کربلا، عقل اورتاریخ
جزیرہ نماعرب ہمیشہ سےایک مشکل اورکٹھن جگہ رہی ہے. صحرا ہونےکی وجہ سےیہ کوئی بہت زرخیز اورمعاشی طور پر مضبوط بھی نہیں رہا. اور زندگی بھی مشکل تھی. اسی وجہ سے ماضی کی سپر پاورز نے اس پر قبضہ کی کوئی خاص کوششیں نہیں کیں. @MaryamNSharif@CMShehbaz#Karbala#Yazid
نبی کریم(ص) جب فوت ہوئےتوجزیرہ نما عرب پراسلام غالب ہوچکاتھا اورآپ نےاس کوایک ریاست بنادیاتھاجس کادارالخلافہ مدینہ تھا. لیکن وفات کےساتھ ہی بہت سےقبائل نےبغاوت کردی اوربہت سےجھوٹے نبوت کےدعویدار بھی سامنے آگئے. حضرت ابوبکر(رض) کےتدبر اورجارحانہ حکمت عملی سےان بغاوتوں کوکچل دیاگیا
اورریاست مدینہ نہ صرف مضبوط بنیادوں پراستوار کی گئی بلکہ اسلامی خلافت کووسعت بھی دینا شروع کردیاگیا. اسکےلئےاس وقت کی دونوں سپرپاورز،ساسانیوں اوررومیوں سےبیک وقت محاذکھول دیاگیا.یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک نوزائدہ ریاست جس نےابھی بغاوتوں کوکچلاہووہ دوسپر پاورز سےٹاکراشروع کردے
حضرت ابو بکر(رض) نے جس کام کا آغاز کیا اس کام میں تیزی حضرت عمر فاروق(رض) کے دور میں آ گئی اور ریاست اس تیزی سے پھیل رہی تھی کہ اس کا انتظام و انصرام اور نئے علاقوں کو اسلام سے روشناس کرانا، ان سب چیزوں کو ہنگامی بنیادوں پر کرنا پر رہا تھا. اسی لئے شاید حضرت عمر(رض) کا قول ہے کہ
کاش ہمارےاورساسانیوں کےدرمیان ایک دیوار کھڑی ہوجائے، نہ ہم اس کےپار جاسکیں اورنہ وہ ادھر آسکیں. دوسری طرف ساسانی اوررومی سلطنتوں کےاعمال اوراشرافیہ بھی تھی جو اسلام کےتیزی سےپھیلنےاوراپنی امارت کےجانےسے پریشان تھی. ظاہری بات ہےکہ اسلام جب ان علاقوں میں پھیلاتوانکی حیثیت ختم ہوگئی
اسی کاشاخسانہ ہےکہ حضرت عمر کوشہیدکیاگیاکیونکہ ان کاممکنہ خیال ہوگاکہ شاید امیرکی شہادت کےبعداسلام کاپھیلنا رک جائےجیسےسکندراعظم کی موت کےبعد اسکی سلطنت ٹوٹ گئی اورہم اپنی باقی ماندہ سلطنت کوبچالیں. لیکن حضرت عثمان نےخلافت پرقدم رکھاتواسلام اورخلافت کی ترویج میں کوئی کمی نہ آنےدی
حضرت عثمان(رض) نےتو بحری بیڑے کےبنانےکی بھی اجازت دےدی اوردوسری طرف ساسانی رسیاست کاوجودہی ختم کردیا. اپنےپچھلےپلان کی ناکامی کےبعدیہودیوں اورمجوسیوں کےگٹھ جوڑ سےاسلام کواندر سےکمزور کرنےکی سازش شروع کی گئی. مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے باہمی اتحاد میں دراڑ ڈال کراسلام کو روکا جائے
باغیوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کرنے کے بعد حضرت طلحہ(رض) اور حضرت زبیر(رض) کو پہلے خلیفہ بننے کی دعوت دی لیکن ان دونوں اشخاص نے وقت مانگا اور مدینہ سے نکل گئے. اگر ان میں سے کوئی صحابی خلافت کے لئے راضی ہو جاتا تو یقیناً ہماری تاریخ اور روایات مختلف ہوتیں.
