پاکستان میں اردو کی ایک کتاب KG میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہے، جس میں "ڈ" سے ڈاکٹر بتایا گیا ہے
حیرت ہے کہ نصاب تیار کرنے والوں کو حرف "ڈ" سے اردو کا کوئی لفظ ہی نہ مل سکا اور "ڈ" سے ڈاکٹر (جو کہ اردو زبان کا لفظ ہی نہیں ہے) پر گزارہ کر لیا گیا
⏬
اب سوشل میڈیا پر "ڈھول" پیٹ کراس بات کا "ڈھنڈورا" کرنا پڑ رہا ہے کے "ڈ" کے الفاظ "ڈالنا" کوئی اتنا مشکل امر بھی نہیں ہے
اگر آپ کی ناراضی کا "ڈر" نہ ہوتو "ڈ" کو ذرا "ڈھونڈنا" شروع کریں
*"ڈانٹ ڈپٹ" سے کام نہ چلے تو "ڈنڈا" بھی قدرت کا ایک تحفہ ہے۔
⏬
"ڈ" سے "ڈھول" نہ پیٹیں، "ڈگڈگی" نہ بجائیں، الفاظ کا "ڈھیر"
اکھٹا نہ کریں تو بھی اردو کے کنویں سے ایک آدھ "ڈول" ہی کافی ہوگا۔
"ڈبا" سے "ڈبیا" تک، "ڈراؤنے" قوانین سے لے کر تعلیم کے "ڈاکوؤں" تک، امیروں کے "ڈیروں" سے لے کر غریب کی "ڈیوڑھی" تک
⏬
اور پھولوں کی "ڈالی" سے لے کر سانپ کے "ڈسنے" تک "ڈ" ہر جگہ دستیاب ہے
سوچا "ڈبڈباتی" آنکھوں سے یہ "ڈاک"، بغیر کسی "ڈاکیا" اور "ڈاک خانے" کے آپ تک پہنچادوں کہ لفظوں کی مالا شاید نصاب کی کوتاہیوں کی "ڈھال" ثابت ہو"
ٹوئٹر پر میرے سارے دوست قابل احترام ہیں میں کسی کی دل آزاری نہیں کر سکتا
خان کے دور میں آج کی نسبت زیادہ مہنگائی تھی، اس وقت لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہوتی تھی اور آئے روز وہ بجلی بھی مہنگی کرتا تھا، اب اگر حکومت کو کچھ مہنگائی کرنی بھی پڑ رہی ہے تو سینے پر پتھر رکھ کر کر رہے ہیں
👇
ویسے بھی مہنگائی اب عالمی مسئلہ ہے، مجموعی طور پر اس حکومت میں قانون کی حکمرانی، غریب عوام کا احساس اور کرپشن و لوٹ کھسوٹ کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ آپ سے گذارش ہے کہ کسی کی بات مت سنیں تھوڑی بہت مہنگائی کو اچھے مستقبل کی خاطر برداشت کریں
👇
تھوڑے دنوں میں گیارہ جماعتوں کی تجربہ کار ٹیم سب اچھا کر دے گی۔
یہ ایک بہترین ٹیم ہے ۔۔۔۔
آپ نے کھبی اتنا اسمارٹ وزیرِ خارجہ دیکھا ہے۔۔
کیا کبھی اتنا جلالی وزیرِ داخلہ دیکھا ہے۔۔
اسحاق ڈار کے بعد اتنا قابل وزیرِ خالی خزانہ دیکھا ہے۔۔
👇
ماضی کے جھروکوں سے
ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ ایوا گارڈنر 50 کی دہائی میں فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی شوٹنگ کے لیے لاہور آئی تھی ، ایک کلب میں اس نے فضل محمود کو دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی اور پھر خواہش ظاہر کی کہ فضل اس کے ساتھہ رقص کرے
1954ء کے دورۂ انگلینڈ میں
⏬
پاکستان کرکٹ ٹیم نے ملکہ برطانیہ سے بھی ملاقات کی تھی۔ ملکہ الزبتھہ نے فضل محمود کو دیکھہ کر فوراً کہا کہ آپ پاکستانی نہیں لگتے، آپ کی آنکھیں نیلی کیوں ہیں؟
پاکستان نے فضل محمود کی 12 وکٹوں کی بدولت اوول ٹیسٹ جیتا تو اگلے دن برطانوی اخبار نے سرخی لگائی
ENGLAND FAZZALED OUT
⏬
اس کے بعد فضل محمود ’’ اوول کے ہیرو‘‘ کہلاتے رہے۔
1955میں وزڈن نے انہیں سال کے 5 بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا ۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی تھے۔
ان دنوں صرف فلمی اداکارائیں اشتہارات میں اپنے حسن کا راز بتایا کرتی تھیں۔
⏬
دہلی میں ایک قوم رہتی تھی جسکو شیدے کہا جاتا تھا یہ لوگ شادیوں کےسیزن میں لڑکی والوں کےھاں سے جہیز کا سامان اٹھا کر لڑکے والوں کے گھر پہنچاتے جسکا انکو بہت قلیل معاوضہ ملتا مگر یہ لوگ بخوشی قبول کر لیتے تھے اور باحفاظت سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر نقصان کے پہنچا دیتے
