اگر سیاست گنوا کر ریاست بچانے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو پھر اپنا ٹھینگا بھی سر پر رکھنا تھا۔
جب فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا گند سمیٹنے کا فیصلہ کیا تھا تو فوج کو اپنے پیچھے چلانا تھا نا!
ان کے مداری بننے کی بجائے ڈگڈگی اپنے ہاتھ میں رکھنی چاہیے تھی۔
سیانے کہتے ہیں کہ جیسا منہ ویسی چپیڑ ہونی چاہیے۔
آپ نے اقتدار میں آ کر عمران خان کو ایک ہوا بنا دیا۔ اسے سیکورٹی دے دی، بولنے کی آزادی دے دی، میڈیا پر زبان بندی نہیں کی اور نہ ہی اس کے خلاف کیسز کھول کر ان کیسز میں کسی کو اندر کیا۔
وہ آپ کو چور ڈاکو کرپٹ غدار ملک دشمن کہتا رہا اور آپ نے اسے الیکشن کمپین کی کھلی چھٹی دیے رکھی؛
وہ گالیاں بکتا رہا آپ اخلاقیات کی معراج پر کھڑے رہے، وہ آپ کی کردار کشی کرتا رہا آپ اصولوں کی سیاست کا بھاشن دیتے رہے، وہ ڈبوتارہا آپ سنجوتے رہے اور ملاکیا؟
اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ منہ دیکھ کر چپیڑ مارنی چاہیے، جب تک ن لیگ عمران خان کے ساتھ اسی طرح اگریسیو نہیں ہو گی اور اسٹیبلشمنٹ کو بار بار اس کی غلطیوں کا احساس دلا دلا کر اپنا انگوٹھا اس کے سر پر نہیں رکھے گی؛ کارکردگی کے باوجود مار کھاتی رہے گی۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ پنجاب اور وفاق میں کرپشن اور جو جو بدانتظامیاں اور لوٹ کھسوٹ مچائی تھی اس بنیاد پر ساروں کو پکڑ کر اندر کر دیتے۔
طیبہ کا کیس ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے؛
ہراسمنٹ کے کیس میں عمران خان کو پکڑ کر جیل میں ڈالتے تاکہ اس کی زبان بند ہوتی۔
دیکھ لیتے کتنے کارکن نکلتے ہیں؟ لانگ مارچ کی کال پر رانا ثناءاللہ کے ڈنڈے نے سارے یوتھیوں کو دبکا دیا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری پر بھی جو نکلتے انہیں دبکا لیا جاتا۔
کتنے دن نکلتے؟ شاید دو چار دن۔
ابھی بھی ڈفینسیو موڈ سے باہر نکلیں اور اگریسیو ہوں۔
عمران خان کے اگریشن کا مقابلہ اگریسیو ہو کر ہی کیاجا سکتاہے۔جب تک عمران خان اور پی ٹی آئی سپورٹرز کو ڈفینسیو پوزیشن میں نہیں لائیں گےآپ کی کارکردگی آپ کو کوئی فائدہ نہیں دےگی۔
شریفوں کا مقابلہ شرافت سے کیا جاتا ہے اور بدمعاشوں کا بدمعاشی سے کیا جاتا ہے۔
آپ ریاست ضرور بچائیں لیکن جب آپ جانتے ہیں کہ ریاست بچا سکتے ہیں تو اپنا ہاتھ اوپر رکھیں اور فوج سے بھی اپنی منوائیں۔
آج آپ کا سپورٹر مایوس ہے اور یہ صرف اور صرف آپ کی یئیں یئیں کی وجہ سے ہے۔
خود بھی اگریسیو ہوں اور اپنے سپورٹرز کو بھی اعتماد دیں۔
دو باتیں آج کل اکثر ولاگز میں سننے کو ملتی ہیں اور کچھ کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے قلم اور زبان سے بھی نکل رہی ہیں:
پہلی یہ کہ میاں صاحب اقتدار لینے کے حق میں نہیں تھے اور عدم اعتماد کے بعد اسمبلی توڑنا چاہتے تھے لیکن انہیں قائل کیا گیا۔
دوسری بات یہ کہ اس وقت ملک کے ایسے
