The producers had agreed to pay me my usual fee, but several weeks into the
filming, they still hadn’t signed a formal contract. I complained, but they kept making excuses. I knew they were trying to wait me out; after they had enough footage, they’d say (1/8)
their financing had fallen through and that they couldn’t pay me what they’d promised. In situations like this, you can’t always simply walk off a movie. You might not be paid for the work you’ve already done, and a studio can tie you up in court for years (2/8)
while cranking out publicity blaming you for its larceny. But as noted earlier, once filming begins, actors gain an edge over producers, who don’t want to stop because if they do they’ll lose whatever money they’ve already spent and still have no picture. (3/8)
Producers also hate delays because it can cost over $100,000 a day to keep a crew on location. Actors can use these circumstances to their advantage when others try to cheat them, as my experience on The Missouri Breaks demonstrated. After the producers (4/8)
repeatedly broke promises to sign the contract, I started slurring my speech and blowing my lines. If your technique is effective, nobody can prove you’re doing it on purpose.
“I don’t know what’s wrong,” I told Arthur Penn. “I’m having a lot of
problems (5/8)
with this part. Be patient with me. I know I’ll get it right sooner or later.”
After a week or so, one of the producers flew to Montana and we had a big
scene in my trailer about the unsigned contract. I threw a can of Coke at him and it smashed against a (6/8)
wall a few inches from his head. I missed purposely, pretending to be outraged. He was a fastidious man who couldn’t stand a mess, and he immediately started wiping up the Coke, but when he finished he assured me that there had been a misunderstanding and that (7/8)
the contract would be signed shortly. It was, and suddenly I started remembering my lines again.
Marlon Brando
Songs My Mother Taught Me #brando
(8/8)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
میں نے رائیونڈ کے چار اجتماعات میں شرکت کی ہے، 2004 سے 2008 تک، اس زمانے میں پورے پاکستان کا ایک ہی اجتماع ہوتا تھا دو دو صوبے الگ نہیں ہوئے تھے. چار سال کے دوران میں نے کیا دیکھا، آپ بھی دیکھیے.
تبلیغی جماعت لوگوں کو اسلام کی طرف بلا تو رہی ہے لیکن خود تبلیغی جماعت (1/11)
کے پاس بھی اسلام نہیں ہے.
اجتماع کے تیسرے روز آپ کو ہر طرف افراتفری اور لوٹ کھسوٹ نظر آئے گی، پنڈال نسوار اور پان کی پیک سے بھرا ہو گا، آس پاس کے کھیتوں کو اگلے چھے مہینے کی کھاد مل چکی ہو گی، ہر طرف بدبو اور تعفن دھول اور مٹی، ایسے میں ہر کوئی گاڑی میں پہلے سوار ہو کر (2/11)
زیادہ سے زیادہ جگہ گھیرنا چاہتا ہے، لائن بنانے کا اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا تصور ہی نہیں ہے، بس کی گنجائش سے زیادہ لوگ چھت پر چڑھ جاتے ہیں.
موٹر وے پاکستان کی بہترین سڑک ہے لیکن اس روز موٹروے پولیس بھی کچھ نہیں کر سکتی، یہ اوور لوڈ بسیں موٹروے کا ٹریفک نظام درہم (3/11)
تبلیغی مذہبی قیادت ان میں سے کسی مسئلے پر زیادہ تفصیل سے اظہار خیال نہیں کرتی ۔ تبلیغی اجتماعات میں مسائل کا ذکر ایک اجمالی انداز سے اس طرح آتا ہے (1/20)
کہ معاشرہ کی حالت اچھی نہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ ہمارے عوام کی تکلیفیں دور کرے اور مسلمانوں کو دنیا میں سرفراز فرمائے ۔
تاہم عملی طور پر صرف ایک مسئلے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے لئے جیش اور لشکر تشکیل دیئے جاتے ہیں: یعنی تبلیغ دین اور دینی عقائد کی اصلاح ۔ (2/20)
اس کام کے لئے ملک بھر میں اور ساری دنیا میں سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ان جماعتوں کے مخلص پیروکار سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سے چھٹیاں لے کر، اپنے کام کاج ، خاندانی مسائل سے بے نیاز ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لانے کے لئے نکلتے ہیں۔
