فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ صوفے پر تھکن سے چور ایمان ایک بہت لمبا دن گزارنے کے بعد ذرا ہمت نہیں کر پا رہی تھی کے میز پر پڑے بجتے فون سوئچ آف ہی کردے۔
بالآخر کھلائی ہوے انداز میں نیم وا آنکھوں کے ساتھ جھومتے ہوے اس نے فون آن کیا دوسری طرف سے ایک بھرائی گوئی آواز کے ساتھ
مدثر کی والدہ نے کہا بیٹا بہت بہت مبارک ہو تمھاری امی کو ضمانت مل گئی۔
ایمان درست انداز میں بیٹھتے ہوے کہا شکریہ آنٹی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اور سنائیں سچل کیسا ہے۔
وہ بھی ٹھیک ہے بس اپنے بابا کی باتیں کرتا رہتا ہے۔
میری بات کرائیں ایمان نے پیار بھرے انداز میں کہا۔
مدثر کی والدہ نے کہا اچھا بیٹا ابھی کراتی ہوں۔
دوسری طرف سے آواز آئی ہیلو ایمان آنٹی کیسی ہیں آپ ؟
ایمان نے کہا بالکل ٹھیک آپ کیسے ہو سچل ؟
آنٹی میں بھی ٹھیک ہوں۔
آنٹی میں ویڈیو دیکھی جس میں آپ نے کہہ رہی تھیں آپ کی ممی کو بھی باجوہ انکل نے ویسے ہی اٹھا لیا جیسے میرے بابا کو
اٹھایا تھا۔
ایمان نے ایک لمبا سانس لیکر کہا جی بیٹا۔
اب آپ کی ممی کہاں ہیں ؟ سچل نے پوچھا
ایمان نے کہا بیٹا اب امی میرے ساتھ گھر ہر ہی ہیں۔
سچل نے کہا ایمان آنٹی ! آپ اسی جج انکل کے پاس میرے بابا کو ڈھونڈنے کیوں نہیں جاتیں جس کے پاس سے آپ اپنی ممی کو اتنی جلدی ڈھونڈ لائیں ؟
ایمان یہ سوال سن کر سن ہو کر رہ گئی اور اس کی زبان گنگ ہو گئی ساری وکالت، دلائل اور قانون لاجواب ہو کر رہ گیا۔ ایمان ابھی سوچ ہی رہی تھی کے ایک دم سے سچل کی دادی نے فون لیکر کہا بیٹا بچہ ہی پتا نہیں کیسے کیسے سوال کرتا رہتا ہے۔
تم آرام کرو آج تمھارا بھی بہت سخت دن رہا یہ کہ کر
انہوں نے فون رکھ دیا۔
ادھر ایمان کے ذہن میں بار بار یہ سوال گونجنے لگا
“آپ اسی جج انکل کے پاس میرے بابا کو ڈھونڈنے کیوں نہیں جاتیں جس کے پاس سے آپ اپنی ممی کو اتنی جلدی ڈھونڈ لائیں”
مہاجروں میں ایک گروہ ایسا ہے جس نے اچھے وقتوں میں قوم کی قیمت پر بالادست اداروں، سیاسی جماعتوں اور کاروباری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کیں اب اس گروہ کو قوم کی حمایت جو @AltafHussain_90 بھائی کے کئے ہے وہ حاصل کرنے کیلئے الطاف بھائی کا اعتماد پھر سے چاہئے تاکہ یہ اپنی اپنی لنکائیں
ڈھے جانے سے بچائیں۔ اس ضمن میں جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں توں توں اتحاد کے نعرے بلند ہوتے جارہے ہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیش ان کے ہاتھ کا پھر سے کھلونا بننے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ان احباب سے درخواست ہے کے وہ خود ایک ٹھنڈی سانس لے کر سوچیں جو لوگ اپنا اچھا وقت بچانے کیلئے ایک بار