حالات ہیں کہ حکومتی جماعت کو عمران خان کو مفاہمت کا پیغام دینا چاہیے اور عمران خان کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے قبول کر لینا چاہیے؛ تاکہ مل بیٹھ کر ملکی مسائل حل کیے جا سکیں۔
اگر سیاسی جماعتوں نے ایسا نہ کیا تو نئے نئے نیوٹرل ہوئے جرنیل میدان میں کود پڑیں گے اور ملک میں
مارشل لاء یا ایمرجنسی لگ سکتی ہے تو پھر دس بیس سال کے لئے بھول جائیں سیاست کو۔
جہاں تک میاں صاحب سے متعلق رائے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت تو میاں صاحب خود ہی بتائیں گے کہ انہیں گھیر گھار کر مجبور کیا گیا یا انہوں نے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ لیا اور میاں صاحب کو بتانا
باجوہ صاحب! سعد رفیق صاحب کی تو ہو گی کوئی مجبوری جو انہوں نے براہ راست نام لے کر آپ کو مخاطب نہیں کیا لیکن میری تو فی الحال کوئی مجبوری نہیں اس لیے سیدھی سیدھی بات نو بکواس اپنے لاڈلے بےبی کو پٹا ڈالیں اور یہ بات سمجھ لیں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کا لاڈلا بکواس بھی کرتا رہے اور
اسے کچھ کہا بھی نہ جائے، اس کی کرپشن بھی سامنے آتی رہے اور پھر بھی کوئی کیس نہ بنایا جائے، اسے عدالتوں سے بھی ریلیف ملتا رہے، میڈیا پر بھی آزادی سے بکواس کرنے کی اجازت ملتی رہے اور دوسری طرف جو اپنی سیاست داؤ پر لگا کر اور آپ کا گند کاندھوں پر اٹھا کر ریاست بچانے آئے ہیں وہ سر
جھکائے اپنا کام کرتے رہیں۔
اب نہ آپ کو اس کی گالیاں بری لگ رہی ہیں اور نہ عدلیہ کو کوئی تکلیف ہوتی ہے۔
ٹھیک ہے اپنی لاڈلی اولاد کی باتیں بری نہیں لگتیں تو پھر آپ نے ملک اس لاڈلے سے درست کروا لینا تھا۔
کس نے کہا تھا کہ لاڈلے کے ہاتھوں منہ کی کھا کر جنہیں چور ڈاکو کہہ کہہ کر
آخر آپ کو فارن فنڈنگ کیس سے اتنی امیدیں کیوں ہیں؟
کیا واقعی آپ سمجھتے ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آئے گا اور پھر اس فیصلے سے عمران خان کی سیاست ختم ہو جائے گی؟
پی ٹی آئی کا فتنہ اپنی موت آپ مر جائے گا؟
میرا تو خیال ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔
اگر بفرض محال فارن
فنڈنگ کیس کا کوئی واضح فیصلہ آ بھی گیا اور عمران خان کو کوئی سزا سنا بھی دی گئی تو سب سے پہلے تو وہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور پھر تاریخیں پڑنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ کسی عدالتی فیصلے سے فتنے ختم نہیں کیے جا سکتے بلکہ فتنہ ختم کرنے کے لیے
اس فتنے کے خلاف مؤثر کمپین کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی عدالتی فیصلے کا سہارا لے کر عمران خان کو ختم کر سکتے ہیں تو یہ ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر عمران خان کو نااہل بھی کر دیا جائے تب بھی آپ اس کے اثرات اس وقت تک ختم نہیں کر سکتے جب تک کہ عمران خان
آپ بیانیے کی بات کرتے ہیں کہ ن لیگ نے بیانیہ چھوڑا تو اس لیے عوام نے ن لیگ کو ووٹ نہیں دیا۔
عمران خان کے پاس کونسا بیانیہ ہے؟
لوٹوں کو بُرا کہتا تھا لیکن 2018 میں بھی لوٹوں کے ساتھ اقتدار پر مسلط ہوا اور اب بھی جیتا۔
اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی مخالفت کرتا تھا لیکن اقتدار
