملنگا کے فوائد بھی جان لیجئے۔
جلد_نکھارے اور بڑھاپا_بھگائے
میکسکو میں تخمِ ملنگا پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں قدرتی فینولِک (اینٹی آکسیڈنٹ) کی مقدار دوگنا ہوتی ہے اور یہ جسم میں فری ریڈیکل بننے کے عمل کو روکتا ہے۔ اس طرح ایک جانب تو یہ جلد کے لیے انتہائی مفید ہے تو دوسری جانب بڑھاپے کو بھی روکتا ہے۔ #ہاضمے کے لیے مفید
فائبر کی بلند
مقدار کی وجہ سے تخمِ ملنگا ہاضمے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ السی اور تخمِ ملنگا خون میں انسولین کو برقرار رکھتے ہیں اور کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو بھی لگام دیتے ہیں۔ طبی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فائبر پانی جذب کرکے پیٹ بھرنے کا احساس دلاتا ہے اور وزن گھٹانے کے لیے انتہائی مفید ہے
اس کا استعمال معدے کے لیے مفید بیکٹیریا کی مقدار بڑھاتا ہے
تخمِ ملنگا کولیسٹرول گھٹاتا ہے، بلڈ پریشر معمول پر رکھتا ہے اور دل کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کا باقاعدہ استعمال خون کی شریانوں کی تنگی روکتا ہے اور انہیں لچکدار بناتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی وجہ سے
تخمِ ملنگا میں الفا لائنولک ایسڈ اور فائبر کی وجہ سے خون میں چربی نہیں بنتی اور نہ ہی انسولین سے مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ یہ دو اہم اشیا ہیں جو آگے چل کر ذیابیطس کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی لیے ملنگا بیج کا باقاعدہ استعمال ذیابیطس کو روکنے
جرنل آف اسٹرینتھ اند کنڈشننگ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق تخمِ ملنگا ڈیڑھ گھنٹے تک توانائی بڑھاتا ہے اور ورزش کرنے والوں کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ جسم میں استحالہ (میٹابولزم) تیز کرکے چکنائی کم کرتا ہے اور موٹاپے سےبھی بچاتا ہے۔
بقول منقول ایک اونس تخمِ ملنگا میں روزمرہ ضرورت کی 18 فیصد کیلشیئم پائی جاتی ہے جو ہڈیوں کے وزن اور مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں موجود بورون نامی عنصر فاسفورس، مینگنیز اور فاسفورس جذب کرنے میں مدد دیتا ہے اور یوں ہڈیاں اور پٹھے مضبوط رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ
زنک اور دیگر اجزا منہ اور دانتوں کی صحت برقرار رکھتے ہیں
اپنا اور اپنے اردگرد لوگوں کا خیال رکھیں جزاک اللہ خیرا کثیرا
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
*کیا آپکو معلوم ہے کہ "باپ" سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں؟*
*جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے*
ویسے ویسے ہی " باپ " مرنا شروع ہو جاتا ہے۔
جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو *باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے* بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ
کہیں *بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا* تو اس قیامت کو میں کیسے سہہ پاؤں گا ؟
جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں،
اور فیصلے لینے کے بعد
*باپ کو آگاہ کر کے*
" حجت " پوری کی جانے لگے تو
"بوڑھا شخص" تو زندہ رہتا ہے
پر اسکے *اندر کا " باپ " مرنا شروع ہو جاتا ہے*
باپ اس وقت تک زندہ
ہے جب تک اس اولاد پر اسکا حق قائم ہے۔
جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا ، *اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں* پر پھر بھی اسلئے ڈانٹا کہ
کہیں نا سمجھ اولاد خود کو *بڑی تکلیف* میں مبتلا نہ کر بیٹھے۔
ہماری نوجوان نسل محبت کے نشے میں اس قدر ٹن ہو جاتے ہیں کہ جب تک محبت نہ ملے صبر ہی نہیں کرتے۔ جیسے ہی محبوب آگے سے اظہار محبت کرتا ہے تو پھر دو کام ہوتے ہیں یا تو کچھ عرصہ بعد اس محبوب سے بوریت شروع ہو جاتی ہے یا پھر ہوس کی تسکین کا موقع مل جاتا ہے
مطلب اگر تو محبوب ہوس پر راضی ہو گیا تو ویل اینڈ گڈ اگر نہ ہوا تو لڑائی جھگڑا اور بوریت۔ پھر نئے جانو کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں طرف کا حال ہے لڑکیاں بھی اور مرد بھی ۔
لڑکیوں کی محبت میں شکل و صورت قد کاٹھ روپیہ پیسہ گاڑی گھر وغیرہ دیکھا ہے اس قسم کی محبت لالچی محبت کہلاتی
ہے
لڑکوں کی محبت میں کچھ نہیں دیکھا جاتا بس عورت ہو اور زندہ ہو وہ محبت کر لیتے ہیں ایسی محبت ہوس کہلاتی ہے۔