کہنےکامقصد یہ ہےکہ باغیوں نےبہت سی جھوٹی روایات کا پروپیگنڈا کر کےخلافت کوکمزور کرنےکی کوششیں کیں. جیسے اگر واقعہ غدیر صحیح تھا توپھر باغیوں کو تو سب سےپہلے حضرت علی(رض) کو خلافت دینی چاہیے تھی. لیکن ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ واقعہ غدیر بعد سیاسی ضرورت کے تحت لکھا گیا ہے.
مزید یہ حضرت عثمان (رض) کی شہادت نے ان فسادیوں اور فتنہ پردازوں کو ایسی کامیابی دے دی جس کی بنیاد پر عراق کی سرزمین پھر اکثر بغاوتوں کا منبع رہی. یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم آج کے دور میں اپنے ملک میں دھرنوں اور ہڑتالوں کو دیکھتے ہیں کہ ماضی میں اس سے اپوزیشن کو کامیابی ملی ہوئی ہیں
لیکن کوئی بھی گروہ اب بھی اپنےجائز اورناجائزمطالبےکو منوانےکےلئےدھرنااورہرتال کاہتھیار استعمال کرتاہے. حقیقت میں یہ حکمران کے غلط ہونے کا پیمانہ نہیں
حضرت علی کی شکل میں ان فسادیوں کو ایک ایسے صحابی مل گئے جو داماد رسول بھی تھے. بیشک ان لوگوں کو حضرت علی سے کوئی محبت نہیں تھی
ان کا ایک مقصد تو اقتدار میں پہنچنا تھا اور دوسرا یہ کہ اگر اقتدار نہیں ملتا تو بھی اسلام کو مزید پھیلنے سے روکنا تھا. اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جب حضرت علی(رض) نے تحکیم کی تو انھوں نے حضرت علی(رض) کے خلاف ہی بغاوت کر دی اور ان کو شہید کر دیا. اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں
ان کوحضرت علی سےکوئی محبت نہ تھی اورتحکیم میں حضرت علی سےکوئی ناانصافی نہیں ہوئی تھی ورنہ ان لوگوں کاغصہ حضرت علی پرنہ ہوتا، جیسےہم آج دیکھ سکتے ہیں کہ اگرکسی جماعت کےلیڈر کےساتھ اس کےحمایتی زیادتی دیکھیں تواس کےحمایتی دوسروں کوبرابھلاکہتےہیں اور اپنے لیڈر کی زیادہ حمایت کرتے ہیں
اس میں یہ بھی پہلو پوشیدہ ہےکہ حضرت علی، حضرت امیر معاویہ کےساتھ چلنےکےلئےبھی تیار تھے. اسی لئےان باغیوں اور فسادیوں کواندازہ ہوگیاکہ انکافساد کامنصوبہ کھٹائی میں پرجائےگااورامن قائم ہوجائےگا اورانکا مقام ختم ہوجائےگا
ان کوحضرت علی کی ضرورت نہیں بلکہ حضرت علی کانام زیادہ ضروری ہے
دوسری طرف خاندان حضرت علی(رض) کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ عراق فسادیوں کا خطہ ہے اسی لئے حضرت علی(رض) کی شہادت کے بعد یہ سب لوگ مدینہ آ گئے اور یہیں آباد رہے. دوسری طرف عراق میں حضرت علی(رض) کے نام پر سیاست کو جاری رکھا گیا اور پروپیگنڈا کر کے لوگوں کو ورغلایا جاتا رہا.
لیکن حضرت حسن، حسین، محمدبن علی، علی بن حسین المعروف زین العابدین یہ سب لوگ جوحضرت علی کے بیٹوں اوربیٹوں کےبیٹوں میں شامل ہوتےہیں انھوں نےپھرکسی بھی بغاوت کاحصہ بننےسےانکار کردیا. تاریخ بتاتی ہےکہ محمد بن علی جوکہ اپنےوقت میں بہت مشہور بھی تھےانکو بھی متعدد بار عراق انے کا کہاگیا
لیکن بعد کی تاریخ میں ان ناموں کو نکال دیا گیا. اس سے یہ بھی بات ثابت ہوتی ہے کہ پنجتن پاک کا جو نظریہ ہے وہ بھی بعد کی تخلیق ہے ورنہ حضرت حسن اور حسین کے ہوتے ہوئے محمد بن علی کو وہ کیوں دعوت دیتے؟ اس وقت باغیوں کو ایک ایسے فرد کی ضرورت تھی جو کہ ان کے فساد کو تقویت دے سکے.