⏬
لوگ خود بھی سامان ان کے حوالے کر کے مطمئن ہوجاتے تھے شادیوں کا سیزن ختم ہونے کے بعد یہ لوگ مساجد کے باہر بیٹھ کر بھیک مانگا کرتے تھے
ایک دفعہ ایک انگریز جامع مسجد دہلی کی سیر کو آیا تو مسجد سے باہر بیٹھے ایک شیدے نے آگے بڑھ کر اس کو چمڑے کے جوتے پیش کیے اور اس کے جوتے
⏬
بطور حفاظت اپنے پاس رکھ لیے کچھ دیر بعد جب انگریز مسجد سے باہر آیا تو شیدے نے اسکو اسکے جوتے دئیے اور اپنے چمڑے والے جوتے وصول کر لیے انگریز نے اس دور کے مطابق آنہ دو آنے اسکو جوتوں کا کرایہ یا اپنے جوتوں کی حفاظت کے ادا کیے اسی دوران جیب میں رکھتے ہوۓ اسکا پرس زمین پر گر گیا
⏬
1988 کے الیکشن میں نوازشریف پنجاب کا وزیراعلی بنا اور فضل الرحمان پہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوا۔ نوازشریف اور فضل الرحمان کے نزدیک یہ الیکشن منصفانہ اور دھاندلی سے پاک تھے
1990 کے انتخابات میں نوازشریف بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوا اور فضل الرحمان اپنے حلقے سے ہار گیا
⏬
نوازشریف کے مطابق یہ انتخابات شفاف ترین تھے جبکہ فضل الرحمان کے نزدیک ان میں دھاندلی ہوئی
1993 کے انتخابات میں بینظیر وزیراعظم بنی اور ن لیگ دوسرے نمبر پر آئی۔ فضل الرحمان رکن اسمبلی بننے میں بھی کامیاب ہوگیا اور بینظیر نے اسے خارجہ امور کی کمیٹی کا چئیرمین بھی لگا دیا
⏬
نوازشریف کے مطابق ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی جبکہ فضل الرحمان کے نزدیک یہ نہایت شفاف الیکشنز تھے
1997 کے انتخابات میں نوازشریف دوتہائی اکثریت سے وزیراعظم بنا اور فضل الرحمان اپنی نشست ہار گیا۔ نوازشریف کے مطابق یہ شفاف ترین الیکشن تھے جبکہ فضل الرحمان کے نزدیک انتخابات
⏬
❤️سبق آمیز واقع❤️
ایک گاؤں میں غریب نائی رہا کرتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔
مشکل سے گزر بسر ہورہی تھی۔ اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا۔ نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ صرف ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔ جب رات ہوتی تو
⏬
وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔
وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔
⏬
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے
اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔ جب وہ شخص اس نائی کے پاس سے گزرا
⏬
میں جب تین سال کا تھا تو ٹھٹھرتی سردی میں ایک دن دادا نے سکول میں داخل کروا دیا اور میری عمر پانچ سال لکھوا دی ۔ کہ سرکاری سکول میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا ۔ جب کہ میرا یار جمعہ گُل اپنی اماں کی گود میں بیٹھ کر چائے پراٹھے ٹھونستا رہا ۔
⏬
میں ٹاٹ پر بیٹھ کر صبح سے دوپہر تک الف سے انار اور ب سے بکری کے راگ الاپتا رہا اور جُمعہ گُل گلے میں غلیل ڈال کر گاؤں کے درختوں میں پرندے مارتا رہا ۔ ہم سارا سارا دن اُستاد رحیم گل کی سوٹیاں اپنی پشت پر کھاتے رہے ، تاکہ کل کو مُعاشرے میں ایک مقام بنا سکیں ۔
⏬
اور جمعہ گل اپنے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر گاؤں کے میلے لوٹتا رہا
ہم سکول سے چُھٹی ہونے کے بعد گندم کی کٹائیوں میں اماں کا ہاتھ بٹاتے رہے اور جمعہ گُل کھیت کی منڈیر پر بیٹھ کر جوانی کے گیت گاتا رہا
ہم جب آنسو بھری آنکھوں سے جُمعہ گل کی طرف دیکھتے تو دل کا حال جان کر اماں بولتیں
⏬