شہبازشریف نے وزارت عظمی کا حلف اٹھاتے ہی پیپلزپارٹی سے وزراء کی لسٹ مانگی تو آصف علی زرداری نے وزراء کی لسٹ دینے کی بجائے آئندہ الیکشن کے لیے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 20 اور صوبائی اسمبلی کی 40 نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ کرنے کا مطالبہ جس پر ن لیگ راضی نہیں تھی
👇
پیپلزپارٹی کے سنئر راہنماؤں کے ساتھ شہبازشریف کے متعدد مرتبہ مذاکرات ہوئے مگر بے نتیجہ رہے پھر زرداری شہبازشریف براہ راست مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھے اور معاملات طے نہیں ہو رہے تھے نوازشریف بھی بذریعہ ویڈیو لنک ان مذاکرات میں شامل ہوا
👇
تین گھنٹوں پر مشتمل سہ فریقی یہ اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا شریف برادران حکومت کی تشکیل کےبعد ان معاملات پربات چیت کرنےپر مُصر تھے جبکہ زرداری اس معاہدے کے بغیر حکومت میں شامل ہونے کےلیےکسی صورت تیارنہیں تھا جب ڈیڈ لاک شدت اختیار کر گیا تو پھر پیپلزپارٹی نےحسین حقانی سے رابطہ کیا
👇
حسین حقانی نے یہ معاملہ جوبائیڈن انتظامیہ کے سامنےرکھا امریکی صدر جو بائیڈن نے اس معاملے کو حل کرانے کے لیے سی آئی اے کو ذمہ داری سونپی جس کے بعد پیپلزپارٹی کو معاہدے کی ہر صورت تکمیل کے وعدے کے ساتھ وزراء کو حلف اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے
👇
بلاول کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے مذاکراتی وفد کو فوری طور پر لندن طلب کیا گیا ادھر حسین حقانی امریکی خفیہ اداروں کے نمائندوں کے ساتھ لندن پہنچ گیا نوازشریف کے ساتھ معاملات طے کرکے دونوں پارٹیوں کو مستقبل کے لائحہ عمل کے شیڈول اور طریقہ کار پر متفق کرا دیا گیا
👇
جس کے مطابق موجودہ حکومت کو آئندہ سال جون تک باہمی تعاون کے ساتھ چلایا جائے گا اور اس الیکشن میں ن لیگ پنجاب پنجاب کے مختلف اضلاع میں پیپلزپارٹی کے لیے 20 حلقے قومی اسمبلی کے اور انکے نیچے 40 حلقے صوبائی اسمبلی کے خالی چھوڑے گی جن میں راولپنڈی ،گجرات، فیصل آباد، ملتان
👇
اور بہاولپور سے دو دو حلقے ، منڈی بہاؤالدین، سرگودھا، گوجرانوالہ، اوکاڑہ بھکر، مظفر گڑھ، رحیم یار خان وغیرہ سے ایک ایک حلقہ قومی اسمبلی کا اور انکے نیچے دو دو حلقے صوبائی اسمبلی کے پیپلزپارٹی کے لیے خالی چھوڑے گی
اگلی وفاقی اور پنجاب حکومت ن لیگ کو ہی دی جائے گی جبکہ 2028 کے الیکشنز کو اس طرح مینیج کیا جائے گا کہ اس کے نتیجے میں بلاول زرداری وزیراعظم بن سکے اس طرح کی آئندہ دس سالہ سازشی منصوبہ بندی امریکی قیادت میں کرکے یہ دونوں پارٹیاں اس لیے مطمئن ہو کر حکومت بنا چکی ہیں
کہ مقامی اسٹیبلشمنٹ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس ہے اور کوئی کسی طرح کا مخالفانہ قدم نہیں اٹھا سکتی بے شک وہ محسن داوڑ کو وزیر بنائیں یاعلی وزیر کو، کچھ ذمہ داران کو رانا ثناءاللہ کو وزیر داخلہ بنانے پر شدید اعتراضات تھے مگر ڈونلڈ لو کے غلاموں نے بضد ہو کر
رانا ثناءاللہ کو ہی وزیر داخلہ بنایا ہے یہ تو وہ منصوبہ ہے جو قومی لٹیروں نے اپنے امریکی آقاؤں سے مل کر بنایا ہے جس کا مقصد امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستانی وسائل کو نوچتے رہنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے
جبکہ دوسری طرف عسکری اسٹیبلشمنٹ عوامی غصے اور ناراضگی کو کم کرنے کے لیے عمران خان کو مذاکرات میں اُلجھا کر وقت گزاری کی صورت پیدا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
منقول #MarchAgaintsImportedGovt
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh