دوہزار پانچ کے زلزلے کے بعد دریائے نیلم کے کنارے ایک صاحب نے قصہ سُنایا تھا۔
فیصل آباد اور ساہیوال کے درمیان جانگلی کہلائے جانے والے علاقے میں واقع میرے گاوں کا ایک بابا ہے، ستر سال سے زیادہ کی عمر، لیکن کاٹھی بہت مضبوط ہے، بغیر لاٹھی کے بلا #دوہرہ_نظام_انصاف_نامنظور (1)
تھکان چلتا ہے۔ بینائی اور سماعت وغیرہ سبھی قابل رشک ہیں۔ نہایت اکھڑ مزاج مشہور ہے۔ ساری زندگی مشقت کرتے، روکھی سوکھی کھاتے اور دشمنیاں نبھاتے گزار دی تھی۔ بابے کا اکلوتا بیٹا بھی دشمنی میں جان کی بازی ہارا ہوا تھا۔ بابا اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک بیٹی ساتھ والے گھر ہی (2)
بیاہی ہوئی تھی۔ وہ بھی خیال رکھتی تھی۔ لیکن بابے کے دو بھینسیں پالی ہوئی تھیں۔ جن کا دودھ کی فروخت سے میاں بیوی کی گزر اوقات تھی۔
ہم نے زلزلہ متاثرین کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم میں اُس کے گھر کے دروازے پر بھی پہنچے۔ بابے نے پوری بات سُنی، متعدد سوال کیے۔ پھر اٹھ کر (3)
اندر چلا گیا۔
واپس آیا تو پندرہ سو نقد اور ایک عدد بھینس کے کٹے کو ہمارے حوالے کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں بابے کے حالات کا علم تھا، اس لیے صرف پانچسو روپے لینے پر آمادہ ہوئے۔ لیکن بابا ایک بھی سُننے کو تیار نہیں تھا۔ اکھڑ پن میں دو چار موٹی موٹی گالیاں بھی لُڑکائیں۔ خیر طویل (4)
"لڑائی جھگڑے" کے بعد ہمیں پندرہ سو پورا وصول کرنا پڑا۔ لیکن کٹا نہیں لیا۔
اگلے دن صبح ہم گاوں سے باہر سڑک کنارے کیمپ میں بیٹھے پلاننگ کر رہے تھے کہ بابا وہاں پہنچ گیا۔ بابے نے اپنی "دھوتی کی ڈب" سے چھ ہزار چار سو اور اسی روپے نکال کر گنے اور میز پر رکھ دیے۔ بابے نے بتایا کہ (5)
اُس نے چھ ہزار چار سو میں کٹا بھیچا ہے۔ جبکہ اسی روپے دو کلو دودھ کی قیمت ہے جو اُس نے روزانہ زلزلہ متاثرین کے لیے وقف کر دیا ہے۔ یہ وقم بھی ہمیں سینکڑوں گالیاں کھانے کے بعد بلآخر قبول کرنا پڑی۔
اس کے بعد یہ معمول بن گیا، بابا روزانہ صبح اسی روپے لا کر دیتا، پھر ہمارے (6)
ساتھ ہی عطیات جمع کرنے کے سفر پر روانہ ہو جاتا۔ ہم گاوں گاوں گھر گھر جاتے۔ کوئی ایک ہفتے بعد ایک روز ہم نے بابے سے درخواست کی کہ وہ آج کیمپ میں ڈیوٹی دے۔ بابا کہنے لگا پتر تمہیں معلوم ہے کہ میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا، چلا جتنا لو۔ میں بیٹھ نہیں سکوں گا۔ ہم نے اُس روز آرام (7)
کا مشورہ دیا تو بابے موٹی سی گالی آرام کو دے ڈالی۔ "وہاں لوگ بھوکے پیاسے سردی سے مر رہے ہیں اور میں یہاں آرام کروں تف ہے"
ہم در اصل اُس روز بابے کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے۔ اُس دن ہمارا پلان "لاشاری بلوچوں" کے گاوں جانے کا تھا۔ جن سے بابےکی پرانی دشمنی تھی، اسی دشمنی میں (8)
اس کا اکلوتا بیٹا بھی جان ہارا ہوا تھا۔ لاشاریوں کی طرف سے صلح کی کئی کوششیں ہو چکی تھیں لیکن بابا کسی کی نہیں سُنتا تھا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہمارا دشمنوں کے پاس جانے کا سُن کر بابے کو دکھ ہو۔
