*عمران خان آخر کیا بلاتھا* ۔
1۔احساس کفالت پروگرام
2۔لنگر خانے
3۔شیلٹر ہوم کا قیام
4۔راشن کارڈ
5۔کسان کارڈ
6۔صحت انصاف کارڈ
7۔احساس سکالر شپ پروگرام
8۔انصاف آفٹر نون سکول
9۔انصاف معذور و بزرگ کارڈ
10۔مزدور کارڈ
11۔روشن ڈیجیٹل پروگرام
12۔خدمت ای مراکز کا قیام
13۔نیب کو با اختیار بنانا
14۔راست پروگرام
15۔سیرت یونیورسٹی کا قیام
16۔ٹورازم کا فروغ
17۔بلین سونامی ٹری کا آغاز
18۔ ٹیکس ریفارمز
19۔کرکٹ سے ہی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین
20۔پاکستان میں کرکٹ کی بحالی
21۔ پی ایس ایل کی کامیابی
22۔ای ٹرانسفر و پنشن کا قیام
23۔بھاشا، ۔مہمند اور واسو
ڈیم پر کام کا آغاز
24۔اپنا گھر سکیم کا قیام
25۔بلا سود قرضے کی سکیم
26۔21 نئی یونیورسٹیوں پر کام کا آغاز
27۔اور 23 نئے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں پر کام ۔
28۔پاکستان سٹیزن پورٹل کا قیام
29۔رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی کا قیام
30۔ہر فورم پر حرمت رسولؐ پر آواز اٹھانا
31۔پی آئی اے، پی ٹی وی اور
این ایچ اے کو منافع بخش ادارہ بنانا
32۔زمینوں کی ڈیجیٹلائزیش
33۔دنیا کی 11ویں بڑی آئل ریفائنری کا قیام
34۔خیبر پی کے میں یتیم خانے اور اولڈ ہوم کا قیام
35۔سری لنکا کے مسلمانوں کو مرنے کے بعد جلائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی
36۔کشمیر اور فلسطین کی آواز اٹھائی
37۔سکولوں میں صبح درود شریف اور قرآن پاک کی تعلیم کا آغاز
38۔قرآن کی تعلیم کے بغیر ڈگری دینے کا قانون ختم کرنا
39۔یکسان نظام تعلیم لاگو کرنے کی کوشش
40۔ریکوڈک منصوبے ہر کام ۔
41۔سعودی عرب سے مزدوروں کی رہائی۔
42۔پوری دنیا کی حاکمیت صرف اللہ کے پاس ہے اس چیز کو پوری دنیا میں باور کرانا ۔
43۔قوم کے اندر خوداری پیدا کرنا
عمران خان آخر تم کیا بلا تھے کہ سب تمہارے خلاف ہو گئے ۔
میں پہلے سے بھی زیادہ جذبے کے ساتھ عمران خان کے ساتھ ہوں
کیونکہ عمران خان تم عزم،شجاعت ،بہادری،اور
خودداری کی علامت ہو پاکستان میں
تم واقعی میں مسلم امہ کے لیڈر ہو ۔
ہار،جیت،اٹھنا گرنا،یہ وقتی باتیں ہیں۔ یہ دنیا داری ہے۔ تم دنیا کی عظیم فکر کے وارث ہو ۔ اصل جیت ہی فکر اور نظریہ کی جیت ہوتی ہے اور وہ تم جیت چکے ہو ۔
تم نے قوم کو یہ بتا دیا ہے کہ یہ نظام کتنا گندا نظام ہے ۔
ہم کھڑے تھے۔
ہم کھڑے ہیں ۔
ہم کھڑے رہیں گے۔
اتحاد کے ساتھ ۔
ایمان کے ساتھ۔ عمران خان کے ساتھ
منقول
23 فروری 2022 کو پہلا خوف ناک ایشو پیدا ہوا‘ کولمبو پورٹ پرآئل کیریئر 40ہزار ٹن فیول (پٹرول) لے کر پہنچا‘بینک آف سیلون نے پٹرول کی پے منٹ کرنی تھی لیکن بینک کے پاس ڈالر ختم ہو گئے‘ وزیرخزانہ سے رابطہ کیا گیا۔
وزیرخزانہ نے اسٹیٹ بینک سے بات کی لیکن اس کے پاس صرف دو ارب اور
30کروڑ ڈالر تھے اور وہ بھی کرنسی کی شکل میں نہیں لہٰذا پٹرول نہ خرید سکااور جہاز پٹرول سمیت انڈیا روانہ ہوگیا‘ یہ سری لنکا کے دیوالیہ پن کا اسٹارٹ تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مہاتمابودھ کا پسندیدہ ملک 49دنوں میں مکمل دیوالیہ، سری لنکا نے 12اپریل کو خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کردیا۔
ہم نے دیوالیہ کا صرف لفظ سنا ہے‘ ہم اس کے نتائج اور ردعمل سے بالکل واقف نہیں ہیں‘ میں لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنتا ہوںہم اگر دیوالیہ ہو بھی گئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کی ایک تقریر آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ فرما رہے تھے ہم سے جو بھی ملک اپنے
میانچنوں کے بزرگ باسیوں کو آج بھی یاد ہو گا کہ “پُھدو کمیٹی تے مَنٌا چئیرمین” کی بازگُشت میانچنوں شہر و متصل دیہات کی فضاؤں میں بڑے عرصے تک گونجتی رہی، اِس فقرے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ،
غالباً ساٹھ کی دہائی کی بات ہے کہ
کمشنر ملتان ڈویژن میانچنوں میونسپل کمیٹی کی تقریبِ حلف برداری کے لئے تشریف لائے، اُس وقت میانچنوں میونسپل کمیٹی کی دُھوم پورے ملتان ڈویژن میں مچی ہوئی تھی، وجۂ دُھوم تھی کہ ایک غیر معروف، اَن پڑھ اور پینڈو قسم کے شخص جو کہ اپنی عُرفیت "مَنٌ" سے مشہور تھا، نے غُلام حیدر وائیں
جیسے گھاگ، زیرک، تجربہ کار سیاستدان کو چئرمینی کے الیکشن میں شکست سے دوچار کر دیا تھا۔
عام روایت ہے کہ جب بھی کوئی شخصیت بطور مہمان کسی تقریب میں جاتی ہے تو پہلے مرحلے میں عموماً میزبان مہمان سے اپنے ساتھیوں اور رفقاء کا فرداً فرداً تعارف کرواتا ہے، یہاں بھی کمشنر صاحب پنڈال میں