اسٹیبلشمنٹ سے لیا اور جب کہتا تھا کہ فوج میرے آگے کھڑی ہے اور عدلیہ پیچھے تو یہ بیانیہ بھی بکتا تھا اور جب نیوٹرلز کو جانور کہا تو یہ بیانیہ بھی بک گیا۔
کارکردگی نام کو نہیں لیکن امریکی سازش کا بیانیہ بک گیا۔
پاکستانی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لے کر بھی قرضوں کے خلاف بھاشن دیتا
ہے اور یہ بیانیہ بھی بک جاتا ہے۔
چار سال میں ایک الزام عدالتوں میں ثابت نہیں کر سکا لیکن پھر بھی الزام لگاتا ہے اور اپنی کرپشن سامنے آنے کے باوجود دوسروں پر الزامات کا کرپشن بیانیہ بک رہا ہے۔
جب آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر خودکشی کو قرار دیتا تھا تو وہ بھی بکتا تھا اور جب
2018میں پہلی دفعہ ن لیگ کو مشورہ دیا تھا کہ سوشل میڈیا چلانے کے لیے پروفیشنلز ہائیر کریں اور آئی ٹی ایکسپرٹس رکھیں؛ ایسے ایکسپرٹس جو پاکستانی سیاست کے ساتھ ساتھ ورلڈ پالیٹکس اور تاریخ و معیشت پر بھی نالج رکھتے ہوں؛ سوشل میڈیا تصویروں پر چاپلوسانہ کیپشن دینے کے لیے نہیں ہوتا۔
ایک سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا پروفیشنل، ذمہ دار اور دلیل و حقائق کے ساتھ ساتھ موقع کی مناسبت سے پارٹی جو بیانیہ بنائے اسے وائرل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہونا چاہیے۔
لیکن مجھے بتایا گیا کہ ہائیر ہونے والے نظریاتی تو نہیں ہوں گے نا؛ وہ اس جذبے سے تو ٹوئیٹ نہیں کریں گے نا؛
وہ تو ڈیوٹی پر ہوں گے انہیں تو بس تنخواہ سے غرض ہو گی۔
یہ سمجھنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں تھا کہ پروفیشنل ازم کی کتنی اہمیت ہوتی ہے اور جو ڈیوٹی پر ہو گا اگر اس سے درست طریقے سے کام لیا جائے گا تو پھر وہ جذباتی والنٹیرز سے بہتر پروفیشنل بنیاد پر پارٹی مؤقف آگے وائرل کرے گا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ ریاست میں اتنے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں، ان کے اربوں کے بزنس ہیں اور اربوں کی پراپرٹیز وہ کیسے نیوٹرل ہو کر رہ سکتے ہیں؟
یہ ڈھکوسلہ صرف اس لیے ہے کیونکہ ان کا پراجیکٹ عمران خان فیل ہو گیا ہے؛ کچھ عرصہ بعد پھر تازہ دم ہو کر کوئی نئی ڈاکٹرائن نکال لائیں گے۔
پھر مجھے عائشہ صدیقہ کی کتاب
’ملٹری انکارپوریٹڈ: انسائیڈ پاکستانز ملٹری اکانومی‘ یاد آتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق پاک فوج کے کاروباری مفادات تین سیکٹرز میں پائے جاتے ہیں؛ زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروسز۔
نیشنل لاجسٹیکس سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن جیسے ادارے براہ راست پاک فوج
کے زیرِ اثر ہیں۔
پھر فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن ہیں جو براہ راست تو فوجی زیرِ انتظام میں نہیں ہیں لیکن فوج کے مالی مفادات ان اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔
تیسری صورت میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی سویلین اداروں میں تقرری ہے جس سے