سات دہائیوں بعد بھی ہمارے یہاں اکثریت پاکستان کے سسٹم کو سمجھنے والے اس جابرانہ اور قاہرانہ نظام کے خلاف زبان کھولنے سے قاصر ہے۔۔۔ ماضی میں وقفے وقفے سے کچھ سر پھرے نکلتے رہے مگر قیادت ہمیشہ بکتی رہی۔۔۔ کچھ کو نشانہ عبرت بنا دیا جاتا رہا۔ آج خان کے خلاف سازش نے ملک بھر میں اس
قہر پہ مبنی نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔۔۔ اسی وجہ سے ملک میں موجود سکوت کو توڑ کر با شعور عوام حق بات بولنے لگی ہے۔۔۔ احسن اقبال اکا چور چور چور صرف آغاز ہے۔۔۔ لیکن ہم ماضی نہیں بھولے اور نہ بھولنے دینگے۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ ظلم کی بہت سی داستانیں ان سنی ہی رہ گئیں تھیں لیکن
اب حالات مختلف ہیں۔ سوشل میڈیا نے جو راہ پیدا کی عوامی غبار کے نکلنے کی اس سے عوام کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔۔۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچ سردار نواب نوروز خان 72 برس کے تھے، 1960ء میں جب ایوبی آمریت نے انہیں انکے بیٹے سمیت موت کی سزا سنائی تو 85 سالہ نواب کی یہ سزا عمر قید میں اس لیے
بدل دی گئی کہ عمر زیادہ تھی لیکن اس بوڑھے آدمی کی ہمت کی داد دینا بنتی ہے کہ جب اسکے بیٹے کی میت آخری دیدار کے لیے اسکے پاس جیل میں لائی گئی تو اس نے بیٹے کی ڈھلکی ہوئی مونچھ کو تاؤ دے کر اوپر کر دیا۔۔ یاد رہے کہ یہ زہری قبیلے کی شاخ سر کزئی کا وہی سردار ہے جسے
قرآن پہ حلف دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا تھا اور پھر وعدہ خلافی کرکے مار دیا گیا۔ یہ سب دوبارہ یاد دلانے کا مقصد آپکو صرف یہ جتانا ہے کہ جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کا جہاد آپ اور آپ کے ساتھی بخوبی کر رہے ہیں لیکن یاد رہے کہ اپنے آپکو مضبوط رکھنا سب سے اہم ہے۔ معافیاں منگوا لینا،
گھروں سے اٹھا لینا اور دھمکیاں دینا یہ سب انکے پرانے چال چلن ہیں۔۔۔ بے شک انسان کے لیے درست نیت کے بعد صرف کوشش ہی ہے نتیجہ اللّٰہ کے اختیار میں ہے، بس اپنے حوصلے پست نہ ہونے دیں۔۔۔ اللہ ان سب کی مدد فرمائے جو اس وقت ظلم کے خلاف کلمہ حق پڑھ رہے ہیں۔ #امپوڑٹڈ_حکومت_نامنظور
تصحیح
اوپر کی تحریر میں زرکزئی کی جگہ سرکزئی لکھا گیا ہے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
لیاقت بلوچ کے نام خط: بیٹے کی کینیڈا سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد
لیاقت بلوچ صاحب سلام۔
گذشتہ روز آپ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کے بارے میں خوشی کے مارے تین ٹویٹ کئے۔ آپ کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادے احمد جبران بلوچ صاحب نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ مبارک ہو۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھی بہت مبارک ہو۔ مغرب کی ایک اچھی جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنا ایک اعزاز کی بات ہے (گو یہ اعزاز پاکستان کے صرف مراعات یافتہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کے لوگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے)۔
آپ کے بیٹے بارے معلوم ہوا تو قاضی حسین احمد بھی یاد آئے۔ ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے عین اس وقت ڈگری لی جب ’جہاد کشمیر‘ عروج پر تھا۔ لاہور میں جگہ جگہ جماعت اسلامی کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں نوجوانوں کو سری نگر شہادت کے لئے روانہ کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔
ابھی ایک تحریر نظر سے گزری میں اسکے شروع کے الفاظ میں معمولی ردوبدل کے ساتھ آپکی خدمت میں پیش کرونگی کیونکہ بھیجنے والے بھائی نے ہمیشہ جو تحریریں بھیجیں وہ میں نے پوسٹ کیں تو ظاہر ہے یہ بھی ضرور کرونگی کیونکہ حقیقت سے منہ ہرگز نہیں موڑ سکتی۔۔۔
عنوان ہے تصویر کا دوسرا رخ
ایک DHA تو وہ ہے جسے ہم سب جانتے ہیں لیکن سینکڑوں سویلین ڈی ایچ اے بھی ہیں جیسا کہ لاہور شہر میں نکلیں تو جگہ جگہ درجنوں مہنگی ترین ہاوسنگ سوسائٹیز ہیں
لیکن یہ میڈیا ان سویلین ڈی ایچ اے کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتا جنہیں کرپٹ سیاستدانوں اور سویلین بیوروکریٹس چلا رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے میڈیا کے ان ہاوسنگ سوسائٹیز پہ بات کرتے کیوں پر جلتے ہیں آخر ایسا کیا ہے کہ ہم آسٹریلیا جزیرے اور بلجیئم کی جائیداد تو نکال لیتے لیکن ان ناپید ہوتی زرعی زمین کا ذکر نہیں کرتے
