48 سال قبل آج ہی کے دن ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کے تقریبا چار ماہ بعد پاکستان کی پارلیمان نے آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا اس اس اھم تاریخی دن متعلق ہمیں معلوم ہونا چاہیے
22 مئی 1974ء کے ایک روشن دن کو نشتر میڈیکل👇🏻
کالج ملتان کے تقریبا سو طلبہ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لئے چناب ایکسپریس کے ذریعے ملتان سے پشاور جا رہے تھے، طلباء نے اپنے لیے ٹرین کی ایک الگ بوگی بک کروا رکھی تھی، ہنستے کھیلتے چہکتے مسکراتے طلباء زندگی کا بھرپور لطف اٹھاتے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے👇🏻
کہ گاڑی چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر حسب معمول رکی تو چند قادیانی نوجوان ان کی بوگی میں داخل ہوئے ان کے ہاتھوں میں مرزائی لٹریچر کے اوراق تھے جو کہ وہ مسافروں میں تقسیم کرتے پھر رہے تھے
مسلمان طلبہ نے جب سرعام اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر ڈاکہ پڑتے👇🏻
دیکھا تو ان کی غیرت ایمانی جاگ اٹھی اور پھر چناب نگر (ربوہ) کا ریلوے اسٹیشن تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد، مرزائیت مردہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا، طلباء کے ان نعروں نے "قصر مرزائیت "میں طوفان برپا کردیا، قادیانی خلیفہ مرزا ناصر جو کہ اس وقت ربوہ کا مطلق العنان بادشاہ بن چکا تھا👇🏻
مرزا ناصر نے پولیس اور وزارتیں تشکیل دے رکھیں تھیں یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کے علاقے کی حدود میں اس کے خلاف نعرے لگ جائیں
مرزائی ذہن اکٹھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ان طلباء سے بدلا لینے کے لیے غور و فکر کرنے لگے، 29 مئی 1974ء کی شام کو طلباء اپنے ٹرپ سے واپس آ رہے تھے👇🏻
کہ ربوہ سے پہلے نشتر آباد ریلوے اسٹیشن کے ماسٹر نے طلباء کی ٹرین پر نشان لگا کر ربوہ میں اطلاع کر دی۔
جونہی ٹرین ربوہ کے اسٹیشن میں داخل ہوئی۔ وہاں ایک ہنگامہ بپا تھا۔ پانچ ہزار سے زیادہ قادیانی غنڈے پستولوں بندوقوں خنجروں اور چھریوں سے مسلح کھڑے تھے۔ جونہی ٹرین نے اسٹاپ کیا👇🏻
قادیانی خونخوار درندے زہریلے سانپ کی طرح ٹرین پر لپک پڑے۔ طلباء نے دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں لیکن قادیانی دروازے توڑ کر ان طلباء کو باہر گھسیٹتے لے آئے۔ طلباء پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، ان کو خون میں لت پت کردیا گیا، طلباء کا قیمتی مال و متاع بھی چرا لیا گیا،👇🏻
پھٹے کپڑوں اور خون میں لتھڑے جسم کو لے کر جب ٹرین ربوہ اسٹیشن سے دوبارہ چلی تو قادیانی مرزائیت کے نعرے لگا رہے تھے اس سے قبل کہ ٹرین واپس ملتان پہنچتی قادیانیوں کی اس وحشیانہ کارروائی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی
فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں مسلمان موجود تھے۔👇🏻
مجلس احرار کے رہنماء مجاہد ختم نبوت مولانا تاج محمود طلباء کے لیے چشم براہ تھے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے ادارے بھی موجود تھے۔ طلباء کی اجڑی حالت دیکھ کر لوگ رونے لگے، پورا اسٹیشن ختم نبوت کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ مولانا تاج محمود اسٹیشن کی دیوار پر کھڑے ہو گئے👇🏻
اور طلباء سے مخاطب ہو کر کہا:
"اے میرے نونہالان ختم نبوت! میرے بیٹو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں آپ کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا آپ حضرات اطمینان رکھیں انشاء اللہ آپ کے خون کے قطرے قادیانیت کی موت کے پروانے لکھیں گے"
طلباء فیصل آباد سے روانہ ہو گئے،👇🏻
