کل سے ففتھیے اچھل رہے ہیں کہ غداروں (انصافیوں) کے پراپیگنڈے کی موت ہو گئی ہے۔ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جرنیل جانیں نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ وغیرہ
سچ تھوڑا کڑوا ہے حوصلہ کر کے سنیں۔
پاکستان کی دشمن سے آمنے سامنے چار جنگیں ہوئیں ۔
پہلی 1947/48ء جسکے نتیجے میں کم و بیش
چھ ہزار سول و فوجی شہادتیں ہوئیں
دوسری 1965ء کی ذجنگ تھی۔۔۔ اسکے نتیجے میں کم وبیش چار ہزار سول و فوجی شہادتیں
تیسری 1971ء کی جنگ۔۔۔ اس میں کم و بیش نو ہزار سول و فوجی شہادتیں تھیں
چوتھی 1999ء میں ہوئی۔۔ اس بار کم و بیش پانچ سو شہادتیں ہوئیں تھیں
اسکے بعد وار آن ٹیرر کے نام پر
ہزاروں فوجی اور سولین شہید ہوئے جو سب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔
یہ تمام جنگیں دشمن نے مسلط کی تھیں۔۔۔
لیکن کولن پاول کی ٹیلیفون کال پر لیٹنے والے جرنیل کے ایک فیصلے نے ان چار جنگوں سے تین گنا زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔۔۔۔ ڈالروں کے عوض کل کے ہیروؤں کو دہشت گرد بنا کر بیچنے کا
ایک فیصلہ ستر ہزار سے زیادہ شہادتوں کی صورت میں وصول ہوا۔ اور جب یہ سلسلہ ختم ہوا تو ایک اور جرنیل نے عام لوگوں کو چوک چوراہوں پر پھانسی دینے والے جوانوں اور افسروں کے سروں سے فٹبال کھیلنے والوں کو دہشت گرد سے اپنے بچے قرار دے کر ایک نئی جنگ شروع کر دی ۔
یہ سارے فیصلے کرنے والے عوام نہیں ہیں عوام تو ایسی پھٹیچر پے انکی نظروں میں کہ اس کو تو اپنی مرضی کا حکمران چننے کی اجازت نہیں دیتے ہیں یہ۔۔۔ جبکہ یہی پھٹیچر عوام اپنی دو وقت کی روٹی کے بجائے ایک وقت کی روٹی اور بعض اوقات فاقے کر کر کے ان جرنیلوں اور سیاسی گدوں کے
شاہانہ خرچے پورے کر رہی ہے۔۔ انکی صحت انکی تعلیم انکا روزگار کسی جرنیل یا سیاست دان کا کنسرن نہیں ہے، ان سب کی اپنی اپنی کالونیاں ہیں۔۔۔ باقی لندن، دوبئی اور دیگر ممالک میں شاہانہ علاج اور لیگثری لائف انجوائے کرتے۔۔۔ مرتے بھی ہیں تو ٹھاٹھ باٹھ سے نرم ریشمی بستروں پر۔۔۔
پر جنکا پیٹ کاٹ کاٹ کر یہ مگرمچھ پل رہے انہی کو بم دھماکوں سے اڑانے لٹکانے گولیوں سے بھوننے کا سبب ان جرنیلوں اور سیاستدانوں کے فیصلے ہیں ۔ ہمیں غدار ثابت کرنے کے بجائے اپنے آقاؤں کو عقل دیجئے کہ دشمن کے آگے لیٹنے کے بجائے لڑنا سیکھیں۔۔۔ اپنے اعمال اپنی بزدلی کے سبب ہونے والی
شہادتوں کا ذمہ دار عوام کو مت ٹھہرائیں۔۔ اور اگر کسی ایک لیڈر نے غلطی سے عوامی خواہشات کے مطابق غیرت کو ڈالروں پر ترجیح دی ہے تو اسکو گالیاں دینے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔۔ اپنا احتساب کریں۔۔۔ ہمارے ٹیکسوں پر پل کر ہمارے خدا مت بنیں۔۔۔
میاں نواز شریف صاحب کا عدلیہ کے خلاف تازہ ٹویٹ دیکھا تو گوہر ایوب خان صاحب کی کتاب Glimpses into the corridors of power یاد آ گئی۔ نواز شریف فرماتے ہیں:پاکستان کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔تینوں جج صاحبان کو سلام۔ میرے بس میں ہوتا تو
میاں صاحب کی خدمت میں ان کے اپنے سپیکر اور وزیر خارجہ کی کتاب بھیجتا اور عرض کرتا: پاکستان کو تماشا بنانے میں آپ کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو بھی سلام۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب سجاد علی شاہ صاحب چیف جسٹس تھے اور نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ نواز شریف کے چیف
جسٹس سے تعلقات ٹھیک نہیں تھے کیونکہ سجاد علی شاہ ’شرافت کی عدالت‘ کے قائل نہیں تھے۔پھر یوں ہوا کہ چیف جسٹس کے بیڈ روم میں خفیہ ریکارڈنگ کے آلات لگا دیے گئے، چیف جسٹس نے ان آلات کو پکڑ لیا۔ خبر نکلی کہ چیف جسٹس پریس کانفرنس کریں گے اور بتائیں گے یہ حرکت کس نے کی۔
لیاقت بلوچ کے نام خط: بیٹے کی کینیڈا سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد
لیاقت بلوچ صاحب سلام۔