لیکن جب بابا کسی طور نہیں مانا، تو ہم نے اُس کو کھل کر بتا ہی دیا۔ بات سُن کر (9)
ایسا لگا کہ بابے کو سانپ سُونگھ گَیا۔ وہ کافی دیر تک بالکل خاموش رہا، ہم ٹکٹکی باندھ کر اُسے دیکھ رہے تھے۔ لیکن کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اُس کے چہرے پر ایک رنگ آ اور ایک رنگ جا رہا تھا۔
کافی دیر بعد بابا اٹھ کھڑا ہوا، ہم گالیاں کھانے کو تیار تھے۔ بابا بالکل پُر (10)
سکون آواز میں بولا۔ "لاشاریوں سے دشمنی میں میرا بیٹا تو مارا گیا۔ لیکن میں اپنی دشمنی میں اُس جان کو ہلاکت میں نہیں ڈالوں گا، جو بچائے جا سکتی ہے۔ آج کوئی دشمنی نہیں۔ چلو میں بھی تمارے ساتھ چلتا ہوں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جب یار لوگ مجھے کارپوریٹ ڈونیشن کی مجبوریاں (11)
سُناتے ہیں تو مجھے وہ بابا یاد آتا ہے، جس میں نام بھی نہیں جانتا۔ جس شخص نے یہ قصہ سُنایا تھا وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہا۔
مجھے وہ چند مٹھی بابرکت کھجوریں یاد آتی ہیں، جنہیں غزوہ تبوک کے موقعہ پر سونے اور چاندی کے ڈھیر پر بکھیرا گیا تھا۔
(12)
مادیت کے غلبے نے ہمیں اُس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہم اپنی اصل اور اپنا مقصد بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔
یہ ہوتا ہے انصاف۔۔
ملزم ایک 15 سالہ لڑکا تھا۔ ایک اسٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی۔ مزاحمت کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا۔
جج نے فرد ِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا "تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟"
"بریڈ اور پنیر کا پیکٹ" لڑکے نے (1)
اعتراف کرلیا۔
"کیوں؟"
"مجھے ضرورت تھی" لڑکے نے مختصر جواب دیا۔
"خرید لیتے"
"پیسے نہیں تھے"
"گھر والوں سے لے لیتے"
"گھر پر صرف ماں ہے۔ بیمار اور بے روزگار۔ بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی۔"
"تم کچھ کام نہیں کرتے؟"
"کرتا تھا ایک کار واش میں۔ ماں کی دیکھ بھال کے لئے (2)
ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔"
"تم کسی سے مدد مانگ لیتے"
"صبح سے مانگ رہا تھا۔ کسی نے ہیلپ نہیں کی"
جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کردیا۔
"چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے۔ اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ عدالت میں موجود ہر شخص، مجھ سمیت۔ اس (3)
روایات بتاتی ہیں کہ جن گھوڑوں سے امام حسین(ع)کے جسم کو پامال کیا گیا وہ عرب کے مشہور گھوڑے "آواجیاع" کے طور پر جانے جاتے تھے۔
ان کی خصوصیات دیگر اسٹالینز (ایک اعلیٰ نسل کے نر گھوڑے)سےبھی اعلیٰ تھیں۔
ایک محقق نے ان گھوڑوں پہ تحقیق کی تو اس (1) #محرم_1444 #حسين #Muharram #قربلا
کو ایک جرمن گھوڑوں کے ماہر کی کتاب "دنیا کے سب سے مضبوط اسٹالینز" ملی، جس میں لکھا تھاکہ: اسٹالینزکی ایک خاص نسل آواجیاع کے نام سے مشہور ہیں, اور ان کی خاصیت یہ ہے کہ ان کی ایک ٹاپ کا وزن 65 کلو گرام ہوتا ہے اور اس کا مقصد اس کے نیچے آنے والی چیز کوکچلنا اور پیسنا ہوتاہے"
