#مسجدنبوی
ہاں وہاں چور بھی جاتے ہیں،
شرابی بھی، قاتل بھی، حق مارنے والے، ملاوٹ کرنے والے بھی ,غیبت کرنے والے بھی, خائن بھی، ظالم بھی. وہاں سب گنہگار ہی جاتے ہیں!
سوال تو یہ ہے کہ اگر وہاں جا کر گناہ نہیں بخشوائیں گے تو اور کہاں جائے گے ؟
کیا حرم پاک یا 👇
مسجد نبوی میں پہنچا کوئی گنہگار، کسی دوسرے گنہگار کی طرف انگلی اٹھا کر، نعرہ لگا سکتا ہے؟ اسے جتلا سکتا ہے کہ وہ زیادہ بڑا گنہگار ہے؟
کیا ہم سب گنہگار نہیں، جن پر پردے کی چادر کسی نہ کسی وجہ سے تَنی ہوئی ہے؟ اگر یہ اتر جائے تو کیا ہوگا؟
َزرا اور سوچئے کہ 👇
"چور چور یا شرابی شرابی یا گنہ گار ای اوئے" کی آوازیں باہر کی بجائے حرم پاک یا مسجد نبوی کے اندر سے آنی شروع ہو گئیں تو پھر وہاں کتنے لوگ جانے جوگے رہ جائیں گے؟
کسی بدعمل کی دلیل دوسرے بدعمل سے نہیں دی جا سکتی ۔۔۔کوئی برائی کسی دوسری برائی کی صفائی میں پیش نہیں ہو سکتی۔۔۔
👇
وطنِ عزیز میں سیاسی انارکی بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔
بحثیت پاکستانی شہری احباب کو چاہئے کہ نسلِ نو کی فرسٹریشن دُور کرنے کے لئے جلتی پہ کام کرنے والے جیسے مواد کو پھیلانے سے اجتناب کریں اور اچھے الفاظ کے چناؤ ساتھ اُن کی ذہن سازی کرتے ہوئے سیاسی دھارے میں شامل کریں ناکہ 👇
وہ سارا دن سوشل میڈیا پہ جُگت بازی کرتے رہیں ۔۔۔
رمضان المبارك کی آخری ساعتوں میں وطنِ عزیز کی سلامتی کے لئے دُعا کریں ۔۔ #توہین_مسجد_نبوی_نامنظور
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
شب قدر اور عید الفطر کی رات اس رات کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ (یعنی انعام کی رات)
ایک حدیث میں ہے
جس رات ’’شبِ قدر‘‘ ہوتی ہے تو اُس رات حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ( زمین پراُترنے کا ) حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں👇
اُن کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے، جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں ۔
حضرت جبرئیل ؑ کے سو (100)بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اِسی ایک رات میں کھولتے ہیں ، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں ، پھر حضرت جبرئیل ؑ فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں : 👇
’’جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواُس کو سلام کریں اور اُس سے مصافحہ کریں اور اُن کی دُعاؤں پر آمین کہیں ، صبح تک یہی حالت رہتی ہے، جب صبح ہوجاتی ہے تو حضرت جبرئیل آواز دیتے ہیں : ’’اے فرشتوں کی جماعت! اب کوچ کرواور چلو!۔‘‘ 👇
واضح رہے کہ بناءِ کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبرئیل علیہ السلام کی نشان دہی پر بیت اللہ کی چاروں اطراف حدودِ حرم کی تحدید فرمائی تھی، پھر فتحِ مکہ کے روز خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم بن اسد کو 👇
حدودِ حرم کی علامات کی تجدید کا حکم فرمایا تھا، جس کی بجا آوری میں انہوں نے تجدید فرمائی، پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اپنے ادوار میں مقرر کردہ حدود کی علامات کی تجدید فرمائی، یہ حد بندی توقیفی ہے، پس 👇
مدینہ منورہ کی جانب سے ’’تنعیم‘‘ (مسجدِ عائشہ) تقریباً تین میل (بعض نے پانچ میل تک مقدار بتائی ہے)، یمن کی جانب سے ’’اضاۃلبن‘‘ کے مقام تک، تقریباً سات میل، جدہ کی جانب سے ’’مقامِ حدیبیہ‘‘ کے آخری حصے تک تقریباً دس میل، جعرانہ کی جانب سے نو میل، 👇
مولانا طارق جمیل سے بہت سے دوستوں کو شکایات ہوں گی
بعض امور میں شاید مجھے بھی ہوں، لیکن میں ان کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہوں اور اسے دین کا ایک ناگزیر تقاضا سمجھتا ہوں۔ مجھے ان کے طرزِ خطابت اور اندازِ گفتگو میں یہ بات سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے کہ وہ کسی کے خلاف بات نہیں کرتے، 👇
اپنے مخاطبین کو مخالف سمجھ کر ان سے خطاب نہیں کرتے، وہ دعوت و تبلیغ کے کام میں اپنے اور پرائے کے فرق سے بے پروا ہو جاتے ہیں، مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو زیربحث نہیں لاتے، اپنی بات سننے والوں کے دماغ سے نہیں بلکہ دل سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، 👇
محبت و خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبے میں ڈوب کر گفتگو کرتے ہیں اور کسی طبقے یا مکتب فکر کو اپنے دائرۂ خطاب سے باہر نہیں رہنے دیتے۔ یہ کام شاید میں نہ کر سکوں اور اسلام کے غلبہ، نفاذ، تحفظ اور دفاع کے محاذ کے کسی بھی کارکن کے لیے یہ باتیں اس کی جدوجہد کی مصلحت اور ضرورت سے 👇
حضرت مجدد الفؒ ثانی کے عظیم تاریخی کردار کو ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں جنہوں نے اقتدار کی کشمکش میں فریق بنے بغیر، بلکہ بعض روایات کے مطابق اقتدار کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے اور سب کو اپنا سمجھتے ہوئے بے غرضی اور سعی مسلسل کے ہتھیاروں کے ساتھ👇
اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دین الٰہی‘‘ کو شکست سے دوچار کیا۔ حتیٰ کہ محبت اور پیار کے ساتھ حکمران مغل خاندان میں ایسی ’’نقب‘‘ لگائی جس سے نمودار ہو کر خود اکبر بادشاہ کے پڑپوتے محی الدین اورنگزیب عالمگیر نے برصغیر میں اسلام کی سربلندی اور 👇
اسلامی شریعت کے عملی نفاذ کا پرچم گاڑ دیا۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ اگر حضرت مجدد الفؒ ثانی اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر حکمت و فراست کا یہ پہلو اختیار نہ کرتے اور بے غرضی اور 👇