عراق میں فساد پھیلانے والےمختارثقفی کی موت کاجب زین العابدین کومعلوم ہواتوانھوں نےاس پر شکرکیا. جس سے واضح ہوتاہےکہ وہ جانتےتھےکہ یہ باغی اسلام کی کوئی خدمت نہیں کررہے. بلکہ ہمارا نام استعمال کر کےاسلام کوکمزور کر رہے ہیں. دوسری طرف زین العابدین بنو امیہ سے رشتہ داریاں استوار کیں
یزیدکی وفات کےبعد خلافت میں کچھ رخنہ پڑاجس میں عراقیوں کوفساد کووسیع کرنےکاموقعہ مل گیا. مزیدیہ کہ کچھ علاقوں میں وہ اپنی ریاست بنانےمیں بھی کامیاب ہوگئے. لہٰذا ان کواقتدار کانشہ بھی لگ گیا. جیسےہم آج دیکھتےہیں کہ بھائی بھائی کےخلاف ہوجاتا ہےاقتدارکی خاطر، تویہ ایک انسانی فطرت ہے
لیکن عبد الملک کے دور میں ان بغاوتوں کے خاتمے کے بعد پھر ایک دفعہ عام الجماع ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان بلاجماع یکجہتی کے ہی قائل تھے، اور ان کو بنو امیہ سے کوئی تعرض نہیں تھا. ان بغاوتوں میں حضرت علی کے خاندان نے بالعموم بنو امیہ کی ہی حمایت کی تھی.
لیکن اگلی نسلوں میں آل علی کے کچھ لوگوں نے ضرور بغاوتوں کا ساتھ دیا. ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ بنو امیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جب بنو عباس حکمران بنے تو انھوں نے بنو امیہ کے بعد سب سے زیادہ جو ظلم کیا وہ آل علی پر کیا. اگرچہ وہ ان کا نام لے کر اقتدار کی منزل پر پہنچے تھے.
کیونکہ ان کامقصد اقتدار کاحصول تھانہ کہ اسلام یا آل علی سےکوئی فرضی زیادتی کاتدارک. یہ تیسرےعباسی خلیفہ کے بعد انھوں نےآل حسین کےکچھ لوگوں کو بغداد بلایا اور اس کا بھی بنیادی مقصد اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ تھا. دوسری طرف ایسی روایتیں بھی پھیلائی گئیں جو بنو امیہ کے خلاف تھیں
تاکہ بنو امیہ کے اقتدار کے خاتمے اور ان پر کیے جانے والے ظلم کو جواز فراہم کیا جا سکے. اگرچہ اس میں سے بہت سی چیزیں چھنت گئیں لیکن بہت سی چیزیں آ بھی گئیں. ویسے بھی ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، لہٰذا پروپیگنڈا کرنے والے زیادہ مواد نکالتے ہیں.
