وزیراعظم شہبازشریف اپنےسیاسی کیرئیر کےکٹھن ترین دور سےگزر رہے ہیں۔گزشتہ کافی عرصےسے اپنےمزاج سے ہٹ کر سیاست کر رھےہیں۔گڈ گورننس اورعوامی خدمت پر یقین رکھنےوالا شخص اب بس اتحادیوں کو مناتا نظر آتاھے۔اب جب مسلم لیگ ن کو حکومت میں آئےتقریبا تین ماہ ہوچکےہیں
👇1/18
ہر دن شہبازحکومت کیلئے کسی آزمائش سےکم نہیں ہوتا۔مشکل معاشی فیصلوں سے لےکر پنجاب کےسیاسی بحران تک آزمائشیں ہیں کہ کم ہونےکا نام ہی نہیں لےرہیں۔ویسے شہبازشریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھکر سوچتےتو ہونگے کہ
👈اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
👇2/18
شہبازشریف کی وزیراعظم بننےکی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں تھی۔نومبر کےآخر تک تو یہ سب دیوانےکا خواب لگتاتھا۔مگر پھر حالات اچانک تبدیل ہوئے
شہبازشریف PDM کےمتفقہ
امیدوار کےطور پر سامنےآئے۔آصف علی زرداری نےکھلکر
انکی حمایت کی۔قومی اسمبلی میں172اراکین پورےکرنے کی بات آئی
👇3/18
تو زرداری صاحب نے بھرپور کردار ادا کیا۔اور یوں شہبازشریف کی پاکستان کے منتخب وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوئی۔میری معلومات کے مطابق وزیراعظم اور ان کی ٹیم بدا نتظامی و معاشی بحران سے آگاہ تو تھی مگر صورتحال اس حد تک حساس ہے،اس کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔بہر حال حکومت سنبھالنے
👇4/18
کیبعد دو راستے تھے۔پہلا راستہ کہ چند ماہ کی حکومت انجوائےکی جائے اورریاست کو دیوالیہ کرکےعام انتخابات میں چلے جائیں جبکہ دوسرا راستہ غیر مقبول فیصلےکرنےکا تھا۔ایک ایسا راستہ جو صرف ایک مقبول سیاسی جماعت ہی اختیار کر سکتی تھی۔کیونکہ دنیا بھر کی جمہوریتیں اٹھا کر دیکھ لیں
👇5/18
ہمیشہ غیرمقبول فیصلے منتخب ومقبول سیاسی جماعتیں ہی کرتی ہیں۔بہرحال شہبازشریف اور انکے اتحادیوں نے اپنی سیاست کے بجائے ریاست کو ترجیح دی۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شہباز شریف کےغیرمقبول فیصلوں
سےجتنا نقصان انکی جماعت کا ہورہا ہے،اس سےکہیں زیادہ نقصان عام آدمی کا ہوا ہے
👇6/18
غریب آدمی تو مکمل ختم ہوچکا ہے۔اب مڈل کلاس غریب کے طور پر جانی جاتی ہے۔ تکلیف دہ ہے کہ جن جماعتوں نے ریاست بچانے کیلئے اپنی سیاست داؤ پر لگائی ہے ،انہیں سکون سے کام بھی نہیںکرنے دیا جارہا۔معاشی استحکام ہمیشہ سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔جب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ایک سیاسی
👇7/18
بحران کا شکار ہوگا تو دنیا ہم پر کیسے اعتماد کرے گی؟اگر موجودہ بحرانی کیفیت مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو سخت معاشی فیصلے کرنے کے باوجود آپ کی معیشت نہیں سنبھلے گی۔
کسی بھی ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں۔عدلیہ،مقننہ اور انتظامیہ۔جب کوئی بھی ریاست مشکل اقدامات کا فیصلہ کرتی ہے
👇8/18
تو یہ تینوں ستون ایک پیچ پر ہوتے ہیں۔غیرمعمولی حالات ہمیشہ
غیرمعمولی اقدامات کےمتقاضی ہوتے ہیں۔لیکن آج عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر یہ تین ستون ایک پیچ پر نہیں تھےتو پھر ایک سیاسی جماعت کےکندھےپر رکھکر بندوق کیوں چلوائی گئی؟حکومت کے ایگزیکٹیو معاملات میں مداخلت
👇9/18
سیاسی عدم استحکام کا راستہ ہموار کرتی ہے۔اگر ایک جماعت نے اپنی سیاست کےبجائے ریاست کو ترجیح دی ہےتو سب کو اس
سےتعاون کرنا چاہئے۔اگر ملک کا وزیراعظم ازخود نوٹسز کے بعد وکلاء تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقات میں دو ،دو دن گزا ر دے ،پنجاب کے سیاسی بحران کی وجہ سےزیادہ وقت سیاسی
👇10/18
معاملات کو سنبھالتے ہوئے گزرے تو ایسے میں معاشی بحران سے کیونکر نپٹا جاسکتا ہے۔؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شہباز شریف ذاتی طور پر ایک محنتی اور دیانتدار شخص ہیں۔کرپشن ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔مجھ سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ کوئی ایک شخص بتائیں جو شہبا ز شریف کے
👇11/18
قریب نہیں رہ سکتا؟ تو میں نے جواب دیا کہ کرپٹ آدمی شہباز شریف کے قریب نہیں رہ سکتا۔شہباز شریف کے دن کا آغازصبح 6بجے اور اختتام رات کو 12بجے ہوتا ہے۔وہ اپنی ٹیم میں ایسے بندے رکھتا ہے جو اس کی اسپیڈ،لینتھ اور سوئنگ کو سمجھتے ہوں۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چلنا چاہتا ہے