لاہور کے ارد گرد زرعی زمینیں کدھر گئیں؟
وہ زمینیں جنھیں بحریہ ٹاؤن اور
یہ 14 سالہ لڑکا، مصطفی حسین، سابق عراقی صدر صدام حسین کا پوتا ھے۔ جو کہ غاصب امریکی فوج کیساتھ آخری لمحے تک لڑتا رھا۔
آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی سپاہیوں کے مطابق جب انہوں نے آپریشن شروع کیا تو مصطفی حسین نے ان پر فائرنگ شروع کی۔اور 400 امریکی فوجیوں کی پیش قدمی
اکیلے سر روک دی۔
بچے کے سامنے والد اور چچا کی لاشیں پڑی تھیں۔ اور اس نے سنگل رائفل سے 14 امریکی میرینز ھلاک کئے۔
400 امریکی میرینز کیساتھ فائرنگ کا یہ سلسلہ 6گھنٹے تک جاری رھا۔ آخرکار اسکو شھید کیا۔ جب اندر داخل ھوگئے تو امریکی فوج کو یقین نہیں آرھا تھا کہ وہ تو ایک چھوٹا بچہ تھا
اور اس سے بڑی حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہ اکیلا انکے خلاف لڑ رھا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے آرٹیکل "مصطفی حسین" کی یاد میں مضمون نگار رابرٹ ییسٹ لکھتے ھیں کہ اگر اس جیسا بہادر بچہ امریکہ میں پیدا ھوتا تو
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ تصویر میں نے کیوں لگائی؟
اندازہ یہی ہے کہ آپ سب جانتے ہوں گے کہ یہ دو کون ہیں؟؟
دانیال عزیز اور اس کی بیوی مہناز عزیز۔
بھئی اپ سوچ رہے ہوں گے انہوں نے کیا کیا ہے؟
بھئی انہوں نے نہیں کسی اور نے کچھ کیا ہے؟
اچھا سنیں۔
یہ دونوں ن لیگ میں ہیں۔
دونوں امریکن بیسڈ
این جی او کے لئے بھی کام کرتے ہیں۔
اوہ اصل بات تو میں بتانا بھول گیا۔
کچھ دن پہلے دانیال عزیز کا ایکسیڈنٹ ہوا، آرمی چیف قہر باجوہ اس کی تیماداری کے لئے ہسپتال گئے، نہ صرف تیماداری کی بلکہ اسے قومی اثاثہ بھی قرار دیا۔
آپ حیران نہیں ہوئے؟
آرمی چیف کی بیمار پرسی کے لئے جاتے
یا
اسے اثاثہ قرار دینے پر حیران نہیں ہوئے؟
یہ بات اپ کو حیران نہیں کر گئی کیا؟
کیوں آرمی چیف ایک تھرڈ کلاس سیاستدان کی بیمار پرسی کے لئے جا کر اسے قومی اثاثہ قرار دیں گے؟
کوئی تک نہیں بنتی۔
کیا کوئی مجبوری تھی جو چیف کو جانا پڑا اور یہ بیان دینا پڑا؟
شاید
یہ مشرف کے بھی لاڈلے تھے۔
یونیورسٹی سے کلاس آف ہونے پر میں نے موٹر بائیک کو کِک لگائی اور گھر کی طرف روانہ ہوا کچی پکی سروس لین پر مقامی کالج کی لڑکی تیز قدم اٹھاتی بس سٹاپ کی جانب بڑھ رہی تھی اس کے بلکل عقب میں ایک لڑکا بھی اسی چال میں چلا جارہا تھا جس سے کچھ فاصلے پر
دو لڑکے قدرے آہستہ چلے جارہے تھے اچانک لڑکے کا ہاتھ اٹھا اور لڑکی کے اڑتے آنچل کو پکڑ لیا
وہ چاند سا چہرہ ستارا آنکھیں جیسے ایک لمحہ میں آنچل کے رنگ کی مانند زرد پڑ گئیں پیشتر اس سے کہ وہ لڑکی چکرا کر گر پڑتی میں نے بائیک کو سڑک پر کھڑا کیا اور لڑکی کی مدد کو پہنچنے تک اردگرد کے
ماحول کا جائزہ لیا آنچل کو لڑکے کی گرفت سے آزاد کرواتے اور دو ایک تھپڑ رسید کرتے تک اس کے دونوں ساتھی بھی موقع پر پہنچ چکے تھے
*قصہ مختصر* ویٹ لفٹنگ باڈی بلڈنگ اور یونیورسٹی ایتھلیٹکس ٹیم کا ممبر ہونے کی وجہ سے میں تینوں لڑکوں پر مکمل طور پر حاوی ہوچکا تھا کہ اچانک کوئی چیز پہلو
ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا، میرے ساتھ میرے ساتھی بھی تھے... جب ھم کوفہ پہنچے، تو وہاں ضروریاتِ سفر خریدنے کیلئے بازاروں میں گھوم رہا تھا کہ دیکھا... ایک ویران سی جگہ میں ایک خچر مرا ہوا تھا اور ایک عورت جس کے کپڑے بہت پرانے بوسیدہ سے تھے
چاقو لیے ہوئے اُس کے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی...
مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ مردار گوشت لے جا رہی ہے، اس پر سکوت ہر گز نہیں کرنا چاہیے، شاید یہ عورت لوگوں کو یہ ہی پکا کر کھلاتی ہو... سو میں چپکے سے اس کے پیچھے ہو لیا، اس طرح کہ وہ مجھے نہ دیکھے... وہ عورت
ایک بڑے مکان میں پہنچی جس کا دروازہ بھی اونچا تھا...
اس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی کون ہے...؟
اس نے کہا کھولو، میں بد حال ہوں، دروازہ کھولا گیا اور گھر میں چار لڑکیاں نظر آئیں، جن کے چہرے سے بد حالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے، وہ عورت اندر آ گئی اور