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست، پروپیگنڈا، اور انسانی فطرت میں تبدیلی نہیں ہوتی اگرچہ ذرائع بدل جاتے ہیں. آج بھی بیسیوں پروپیگنڈا کے لئے سائٹ اور اکاؤنٹس ہیں. کسی چیز کے زیادہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زیادہ صحیح ہے، ماموں کا بیٹا کامران آج کے دور کی سب سے بڑی حقیقت ہونا چاہیے
نزول مسیح اور غامدی صاحب کا نکتہ نظر
حال ہی میں غامدی صاحب کے لیکچر سیریز میں ٧ نششتوں پر مشتمل نزول مسیح پر ایک ویڈیو سیریز یوٹیوب پر ملی جس کو دیکھنے کا موقعہ ملا اور جس میں انھوں نے نزول مسیح کے حوالے سے اپنی رائے دی. اس رائے کو اختصار سے بیان کیا جا رہا ہے #QuranicReflections
نزول مسیح کے نظریہ کے حوالے سے انھوں نے متعدد دلیلیں دی ہیں. اگرچہ انھوں نے روایات سے آغاز کیا ہے لیکن میں ان کی قرآن سےدیے گئے نکتوں کو پہلے رکھوں گا. حضرت عیسیٰ (ع) کا ذکر متعدد سورتوں میں موجود ہے اور سوره مائدہ میں الله اور حضرت عیسیٰ (ع) کا قیامت کے دن کا مکالمہ بھی درج ہے
یہ آیات ١١٦ سے١١٩ تک میں آیا. جس میں الله قیامت کےدن حضرت عیسیٰ(ع)سےپوچھیں گےکہ کیاتم نےلوگوں کوکہاتھاکہ مجھےاورمیری والدہ کومعبود بنالو؟ جس پرحضرت عیسیٰ(ع) انکار کریں گے اور کہیں گے کہ مجھے کچھ حق نہیں کہ ایسا کہتا اور جو میرے دل میں بات ہے تو جانتا ہے اور بیشک تو علام الغیوب ہے
واقعہ صفین اورموجودہ سیاست
کچھ دن پہلےجنگ صفین کےبارے میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جسے غیروں نےبنایا۔ K&G جنگ کی ویڈیوزبناتےہیں اورفوج کی حکمت عملیوں کی وضاحت کرنےکی کوشش کرتےہیں لیکن صفین کی جنگ میں انہوں نےجنگ سےپہلےاوربعد کےواقعات پرزیادہ توجہ مرکوزکی #IslamiHistory
لیکن اسےدیکھتےہوئےکچھ عمومی سوالات پیدا ہوئے جس کوآج کی سیاسی صورتحال سےسمجھنے کی کوشش کی جائےگی
سب سےپہلےانہوں نےکہا کہ حضرت علی رض کی فوج مدینہ سےروانہ ہوئی،جوکہ میرےخیال میں درست نہیں۔ حضرت علی رض جنگ جمل کےبعدکبھی مدینہ واپس نہیں آئے۔پھرانہوں نےکہاکہ جنگ صفین کےبعد دونوں فریق
اپنےاپنےنمائندے کےذریعےمذاکرات پرآمادہ ہوئے۔
یہ بات سمجھ میں اتی ہےلیکن مذاکرات کس نکتہ پرہوئے؟مجھےیہ کبھی نہیں ملا۔جہاں تک میں جانتاہوں کہ حضرت امیرمعاویہ چاہتےتھےکہ حضرت عثمان کےقاتلوں کوفوری طورپرانصاف کےکٹہرےمیں لایاجائےاورحضرت علی اقتدارپرگرفت حاصل کرلینےتک موخرکرناچاہتےتھے
نبی کریم اورجادو
قرآن کریم کوالله نےفرقان کہاتواسکامطلب یہ تھاکہ مسلمان کسی بھی بات کوماننے سےپہلےاسکی تصدیق اس کتاب کےذریعہ کرلیں.جیسےاسلام پھیلا ویسے اسلام پرمختلف صورتوں میں حملےبھی بڑھتےرہےاور ان میں قرآن پرشکوک وشبھات کےساتھ نبی کی زندگی پربھی نقب لگایاگیا #QuranicRelfction
نبی کریم (ص) کی زندگی کو شان نزولوں اور دیگر روایات کی روشنی میں جو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں ایک روایت آپ (ص) پر ایک یہودی کے ذریعہ جادو کیے جانے کا بھی واقعہ گھڑا گیا. جس کا بنیادی مقصد نبی کریم (ص) کی ذات پر سوال اٹھانا اور قرآن کی عظمت کو گہنانے کے سوا کچھ نہیں
پہلےکچھ اس زمانے کےحالات سےآشنائی لےلیتےہیں.یہ واقعہ ٧ہجری کابیان کیاجاتاہے، اس وقت تک مکہ فتح نہیں ہواتھا. مسلمانوں سےمکہ والوں کی دشمنی عروج پرتھی.٣ جنگیں ہوچکی تھیں اور بدلہ لینےکی آگ بجھی نہیں تھی توایسےمیں اگرکوئی شخص جادو کرنےمیں کامیاب ہوگیاہوتاتومکہ والوں کاکیاردعمل ہوتا؟