جہاں بھی ٹرین رکتی ہزاروں فدائیان ختم نبوت ان طلباء کے استقبال کے لیے موجود ہوتے۔ ملتان میں بھی مجلس علماء کے اکابر موجود تھے، اخبارات کے نمائندوں نے جب مولانا تاج محمود سے آئندہ کا لائحہ عمل پوچھا تو مولانا نے کہا شام کو پانچ بجے الخیام ہوٹل میں پریس کانفرنس میں اعلان کریں گے،👇🏻
شام کو مولانا محمود نے مولانا محمد یوسف بنوری کے حکم کے تحت تحریک چلانے کا اعلان کر دیا
تحریک کا اعلان ہوتے ہیں لوگ باہر نکل پڑے، پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے، طلباء اساتذہ بزرگ سب کے سب اس تحریک میں شامل تھے، قادیانیوں کا پورے ملک میں سوشل بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا،👇🏻
کوئی مسلمان قادیانی دکان دار سے کچھ نہ خریدتا نہ کسی قادیانی کو کچھ بیچتا تھا، پورے ملک میں قادیانیوں پر زمین تنگ ہو گئی، مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں شروع ہو گئیں، گرفتاریاں شروع کردی گئیں، مساجد میں آنسو گیس کے شیل مارے گئے، فدائیان ختم نبوت کو بھیڑ بکریوں کی طرح دھکیل دھکیل👇🏻
کر کنٹینروں اور ٹرکوں میں بھر کر جیل پہنچایا گیا، احتجاج میں دن بدن شدت آتی جا رہی تھی، آغا شورش کاشمیری کی تحریک پر مولانا محمد یوسف بنوری کو مجلس عمل کا مرکزی کنوینیر مقرر کردیا گیا۔
یہ تھا 1974 کی تحریک ختم نبوت کا آغاز جو قارئین کی خدمت میں چند روزنامہ معلومات👇🏻
پرمختصر انداز سے پیش ہے
22 مئی 1974ء کو طلبہ کے وفد کی چناب نگر (ربوہ) اسٹیشن پرقادیانیوں سے توتکار ہوئی۔
29 مئی 1974ء کو بدلہ لینے کے لیے قادیانیوں نے چناب نگر (ربوہ) اسٹیشن پر طلبہ پر قاتلانہ و سفاکانہ حملہ کیا۔
30 مئی 1974ء کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی۔👇🏻
31 مئی 1974ء کو اس سانحے کی تحقیقات کے لیے صمدانی ٹربیونل کا قیام عمل میں آیا۔
3 جون 1974ء کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔
9 جون 1974ء کو مجلس عمل کا کنوینیئر لاہور میں مولانا سید محمد یوسف بنوری کو مقرر کیا گیا۔
13 جون 1974ء کو وزیر اعظم پاکستان👇🏻
ذوالفقار علی بھٹو نے نشری تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔
14 جون 1974ء کو ملک گیر ہڑتال ہوئی۔
16 جون 1974ء کو مجلس عمل کا فیصل آباد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت بنوری کو امیر اور مولانا محمود رضوی کو سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ 👇🏻
30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد پیش ہوئی جس پر غور کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا۔
24 جولائی 1974ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہو گا وہ ہمیں منظور ہو گا۔
5 اگست سے 23 اگست 1974 تک وقفوں👇🏻
وقفوں سے مکمل گیارہ دن مرزا ناصر پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔
20 اگست 1974ء کو صمدانی ٹربیونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ کے متعلق وزیر اعلیٰ کو پیش کی۔
22 اگست 1974ء کو رپورٹ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی گئی۔
24 اگست 1974ء کووزیر اعظم بھٹو نے👇🏻
فیصلہ کے لیے 7 ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔
27، 28 اگست 1974ء کو لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔
یکم ستمبر 1974ء کو لاہور کی شاہی مسجد میں ملک گیر ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔
5، 6 ستمبر 1974ء کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں پر جرح👇🏻
کا خلاصہ پیش کیا۔