اقبال احمد انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے‘ والد زمین کے جھگڑے میں ان کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو گئے‘ 1947میں اپنے بھائی کے ساتھ بہار سے پیدل لاہور پہنچے‘ ایف سی کالج میں داخلہ لیا‘ اکنامکس میں ڈگری لی اور اسکالرشپ پر کیلی فورنیا امریکا کے کالج میں داخل ہو گئے اور
سیاست اور مڈل ایسٹ ہسٹری پڑھنا شروع کر دی، ابن خلدون کی محبت میں گرفتار ہوئے اور خود کو مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے لیے وقف کر دیا‘ نوم چومسکی‘ ایڈورڈ سعید اور ارون دتی رائے جیسے دانشور اقبال احمد سے متاثر ہوئے اور انھیں اپنا دوست بنا لیا‘ یہ ان کی محفل میں اٹھنے
بیٹھنے لگے‘ زندگی کی سختیوں اور عالمی دانشوروں کی صحبت نے انھیں جنگ کا دشمن اور عالمی نظام معیشت کا مخالف بنا دیا اور یہ کھل کر کمیونزم کا پرچار کرنے لگے‘یہ پوری دنیا میں لیکچر دیتے تھے اور لوگ ٹکٹ خرید کر ان کا لیکچر سنتے تھے‘ بڑے بڑے دانشور ان سے متاثر تھے‘
💢 *امریکی مصنف ڈینیل مارکے اپنی کتاب ”نوایگزٹ فرام پاکستان“ میں لکھتا ہے کہ ہم امریکن پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے، اسکی وہ تین وجوہات بتاتا ہے۔*
👈 پہلی وجہ۔۔۔پاکستان کا نیوکلیئر و میزائل پروگرام اتنا بڑا اور ایکسٹینسو ہے کہ اس پر نظر رکھنے کیلئے
ہمیں مسلسل پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا پڑے گا۔
👈 دوسری وجہ۔۔۔۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے چین کی سول ملٹری قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں چین پر نظر رکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔
👈 تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج ہے کہ نہ صرف ریجن کو
بلکہ پوری دنیا کو ڈی سٹیبلائز کر سکتی ہے۔ پاک فوج پر نظر رکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔
⭕ وہ مزید لکھتا ہے کہ ہم نے 72سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو ڈویلپ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور پاکستان کو اسلامی دنیا کو بھی لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی
فرینک شمیڈٹ ایک جرمن الیکٹریکل انجنئیر تھا جو جنرل مشرف دور میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئرمین بنایا گیا تھا.
بجلی چوری روکنے کے لئے اسکو ٹاسک دیا گیا کہ دیکھا جائے کہ کون کون بجلی چوری میں ملوث ھیں. چھ مہینے تک پوری کراچی اور اسکے مضافات کا سروے کر کے ایک رپورٹ
وفاقی حکومت کے پاس بھجوائی گئی کہ پچاس فیصد حکومتی ادارے خود بجلی چوری میں ملوث ھیں اور چالیس فیصد صنعت کار یعنی انڈسٹریل والے چوری کر رھے ھیں
اور دس فیصد کچی ابادیاں اور غریب طبقہ بجلی چوری میں ملوث ھیں.لیکن حکومت چاہتی ھے
کہ ابتداء غریب اور کچی آبادیوں سے شروع کی جائے. تو
فرینک شمیڈٹ نے کہا کہ یہ تو ظلم ھے کہ نوے فیصد بڑے چوروں کو چھوڑ کر دس فیصد غریب اور بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کے خلاف کاروائی کی جائے. کم از کم میں یہ آپریشن نہیں کر سکتا ھوں.
فرینک نے کہا کہ اگر نوے فیصد بجلی چوروں سے ریکوری کی جائے تو دس فیصد غریب لوگوں کو چھوڑ کر انکو مفت
میڈیا گردی، اسٹاک مارکیٹ اور اقتصادی ترقی کے مصنوعی اشاریے
دو روز سے کارپوریٹ میڈیا میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں پوائنٹس کی بہتری کے چرچے ہیں، عام آدمی کو تاثر دیا جارہا ہے کہ شہباز شریف کے حلف اٹھاتے ہی قومی معیشت میں مثبت رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ غالباً یہ قومی یادداشت کے
ضعیف ہونے کی علامت ہے۔ کیا گزشتہ برس کی رپورٹ بھول گئے ہیں؟ جس میں انکشاف ہوا کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج مارکیٹ پر 31 بااثر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے تیار کی تھی۔
اس رپورٹ میں اسٹڈی مارکیٹ میں کارپوریٹ گروپوں اور اسٹاک مارکیٹ
میں ان کی ملکیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کمپنی بورڈ کو کس طرح کمپنی کے ڈھانچے اور پیشہ ورانہ انتظام پر مالک اور اس کے کنبہ کے اثر و رسوخ کی جانچ پڑتال کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے اس پر نظر ڈال کر کارپوریٹ گورننس کو ہائی لائٹ کیا ہے.