پہلے تحریک سے راہیں جدا کر گئے اور قوم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ گئے وہ مستقبل میں پھر جب ان کے مفادات کو زک لگے گی تو اپنا یہ عمل نہیں دھرائیں گے۔ ان میں سے نوے فیصدی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی راہیں ایکدوسرے کے ساتھ باہمی اختلافات اور انا کے زعم میں جدا کیں اور وہ انکا حق تھا سو
ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑے بہادر آباد و پی آئی بی۔ پی ایس پی، گریٹر کراچی، متروکہ سندھ۔ والے آپ احباب نے اپنی سعی کر لی دو ہزار سولہ کے بعد آپ جیسے اپورچونسٹ نے اپنی مہم جوئی آپ ی آپ ی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر پوری کری اور ناکامی کے بعد آج آپ لوگوں کو اتحاد کی سوجھی ہے
آپ سب لوگ مجموعی طور پر یہ ثابت ہونے کے بعد کے آپ لوگوں سے بڑھ کر موقع پرست، دغاباز اور عیار کوئی نہیں ہے خود فیصلہ کریں کے کون آپ کو اپنے اتحاد میں لے گا اور اتحاد بھی ان وفا پرستوں کا جنہوں نے اس کڑے وقت میں میں قائد، تحریک اور قوم کا ساتھ دیا ان کیلئے آواز بلند کی اپنی اپنی
بساط کے مطابق جب تحریک پر معاشی تنگ دستی آپ جیسوں کی بدولت آئی تو مدد کی۔
آپ احباب خود اس جگہ پر آ کر سوچیں اور فیصلہ کریں کے کیا ایسے لوگوں کو معاف کر کے واپس اپنے فولڈ میں لینا چاہئے جنہوں نے قائد کے خلاف آرٹیکل چھ کی قرارداد لکھی، پیش کی، اس کی حمایت میں تقاریر کیں۔
ہر شاخ پر ہے الو بیٹھا انجام گلستان نجانے کیا ہو گا۔
قائد تحریک الطاف حسین بھائی اس پیرانہ سالی میں اتنی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اور اپنی اپنی ذات میں ایک انجمن رکھنے والے لوگوں کو کیسے پیتیس برس سے بھگتا رہے ہیں یہ ایک ایسی سائینس ہے جس کی اسٹڈی ہونی چاہئے۔
میں ایک عام سطحی قسم کا انسان ہوں اپنی شخصیت اور شناخت چاہے جتنی گرے بنائے رکھوں پر دوسروں کو میں صرف دو رنگوں میں پڑھتا ہوں کبھی کبھی دوسروں کے رنگ جاننے کیلئے آپ کو خود کو گرے رکھنا پڑتا ہے۔ جب سے الطاف بھائی کا لندن میں مقدمے کا فیصلہ ہوا جیسے جیسے حالات بہت تیزی سے بدلے ویسے
ہی لوگوں کی سوچیں تیزی سے بدلنی شروع ہوئیں کچھ لوگوں کی نا آسودہ خواہشات کو انگڑائیاں لے کر جاگتے دیکھا۔ کچھ موقع پرستوں کی سوچ بدلی، بہت سے ارسطو اور بقراط خوردرو پودوں کی طرح نکل آئے، تجاویز، منصوبے اور ارادے پیش کرنے لگے۔ ان سب حالات کو مجھ جیسا نا چیز ہکا بکا دیکھ رہا ہے تو
کیا دعا زہرہ کے معاملے پر آپ بھی ووہی غلطی کر رہے جو اس کے لواحقین نے کی ؟ معاملے کو مسلکی اور فقہی رنگ دیکر
دوست وہ صدمے میں تھے حادثے کا شکار تھے خائف تھے ان کے نزدیک اس وقت ان کی بیٹی کی بازیابی سے جڑی ہر بات ، خیال ، تجزیہ سوچ ایک سازش اور امید کی کرن تھی اس معاملے میں دس آرا