6 ستمبر 1974ء کو آل پارٹیز مجلس تحفظ ختم نبوت کی راولپنڈی میں ختم نبوت کانفرنس ہوئی اور وزیراعظم بھٹو سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔
7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اپنے تاریخی فیصلے کا اعلان کیا کہ مرزا قادیانی کے ماننے والے ہر دو گروپ غیر مسلم ہیں۔👇🏻
90 دن کی شب و روز مسلسل محنت و کاوش کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عہد اقتدار میں متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ قرار داد کو شام 5 بج کر 52 منٹ پر منظور کیا۔ مرزائیوں کے دونوں گروہ (قادیانی، لاہوری)👇🏻
کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
قادیانیت کے کفر کا اعلان ہوتے ہی پوری امت مسلمہ جھوم اٹھی، اراکین اسمبلی گلے مل رہے تھے۔ اکابرین کی آنکھوں سے خوشی کے مارے آنسو رواں تھے اور وہ سجدوں میں پڑے رب کا شکر ادا کر رہے تھے۔ ہر دل جھوم اٹھا۔ ہر دماغ مہک اٹھا۔👇🏻
گلیاں بازار شہر تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ فرط جذبات سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ مجاہدین ختم نبوت کی قبروں پر پھول بچھائے جا رہے تھے
1953ء کے دس ہزار شہداء کا خون رنگ لے آیا تھا وہ جنہوں نے سنگینوں پر چڑھ کر ختم نبوت کے نعرے لگائے تھے،👇🏻
وہ جنہیں پابند سلاسل کیا گیا، وہ مجاہدین جنہوں نے اپنے شباب کا جوان خون سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس پر قربان کر دیا تھا۔ جنہوں نے اپنے خون سے سڑکوں کو لال کر دیا تھا۔ جنہیں گھسیٹا گیا۔ مارا گیا آج ان کی روحیں مسکرا رہی تھیں، وہیں👇🏻
کچھ لوگ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قبر پر کھڑے تھے۔ بخاری اس وقت دنیا میں نہیں تھے لیکن ان کا مشن پورا ہو گیا تھا۔ بخاری کے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کی رداء کو چوری کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے👇🏻
حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ : " تمہاری جیب میں کچھ ہے ..؟ "
شاگرد نے کہا : " میرے پاس دو درہم ہیں ...! "
حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر👇🏻
اسے دیا اور فرمایا : " یہ تین درہم ہوجائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آئو ...! "
وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں👇🏻
حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھال لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا ....!
آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا : " تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ...؟ "👇🏻
Attention plz LHR💐...
لاہور کے قارئین سے خصوصی درخواست ہے۔۔۔
بنگلادیش سے ایک صاحب نے سوشل سائٹس پر رابطہ کرکے اپنی ہمشیرہ کی تلاش کے لئے دست بستہ درخواست اور کوشش کی ہے۔۔۔
انکا کہنا ہے کہ پاکستان اور بنگلادیش کی علیحدگی سے قبل انکی ہمشرہ کی شادی لاہور کے ایک شخص سے ہوئی تھی۔۔👇🏻
ملک تقسیم ہونے کے بہن لاہور میں رہ گئی۔۔اسکے بعد ہمارا کوئی رابطہ نہ ہوا۔۔
بہن کا نام : بیگم شاہانہ ہے۔پیار سے رینا کہتے تھے۔
بہنوئی کا نام: ظفیر احمد خان ہے۔
بھانجوں کے نام: پپو۔ببلو۔ناصر۔روبینہ۔ اور دو کے نام یاد نہیں۔
1988 میں بہنوئی لاہور میونسپل کارپوریشن میں👇🏻
سینئر لیبارٹری ٹیکنیشن تھے۔اور پارٹ ٹائم میو ہسپتال لاہور میں سینئر لیبارٹری ٹیکنیشن تھے۔
ہم تین بھائی تھے۔۔1.مرحوم شمس العالم سرکار عرف تارا-
2۔منصور عالم سرکار عرف چاند۔3 محبوب عالم سرکار عرف رانجو۔۔
اور دو بہنیں۔۔1 مرحومہ شمس النھار عرف رینو اور دوسری شاہانہ عرف رینا👇🏻
کچھ لوگ صحافی کہہ رہے ہیں شیریں مزاری کی گرفتاری کے پیچھے طاقتور ادارے ہیں ...