گذشتہ روز آپ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کے بارے میں خوشی کے مارے تین ٹویٹ کئے۔ آپ کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادے احمد جبران بلوچ صاحب نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ مبارک ہو۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھی بہت مبارک ہو۔ مغرب کی ایک اچھی جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنا ایک اعزاز کی بات ہے (گو یہ اعزاز پاکستان کے صرف مراعات یافتہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کے لوگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے)۔
آپ کے بیٹے بارے معلوم ہوا تو قاضی حسین احمد بھی یاد آئے۔ ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے عین اس وقت ڈگری لی جب ’جہاد کشمیر‘ عروج پر تھا۔ لاہور میں جگہ جگہ جماعت اسلامی کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں نوجوانوں کو سری نگر شہادت کے لئے روانہ کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔
سات دہائیوں بعد بھی ہمارے یہاں اکثریت پاکستان کے سسٹم کو سمجھنے والے اس جابرانہ اور قاہرانہ نظام کے خلاف زبان کھولنے سے قاصر ہے۔۔۔ ماضی میں وقفے وقفے سے کچھ سر پھرے نکلتے رہے مگر قیادت ہمیشہ بکتی رہی۔۔۔ کچھ کو نشانہ عبرت بنا دیا جاتا رہا۔ آج خان کے خلاف سازش نے ملک بھر میں اس
قہر پہ مبنی نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔۔۔ اسی وجہ سے ملک میں موجود سکوت کو توڑ کر با شعور عوام حق بات بولنے لگی ہے۔۔۔ احسن اقبال اکا چور چور چور صرف آغاز ہے۔۔۔ لیکن ہم ماضی نہیں بھولے اور نہ بھولنے دینگے۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ ظلم کی بہت سی داستانیں ان سنی ہی رہ گئیں تھیں لیکن
اب حالات مختلف ہیں۔ سوشل میڈیا نے جو راہ پیدا کی عوامی غبار کے نکلنے کی اس سے عوام کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔۔۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچ سردار نواب نوروز خان 72 برس کے تھے، 1960ء میں جب ایوبی آمریت نے انہیں انکے بیٹے سمیت موت کی سزا سنائی تو 85 سالہ نواب کی یہ سزا عمر قید میں اس لیے
ابھی ایک تحریر نظر سے گزری میں اسکے شروع کے الفاظ میں معمولی ردوبدل کے ساتھ آپکی خدمت میں پیش کرونگی کیونکہ بھیجنے والے بھائی نے ہمیشہ جو تحریریں بھیجیں وہ میں نے پوسٹ کیں تو ظاہر ہے یہ بھی ضرور کرونگی کیونکہ حقیقت سے منہ ہرگز نہیں موڑ سکتی۔۔۔
عنوان ہے تصویر کا دوسرا رخ
ایک DHA تو وہ ہے جسے ہم سب جانتے ہیں لیکن سینکڑوں سویلین ڈی ایچ اے بھی ہیں جیسا کہ لاہور شہر میں نکلیں تو جگہ جگہ درجنوں مہنگی ترین ہاوسنگ سوسائٹیز ہیں
لیکن یہ میڈیا ان سویلین ڈی ایچ اے کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتا جنہیں کرپٹ سیاستدانوں اور سویلین بیوروکریٹس چلا رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے میڈیا کے ان ہاوسنگ سوسائٹیز پہ بات کرتے کیوں پر جلتے ہیں آخر ایسا کیا ہے کہ ہم آسٹریلیا جزیرے اور بلجیئم کی جائیداد تو نکال لیتے لیکن ان ناپید ہوتی زرعی زمین کا ذکر نہیں کرتے
لاہور کے ارد گرد زرعی زمینیں کدھر گئیں؟
وہ زمینیں جنھیں بحریہ ٹاؤن اور
یہ 14 سالہ لڑکا، مصطفی حسین، سابق عراقی صدر صدام حسین کا پوتا ھے۔ جو کہ غاصب امریکی فوج کیساتھ آخری لمحے تک لڑتا رھا۔
آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی سپاہیوں کے مطابق جب انہوں نے آپریشن شروع کیا تو مصطفی حسین نے ان پر فائرنگ شروع کی۔اور 400 امریکی فوجیوں کی پیش قدمی
اکیلے سر روک دی۔
بچے کے سامنے والد اور چچا کی لاشیں پڑی تھیں۔ اور اس نے سنگل رائفل سے 14 امریکی میرینز ھلاک کئے۔
400 امریکی میرینز کیساتھ فائرنگ کا یہ سلسلہ 6گھنٹے تک جاری رھا۔ آخرکار اسکو شھید کیا۔ جب اندر داخل ھوگئے تو امریکی فوج کو یقین نہیں آرھا تھا کہ وہ تو ایک چھوٹا بچہ تھا
اور اس سے بڑی حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہ اکیلا انکے خلاف لڑ رھا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے آرٹیکل "مصطفی حسین" کی یاد میں مضمون نگار رابرٹ ییسٹ لکھتے ھیں کہ اگر اس جیسا بہادر بچہ امریکہ میں پیدا ھوتا تو