سوره حجرات، شان نزول، میڈیاوار
سوره الحجرات قرآن کی بہت ہی چھوٹی، جامع اورایک عام مسلمان کی انفرادی اور ایک اسلامی معاشرے کےاجتماعی کردار کےلئےانتہائی اہم سورت ہے.لیکن قرآن کے ذریعہ میڈیا وار کرنے والوں نے اس سورت کو بھی نہیں بخشا. #QuranicReflections#Surah@realrazidada
سورت کاآغاز ہی مسلمانوں کویہ حکم دےکرہو رہاہےکہ الله اورنبی کریم کےاحکامات سےپیش قدمی نہ کرو اوراپنی آوازوں کو نبی کی آواز سےپست رکھوکہ کہیں تمھارےاعمال ضائع نہ ہوجائیں.آگےپھرسورت مسلمانوں کوسماجی بیماریوں سےمنع کر رہی ہےکہ ایک دوسرےکو برےناموں سےنہ پکارو. تجسس نہ کرو.غیبت نہ کرو
تو اس کی آیت ٦ میں ایک اہم بات ائی کہ اگر کوئی فاسق تمھارے پاس خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو. اب اس آیت کے ساتھ ایک واقعہ/شان نزول اکثر تفسیروں میں ملتا ہے جس کی رو سے حضرت ولید بن عقبہ کو فاسق قرار دیا جاتا ہے. ان میں سے کچھ تفسیروں کے حوالے دیکھے جا سکتے ہیں
سیریناعیسیٰ کاعمران خان کوکھلاخط
جب بھی میں کسی تکلیف میں ہوتی ہوں توآپ(عمران خان) کی طرف سےمجھ پر حملہ ہوتاہے.مئی ٢٠١٩میں جب میرےوالد کاآپریشن ہو رہاتھا اورمیری بیٹی کےہاں بچے کی پیدائش تھی تو اس وقت یہ کہاگیاکہ میرے پاس جتنی جائیدادیں ہیں وہ میرےشوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہیں
اوراس بنیاد کےاوپر ان پر ایک جھوٹا ریفرنس دائر کیاگیا. ٢٥ جون ٢٠٢٠ کوجب میرےوالد صاحب نےآخری سانسیں لیں تو مجھےایف بی آر کی طرف سے ٩نوٹسز بھیجے گئےمیں اپنے والد صاحب کے جانے کا غم بھی صحیح طرح نہیں منا سکی. مجھے حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ میرے گلے میں تھایروائید کی سرجری درکار ہے
جس کی وجہ سے میں کافی پریشان تھی اور میں نے سوچا کہ میں اسپین میں جا کر اپنے خرچے اس پر ایک دوسری رائے لی جائے. لیکن مجھے میڈیا سے معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ میں کچھ اور فائل کیا گیا ہے جو کہ مجھ سے چھپا کر رکھا گیا ہے، مجھے اس کی کاپی بھی نہیں مہیا کی گئی. لیکن
#قاضی_کامقدمہ
٢١ اپریل کےدلائل
حامدخان کےدلائل:١-سپریم کورٹ کےپاس کوئی آئینی اختیارنہیں کہ وہ ٹیکس حکام کےلئےکوئی ڈیڈلائن مقررکرےتحقیقات کرنےکی.لہٰذا یہ آئینی حددود سےتجاوزہے
انکم ٹیکس کاقانون کسی بھی عدالت کویہ اختیارنہیں دیتاکہ وہ کسی بھی ٹیکس دینےوالےکےلیےٹائم لائن مقررکرے+
٢-سپریم کورٹ نے صدر کے بھیجے ہوئے ریفرنس کو جب ختم اور کالعدم قرار دیا تو اس کے الزامات بھی ختم ہو گئے تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ختم ہو گیا تو پھر نئے سرے سے سپریم کورٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی بھی معاملے میں ہدایات دے
٣-جسٹس عمرعطا بندیال نےکہاکہ کیا اس کے سامنے کوئی کام رکھا بھی نہیں جا سکتا؟ حامد خان نے کہا کہ ائین کے آرٹیکل ٢٠٩ کے تحت نہیں رکھا جا سکتا اور اس ریفرنس اور ان الزامات پر مزید کوئی کاروائی کسی صورت نہیں ہو سکتی خاص طور پر جب صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا اور یہ غیر آئینی ہے.