تھیں لیکن روز اوّل سےصرف ایک رائے درست تھی اور اس کی تصدیق اور باقی کی تردید تحقیق طلب تھی اور تحقیق کیلئے وقت درکار تھا۔ قوم کی ہیجان اور بے صبر ی اور میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ انداز میں اس واقعے کی تشہیر سے معاشرہ ، اپنی اپنی سوچ کے مطابق بٹا رہا لیکن بطور ایک سماج کے رہائشی اور
ایک کم عمر بچی کے والدین کے طور پر اب آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنی ہے اب اس معاملے کو اس کے حقائق سامنے آنے کے بعد ایک نئی سوچ اور نظر سے دیکھ کر اپنی رائے کا اظہار کریں اور کوشش کریں کے وہ رائے اصلاحی ہو نا کے خود ستائشی، فقہی، مسلکی اور نسلی سوچ سے آراستہ ہو۔ یہ ایک سماجی مسئلہ
اس پریس ریلیز کے بعد ارباب اختیار سے سوال بنتا ہے کے ملکی مفاد اور ریپوٹیشن کو داؤ پر لگا کر اپنی وزارت عظمی بچانے کی سازش کرنے والے کے خلاف بھی کیا کوئی کاروائی ہو گی؟
کب تک اس دجال صغیر کو ایسے ہی کھلی چھوٹ دی جاتی رہیگی ؟
ملک کی سالمیت کو لاحق خطرات اور ملک کی معیشت جو کے
دوست ممالک امریکہ، ناٹو، اور سعودی عرب کے سہارے پر کھڑی ہے اس کو نوے ڈگری پر گھما کر روس کی جانب کھینچ کر لیجانے کی بچکانہ کوشش کرنے کی گوشمالی کب کون اور کیسے کریگا؟
اس اہم موڑ جب کے ہم فیٹف کی گرے لسٹ میں ہیں، آئی ایم ایف کی اگلی قسط ہمارے لئے ایسی ہے جیسے آئی سی یو کے مریض
کیلئے آکسیجن سیلنڈر، ملک کا نوے فیصد ایندھن سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں سے درآمد ہوتا ہے ایکدم سے ایک مخبوط الحواس شخص کے بے وقوفانہ فیصلے کے باعث سارے ملکی مفادات داؤ پر لگ چکے ہیں۔ ملک کی موجودہ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور اس پوری سازش جس کا سرخیل صرف عمران نیازی ہے
حضور والا! آپ کی توشہ خانے کی چوری و فراڈ صرف اس لئے جائز قرار نہیں دی جا سکتی کے آپ سے پیشتر جو لوگ تھے انہوں نے بھی یہ چوریاں سرانجام دی ہیں۔ آپ گزشتہ ساڑھے تین برس ملک کی عنان اقتدار سنبھالے رہے اور اپنے تئیں آپ کا اصرار بھی رہا کے آپ نا خائن ہیں، نا آپ اقربا پروری کرتے ہیں
اوپر سے آپ کے ان دعووں کی تائید آپ نے ملک کی سب سے اعلی عدالت سے بطور صادق و امین کی سند کے ساتھ بھی کروا رکھی تھی۔ تو قبلہ اس رو سے آپ اخلاقیات و دیانت کے اعلی اصولوں پر ہی جانچے جائیں گے۔ مزید براں آپ کا یہ استدلال کے آپ سے پہلے کے لوگوں نے کیا کرا تو جناب اعلی آپ مقتدر تھے
جب آپ مقتدر تھے تو تب آپ نے ان معاملات پر کیا کاروائی کی ؟ آپ کاروائی کیا خاک کرتے آپ نے تو جب معاملے کو سمجھا تو ان لوگوں کی طرح کی ملکی خزانے کو زک لگائی آج آپ کیسے ان لوگوں سے اپنے آپ کو ممتاز گردانتے ہیں۔ مجھ جیسے ذی شعور انسان کی آرا میں تو آپ ان لوگوں سے بھی بدتر ہیں جنکا