ایک اور طرح کی محبت بھی ہوتی ہے لڑکی اور لڑکے کو علم ہوتا ہے ہماری شادی نہیں ہونی پھر بھی ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور گناہ کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ایسی محبت
وزارتوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کی پروپیگنڈہ مشین اپنے عروج پر ہے۔ وہ ثانیہ نشتر، ڈاکٹر فیصل سلطان اور ملک امین اسلم جیسے ٹیکنو کریٹس اور مشیروں کا تذکرہ کرنے کے لیے بے چین ہیں لیکن وہ اصل وزراء کو فوراً نظر انداز کر دیتے ہیں۔
1- بی اے پاس پرویز خٹک پی ٹی آئی کے وزیر دفاع تھے۔
2- ایل ایل بی پاس فواد چوہدری آپ کے وزیر اطلاعات اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تھے۔
3- بی اے پاس شیخ رشید آپ کے وزیر داخلہ تھے۔
4- بی اے پاس غلام سرور پیٹرولیم اور ہوا بازی کے وزیر تھے۔
5- علی حیدر زیدی صرف بی کام کے ساتھ میری ٹائم منسٹر تھے۔
6- مراد سعید پوسٹل منسٹر کا گریجویشن
سکینڈل بہت مشہور ہے۔
7- زبیدہ جلال جو دفاعی پیداوار کی وزیر تھیں انگریزی ادب میں ڈگری رکھتی ہیں۔
8- مونس الٰہی بی بی اے کے ساتھ وزیر آبپاشی تھے۔
9- علی امین گنڈا پور ٹیکسٹائل ڈیزائن کی ڈگری کے ساتھ کشمیر کے وزیر تھے۔
10- وزیر سائنس شبلی فراز کے پاس آئی آر کی ڈگری ہے۔
11- فوڈ
” تھامس ایڈیسن مشہور عالم سائنسدان تھا..
اپنے بچپن میں بخار کے باعث وہ قوت گویائی سے محروم ہو گیا تھا.
جب وہ چھوٹا تھا.
تو ایک دن وہ سکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا کہ استاد نے دیا ہے کہ " اپنی ماں کو دے دو ."
ماں نے کھول کر پڑھا.
اور اس کی آنکھوں میں آنسو
آ گئے.
پھر اس نے با آواز بلند پڑھا.
” تمھارا بیٹا ایک جینئس ہے، یہ سکول اس کے لئے بہت چھوٹا ہے، اور یہاں اتنے اچھے استاد نہیں کہ اسے پڑھا سکیں سو آپ اسے خود ہی پڑھائیں. “
اس کے بعد اس کو پڑھانے کی ذمہ داری اس کی والدہ نے لے لی.
سالوں بعد جب تھامس ایڈیسن ایک سائنسدان کے طور مشہور
عالم ہو گیا تھا.
اور اس کی والدہ وفات پا چکی تو وہ اپنے خاندان کے
پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا.
اُس نے خط کو کھولا تو پر اس پر لکھا تھا.
” آپ کا بیٹا انتہائی غبی ( کند ذہن ) اور ذہنی طور پہ ناکارہ ہے... ہم اسے اب مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے.“
وہ اچھی نیک سیرت لڑکیاں جو آج یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انکو بُرقعے میں بھی مرد تاڑتے ہیں.... وہ اس جرم کی سزا بھگت رہی ہیں جو دوسری عورتوں نے کیئے ہیں...
مرد کو اپنی مردانگی یا حیوانگی آج سے 15 یا 20 سال پہلے تک کیوں نہیں کچھ کر سکی تھی؟ کیونکہ
تب تک صرف PTV کے نام سے ایک چینل ہوتا تھا اور ماؤں کی توجہ کا مرکز بھی بیٹیاں ہوتیں تھیں....
پھر چند عورتیں...... عورتوں کے حقوق کے نام سے نکلیں، بُرقعہ اتار دیا... بڑی سی چادر لے لی.... کچھ دن لوگوں کو معیوب لگا پھر عادت ہوگئی.... پھر چادر اتار دی چھوٹا سا دوپٹہ لے لیا... کچھ
دن عجیب لگا پھر عادت ہوگئی....
پھر وہ دوپٹہ اور چھوٹا ہوگیا اور گلے میں لینے لگیں، عجیب لگا پھر عادت ہوگئی.... پھر وہ دوپٹہ بھی غائب ہوگا، عادت ہوگئی.... جینز پہن لی عجیب لگا پھر سمجھ آگئی..... اب چھوٹی سی کاٹن کے باریک کپڑے والی ریڈی میڈ شرٹیں آگئیں، جن کو پہن کر جسم اتنا
کسی بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا :
یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں ؟ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے؟
وزیر نے کہا :
بادشاہ سلامت ، اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھیئے
بادشاہ نے پوچھا :
اچھا یہ
قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے ؟
وزیر نے کہا :
بادشاہ سلامت ، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر ، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیئے سو درہم ہدیہ ہے ، رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر ادھر اُدھر چھپ جائیں اور تماشہ دیکھ لیجیئے
بادشاہ نے یہ تجربہ
کرنے کا فیصلہ کیا اور جیسے وزیر نے سمجھایا تھا ، ویسے ہی کیا ، صراحی رکھنے کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا .
دستک سن کر اندر سے خادم نکلا ، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا درہم گِنے تو ننانوے نکلے ، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا خادم نے سوچا : یقیناََ