👇12/18
دوڑنا بھی چاہتا ہے،گرنا بھی چاہتاھے پھر اٹھنا بھی چاہتاھے مگر رکنا نہیں چاہتا۔لیکن یہ سب خوبیاں بیکار معلوم ہوتی ہیں جب حالات آپکو انہیں استعمال ہی نہ کرنے دیں۔تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اگر آج شہباز شریف نے غیرمقبول فیصلےکئے ہیں تو
اسکےکندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں
👇13/18
شہبازشریف کی صلاحیتوں
سےاستفادہ کریں۔سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بھی وزیراعظم کارکردگی نہیں دکھا سکتا۔حکومت کےسخت معاشی فیصلوں کے بوجھ تلے غریب آدمی تو دب چکا
اب براہ کرم منتخب وزیراعظم کو کسی بوجھ تلے مت دبائیں۔اسے کارکردگی دکھانےکا موقع دیں
تاکہ غریب پاکستانی پرڈالا گیا
👇14/18
بوجھ کم ہوسکے۔
وزیراعظم صاحب! آپ تو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شخص ہیں۔جب 2010کے بدترین سیلاب میں پورا جنوبی پنجاب ڈوب گیا تھا تو آپ نے صرف دو سال میں ایک نیا انفرا اسٹرکچر کھڑا کردیا تھا۔ایک صحرا میںطیب اردوگان اور ترکی اسپتال آپ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اب بھی
👇15/18
نامساعد حالات کےباجود کارکردگی پر توجہ مرکوز کریں۔اچھی کارکردگی بہترین نتائج کیلئےاگر ٹیم میں کوئی ردوبدل کرنا پڑے تو بلاتاخیر کر گزریں۔کیونکہ جب بھی کسی لیڈر کو ناکام کرنا مقصود ہوتا ہےتو اسے سب سےپہلےاسکے مخلص
دوستوں سےدور کیا جاتاھے۔اسکے سامنے ایسی منظر کشی کیجاتی ھے
👇16/18
جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اپنی ٹیم کے قابل لوگوں اور اپنے دوستوں کی غلطیاں نظر انداز کرکے ان سے کام لیں۔ان لوگوں کو تربیت دینے میں آپ کی بہت انویسٹمنٹ ہے،آج انہیں ضائع مت کریں۔آج تاریخ لکھی جارہی ہے۔اس قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے۔عوام پنجاب کی دس سالہ بہترین
👇17/18
کارکردگی کو بھول جائیں گے اور آپکی آخری اننگزکو یاد رکھیں گے۔براہِ کرم اپنے کیرئیر کی بہترین اننگز کھیلنےکی کوشش کریں تاکہ تاریخ میں ہمیشہ آپکو سنہری الفاظ میں یاد رکھاجائے۔
آپکا ملک بچانے کا فیصلہ ہم عوام کو قبول ھے
ثابت قدم رہیں ہمارے قدم آپکے ساتھ ہیں
End
فالو اور شیئر کریں🙏
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#حیران_کن
دنیا میں اس وقت 200 کے لگ بھگ ممالک ھیں
ان میں سے ایک ملک ایسا بھی ھے جو
روس سے کم از کم 10 گنا چھوٹا ھے لیکن جس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے 3 گنا بڑا ھے ۔
یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرے،
خوبانی ، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے،
👇1/6
پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں،
کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے،
آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں،
چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں،
گندم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں اور مالٹے اور کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ھے ۔
یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار
👇2/6
کے لحاظ سے دنیا میں 25 ویں نمبر پر ھے ۔
اس کی صرف گندم کی پیداوار پورے براعظم افریقہ کی پیداوار سے زائد اور براعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے برابر ھے ۔
یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے 55 نمبر پر ھے ۔
کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے ذخائر کے اعتبار
👇3/6
مٹی کی مخبت میں ہم آشقتہ سروں نے
وہ قرض بھی اتارے ہیں جو واجب ہی نہیں تھے
پاکستان کے70 سال کا قرض
ایکطرف اور اس نا اہل سلیکٹڈ نیازی کےچار سال کا قرض ایکطرف ۔اچھا بھلا ملک چل رہا تھا گروتھ 6% تک پہنچ گئی اور پاکستانی مارکیٹ دنیا کی تیسری تیزترین ترقی کرتی بن گئی
بڑے صاحب کو
👇1/6
معیشت کی فکر لگی اور بری لگنے لگی #باجوہ_ڈاکٹرائن کا نفاذ ہوا
پھر نیازی کو مسلط کرکے ترقی کا پہیہ جام کیا گیا ملک تباہی کے دہانے پے آن پہنچا تو نوازشریف کے حوالے کر دیا گیا
عمران نیازی کی گھٹیا پالیسیوں کیوجہ سے ملک دیوالیہ ہونےکے قریب پہنچ چکاتھا
نیازی کو مسلط کرنے والے
👇2/6
پہنچ گئےآخری سانسیں لیتا ملک نوازشریف کےحوالےکرنے
نوازشریف کیا کرتا
مرنے دیتا یا زندگی بچانے کی کوشش کرتا
وہی کیا جو اس کے خمیر میں تھا