علماء نے اسلامی ریاست کو جمہوری شکل دینے کے لئے اس بات کی کوشش کی کہ جدید اصطلاحات کا استعمال کیا جائے، مثلاً پارلیمینٹ یا اسمبلی کو شوری کہا گیا، امیر آج کل کا صدر بن گیا ارباب حل و عقد مشیر ہو گئے اور اجماع کو عوامی رائے کا نام دے دیا گیا یہ سب اس لئے کیا گیا تا کہ (1/15)
یہ ثابت کیا جائے کہ ان کی نظروں میں جو اسلامی ریاست کا خاکہ ہے اس کا جدید سیاسی روایات سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ آج کل کی جدید قومی ریاست میں ایک قوم کی تشکیل زبان تاریخ اور جغرافیائی حدود میں رہنے پر ہوتی ہے، اور اس میں ہر شہری کو برابر کے حقوق ملتے ہیں، اور یہ اس کا حق (2/15)
ہوتا ہے کہ وہ ریاست اور معاشرہ کے امور میں مکمل طور پر حصہ لے۔ اس کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں برتا جاتا۔ اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے جسٹس منیر نے علماء سے اس سوال کو پوچھا کہ وہ اسلامی ریاست میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اور ان کا سیاسی و (3/15)
آج 22 اکتوبر ہے، جب قبائلیوں کو استعمال کر کے کشمیر پر یلغار کے ذریعے کشمیر کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔۔
میرا دادا بھی اس جیہاد نامی یلغار کا حصہ تھا بلکہ پانچ سو نوجوانوں کی سربراہی کر رہا تھا جو وہ پاکستان و افغانستان کے قبائل سے اکٹھے کر کے ساتھ لایا تھا۔۔
دادا (1/12)
جی کو کشمیر سے لوٹ مار کے علاوہ پاکستانی فوج کی طرف سے بھی مراعات ملی تھیں جن میں سیالکوٹ میں کچھ سو کنال زمین اور پاکستانی ڈومیسائل یعنی پاکستانی شہریت شامل تھے۔۔
جب کشمیر کے جیہاد کا اعلان ہوا تو میرا دادا اس وقت ضلع اٹک کے حسن ابدال شہر میں موجود تھا اور علماء، فوج (2/12)
اور حکومت کی طرف سے اعلانات اور پروپیگنڈہ سن کر پاکستانی اور افغان قبائل کی جانب نکل کھڑا ہوا، وہاں سے نوجوان اکٹھے کر کے پنڈی گیا اور وہاں سے پاکستانی فوج سے اسلحہ، بندوقیں وغیرہ، وصول کیں اور کشمیر کو نکل پڑے۔۔
دادا جی بتاتے تھے کہ ان کا جتھا اگلی صفوں میں تھا اور وہ (3/12)
ہم نے دولے شاہ کے چوہوں کی جو نسل تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور جس طرح بنیاد پرستی کی پنیری ہر سطح پر لگائی، اب اُس کی خالص ترین پیداواروں اور ثمرات سے سامنا ہے۔ آج سے بیس سال پہلے تک پھر بھی کچھ توازن تھا، اب تو سارا عمرانی
1/6
ڈھانچہ ہی عمرانی بن گیا ہے۔
ایک mob سائیکالوجی بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے کہ جو ہم سے مختلف ہے وہ غلط ہے، اور اُسے ہر طرح کی سزا دینا ہمارا فرض ہے۔ چونکہ ساری دنیا ہم سے مختلف ہے، لہٰذا اُسے ’’راہِ راست‘‘ پر لانا
2/6
ہمارا کام ہے۔ ہمیں غصہ آتا ہے کہ ہم جیسے نیک اور پاک اور سچے لوگ پیدا ہو چکے ہیں اور لوگوں کو اُس کی خبر تک نہیں! زیادہ تر لوگ اپنے اپنے آئین اور قانون لیے بیٹھے ہیں، جس پر وہ بات کرنے کو صرف تبھی تیار ہوتے ہیں جب اُنھیں درست مان لیا گیا ہے۔
اگر کوئی اختلافی یا تھوڑا بدلا
3/6
لیاقت بلوچ کے نام خط بیٹے کی کینیڈا سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد
بلوچ صاحب سلام
گذشتہ روز آپ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کے بارے میں خوشی کے مارے تین ٹویٹ کئے۔ آپ کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادی احمد جبران بلوچ صاحب نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔
1/12
ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ مبارک ہو۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھی بہت مبارک ہو۔ مغرب کی ایک اچھی جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنا ایک اعزاز کی بات ہے گو یہ اعزاز پاکستان کے صرف مراعات یافتہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کے لوگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے)۔
آپ کے بیٹے بارے
2/12
معلوم ہوا تو قاضی حسین احمد بھی یاد آئے۔ ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے عین اس وقت ڈگری لی جب جہاد کشمیر عروج پر تھا۔ لاہور میں جگہ جگہ جماعت اسلامی کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں نوجوانوں کو سری نگر شہادت کے لئے روانہ کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