یہی بات کچھ صحافی بھی اشاروں میں کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی سیاسی جماعت کے سپورٹرز کر رہے ہیں جبکہ شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے بھی افواج پاکستان اور سپہ سالار پر کیا کچھ آج تک نہیں کہا👇🏻
ٹوئیٹری سیانے بلجیئم جائداد سناتے الزام عائد کرتے رہے اور ایمان مزاری تو اپنی مخصوص بچان رکھتی ہے کیونکہ یہاں اپنی حیثیت بنانے کا آسان راستہ صرف ان ہی اداروں پر زبانیں کھول دی جائیں جو خان صاحب کی سیاسی انٹری سے پہلے ہی سالمیت کے ضامن ان کرپٹ سیاستدانوں کے ہوئے تھے👇🏻
اِن جذباتی کم عقل بچوں کیلئے صرف ایک سوال اگر اس کی گرفتاری کے پیچھے انکا ہاتھ ہے تو پھر حمزہ شہباز رہائی کا حکم دینے والا کون ہوتا تھا؟
اِن مکار صحافیوں اور پیڈ ایکٹوسٹ کی چالوں کو سمجھیں ان کی چالوں میں نہ آنا یہ عوام اور فوج کو لڑوانا چاہتے ہیں یہ حکومت وقت اور سول👇🏻
1988 میں جب ضیاء دوررجیم کا خاتمہ ھوا تو ڈالر 13روپیے کا تھا
پھر پی ڈی ایم پارٹیوں کا دور شروع ھوا جو 1998 میں مشرف کے آنے پر ختم ھوا۔ڈالر 43 روپیے پر پہنچ چکا تھا۔یعنی پی ڈی ایم کے کے چور ٹولے نے 200 فیصد تک ڈالر مہنگا کیا۔اسی تناسب سے مہنگائی میں بھی👇🏻
اضافہ ھوا۔
2007 مین جب مشرف دور کا خاتمہ ھوا تو ڈالر43.35 کا تھا۔یعنی ڈالر کا ریٹ مستحکم رہا۔
پھر پی ڈی ایم کا دور 2007 میں شروع ھوا جو کے 2018 پر ختم ھوا۔جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ڈالر 124 کا تھا۔یعنی ان نام نہاد تجربہ کاروں نے ڈالر پھر تقریبن 200 فیصد مہنگا کر دیا👇🏻
اور اسی تناسب سے مہنگائی میں بھی اضافہ ھوا۔
مارچ 2022 میں جب پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کیا گیا تو ڈالر 186 کا تھا۔یعنی 45 فیصد مہنگا ھوا۔
اب سوال یہ ھے کہ چار سو فیصد مہنگا کرنےوالے تجربہ کار ،ایماندار قرار دئیے جا سکتے ھیں یا 45 فیصد مہنگا کرنے والا؟؟؟؟؟👇🏻
بیوروکریسی نے پاکستان کو کیا دیا؟
آصف محمود | ترکش |روزنامہ 92 نیوز
یہ سوال تو ہم اکثر اٹھاتے ہیں کہ سیاست دانوں نے پاکستان کو کیا دیا، کیا کبھی ہم یہ سوال بھی اٹھا سکیں گے کہ بیوروکریسی نے پاکستان کو کیا دیا؟
اہل سیاست تو پھر عوام کی دسترس میں ہوتے ہیں ،👇🏻
محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن آپ ان سے شکوہ بھی کر سکتے ہیں اور جھگڑ بھی سکتے ہیں ، ان سے سوال بھی پوچھ سکتے ہیں اور الیکشن میں اپنا حساب بھی چکا سکتے ہیں لیکن کیا یہ بیوروکریٹ بھی آپ کی دسترس میں ہیں ، کیا آپ اپنی عزت نفس قربان کیے بغیر ان سے ملاقات کر سکتے ہیں؟👇🏻
یا آپ ان سے بھی کبھی کوئی سوال پوچھ سکتے ہیں؟
سیاست دان کے دفتراور ڈیرے پر تو پھر کبھی نہ کبھی آپ کو چائے پیش کر دی جاتی ہے اور آپ کو خوش آمدید کہہ لیا جاتا ہے لیکن کیا کبھی کسی بیوروکریٹ کے دفتر میں توہین اور ذلت کے احساس کے بغیر آپ جا کر ایک عدد ملاقات کر سکتے ہیں؟👇🏻
خان صاحب کی پیٹھ پیچھے وار کرنے والے اپنے ہی منافقوں کیلئے ریاست کے غداروں کے نام ایک تحریر.......
چنگیزخان نے جب چاہ کے بخارا پر قبضا کرے لیکن بخارا کے لوگوں سے لڑنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا تو چنگیزخان نے بخارا کے لوگوں کو خط لکھا کہ تم میں سے جو بہی لڑنے والوں👇🏻
سے جُدا ہو جائیگا وہ امان میں ہے
👈چنگیزخان ان سے نہیں لڑیگا
بخارا میں رہنے والے لوگوں کے دو گروہ بن گئے
1 لڑنے والے
2 خاموش ہو کے سائڈ پے رہنے والے
پھر چنگیزخان نے گروپ 2 سے کہا تم گروپ 1 سے لڑو فتح مل جانے کے بعد جو بہی سامان لوٹا وہ تمہارا ہے اور وہان کے حاکم👇🏻
بہی تمہی بننا
بخارا کے لوگ آپس میں لڑے اور چنگیزخان کے طرفدار جیت گئے
چنگیزخان نے اپنی فوج کو حکم دیا جیتنے والوں سے ہتہیار چھین لو اور سب کے سر کاٹ دو پھر سب کے سر کاٹ دیے گئے
چنگیزخان نے ان لوگوں کے لیے جملا کہا کہ اگر یہ منافق وفادار ہوتے تو اپنوں اور اپنے👇🏻