کود پڑا ملک بچانے
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ ک پاس دو آپشن تھےریٹس نہ بڑھاۓاور ملک دیوالیہ ہونے دے اور
👇3/6
مائی جندو قاتل کو تختہ دار پر لٹکاکر ہی مقتولین کیلیےروئی😓
تختہ کھینچا گیا تو ایک جسم
دار پر جھولنےلگا جسےدیکھکر بوڑھی عورت کی آنکھ سےایک اشک نکلکر اسکےرخسار کی جھریوں میں تحلیل ہوگیا
یہ 5 جون1992 تھا
ٹنڈو بہاول سندھ کےگائوں
👇1/14
میں ایک حاضر سروس میجر ارشد جمیل نےپاک فوج کےدستے کے ساتھ چھاپہ مار کر 9کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا
جامشورو کےنزدیک دریائےسندھ
کنارے لےجا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا
فوج نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت کے ادارے ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ سے تھا
👇2/14
لاشیں گاؤں آئیں تو نہ صرف گاؤں بلکہ پورے علاقےمیں کہرام مچ گیا ہر ماں اپنے بیٹےکی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے، ان ماؤں میں ایک 72 سال کی بوڑھی عورت مائی جندو بھی تھی، اس کے سامنے اس کے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم کی لاش پڑی تھی
👇3/14
مولانا اوکاڑوی (رحمۃ الله علیہ) نےاپنی کتاب میں لکھا
فرماتے ہیں“مجھے وہاڑی کے ایک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھا گیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرت محمد ﷺ پر بات نہیں ہوئی۔ ہمارا بہت دل کرتا ہےآپ ہمیں وقت عنایت فرما دیں ہم تیاری کر لیں گے
” میں نے محبت بھرے
👇1/8
جزبات دیکھ کر خط لکھ دیا کہ فلاں تاریخ کو میں حاضر ہو جاؤں گا۔ دیئے گئے وقت پر میں نے ٹرین سےاتر کر تانگہ پر بیٹھ کر گاؤں پہنچ گیا تو آگے میزبانوں نے مجھے ھدیہ پیش کر کے کہا مولانا صاحب آپ جا سکتے ہیں، ہم بیان نہیں کروانا چاہتے ۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ ہمارے گاؤں میں
👇2/8
%90 قادیانی ہیں
وہ ہمیں دھمکیاں دیتےہیں
کہ نہ تو تمہاری عزتیں،نہ مال،
نہ گھر بار محفوظ رہیں گے
اگر سیرة النبى (صلی اللہ علیہ وسلم) پر بیان کروایا تو ۔مولانا ہم کمزور ہیں غریب ہیں تعداد میں بھی کم ہیں اسلیے ہم نہیں کرسکتے“میں نے لفافہ واپس کر دیا اور کہا بات تمہاری ہوتی
👇3/8
وہ دن بھلایا نہیں جا سکتا جب 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی کی تنسیخ کے بارے میں گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کے سامنے تمام سیاست دان دم بخود بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے تھے۔ لیکن دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین خان
👇1/8
نے جو قدرے دبو اورکمزور مانے جاتے تھے بڑی دلیری کا مظاہرہ کیا اور گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولوی صاحب کو خطرہ تھا کہ گورنر جنرل کے اہل کار انہیں عدالت میں جانے سے روکیں گے اس لیے مولوی صاحب برقع پہن کر سندھ چیف کورٹ آئے انکے اس
👇2/8
اقدام کو دلیری سے تعبیر کیاگیا تھا
ویسے آزاد پاکستان پارٹی کے بانی میاں افتخار الدین نےمقدمہ کیلئے بھر پور معاونت کی
اس مقدمہ کی سماعت کے دوران ہم چند صحافی سندھ چیف کورٹ کی کینٹین میں چائے پی رہے تھے کہ وہاں سے وزیر تجار ت فضل الرحمن گزرے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سےتھا
👇3/8
کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کی کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔
قریب شام کے7بجےہونگے ،موبائل کی گھنٹی بجی۔ اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ۔ اور ماں کدھر ہیں
👇1/20
آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے۔
میں اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہونچا
دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہوئے ہیں
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں
میں نے بھائی صاحب سے
👇2/20
پوچھاکہ آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے
پھر بھابی جی نے کہا؛ یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔
کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں مجھے طلاق دینا، چاہتے ہیں
میں نے پوچھا " یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اتنی اچھی فیملی ہے
دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے
پہلی نظر میں مجھےلگا
👇3/20