(2)
جب کہ ایک اور تحقیق کے مطابق اس کھوڑے کی ایک ٹاپ کا وزن 125 کلو گرام ہوتا ہے۔
پھر راوی نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ابن سعد کی فوج کے ایک گھوڑ سوار نے بتایا کہ میں نے حسین کی پسلیوں کے چٹخنے اور ٹوٹنے کی آواز سنی کہ جس وقت وہ ہمارے گھوڑوں سے پامال کیے جارہے تھے۔
وہ لوگ جو ہم سے (3)
محترم سید منور حسن صاحب مرحوم کو MNA ھونے کی وجہ سے حکم ھوا کہ اپنے اثاثے Declare کریں، حکم دینے والے نے کہا کہ یہ قانونی مجبوری ھے، ایم این اے منور حسن نے کہا کہ قانون کا حکم سر آنکھوں پر، اور MNA (منور حسن) اپنے اور اپنی زوجہ محترمہ وہ بھی (1) #ForanFunding #یہودی_ایجنٹ_بےنقاب
MNA تھیں کے درجِ ذیل اثاثے Declare کر دیئے،
۔01- میرے پاس میری بیوی کے نام ایک سو گز
۔ (تین مرلہ) مکان کے علاوہ Asset نام کی
۔ کوئی چیز نہیں،
۔02- یہ مکان بھی میری بیوی کو وراثت میں
۔ ملا ھے،
۔03- حلال کی کمائی سے گھر تو دُور کی بات
۔ ھے گاڑی (2)
بھی نہیں خرید سکا،
۔04- جب جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی
۔ ذمےداری ھوتی ھے تو جماعت اسلامی کی
۔ گاڑی استعمال کرتا ھوں ورنہ ساری زندگی
۔ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتا رھا ھوں،
،05- اس کے علاوہ مجھ پہ کچھ قرض ضرور
۔ ھے جو اندازاً سترہ ہزار روپے ھے, ((3))
کوئی کتنا بھی بڑا چور ڈاکو لٹیرا ہو جب بات پاکستان کے ڈوبنے تک اے گی وہ پیچھے ہٹ جاۓ گا یہ کون لوگ ہیں جو ملک ڈیفالٹ کرنے کے قریب ہے 1 سیاسی پارٹی اپنا سب کچھ داؤ لگا چکی ملک بچانے کیلئے مگر وہ طاقتیں گندہ کھیل کھیلنے سے باز نہیں آ رہی مجھے شک ہو رہا ہے یہ کوئی قادیانی گروپ ہے(1)
جو بڑی محنت سے ہر ادارے میں کئی سال لگا کر فٹ کروایا گیا اب اس سے پاکستان تباہ کرنے کا کام لیا جا رہا ہے اچھا سوچنے والی بات یہ ہے نیازی کو اقتدار میں لا کر قادیانیوں کا سب سے بڑا خواب انڈیا سے پاکستان آسان داخلے کی راہداری کرتار پور کی شکل میں کھلوای گئی سی پیک بند کروایا گیا(2)
ملک کا بڑا بنک ای ایم ایف کے حوالے کر دیا ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا گیا معشیت تباہ کر دی گی مہنگائی آسمان تک پہنچا دی کشمیر انڈیا کے حوالے کر دیا ہر ادارہ تباہ کرنے کیبعد نیازی اپنے منہ سے کہنے لگ گیا کہ ہماری تیاری نہیں تھی ہمارا تجربہ نہیں تھا ہمیں حکومت نہیں لینی چاہے تھی (3)
پنجاب بڑی مہارت اور صفائی کیساتھ نون لیگ کا پتا صاف کر دیا گیا اپ اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں نوجوان نسل جو پاکستان کی کل آبادی کا 60% ہے اس کی ذہن سازی سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی کی گئی ہے کہ وہ نیازی کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں اپ کسی سکول میں چلے جائیں کسی (1)
کالج کسی یونیورسٹی چلے جائیں آپکو مینجمنٹ سے لیکر لیکچرار ٹیچر سٹوڈنٹ سب کے سب 99% سب یوتھئے ہی ملیں گے یہ پراپوگنڈہ سکول لیول سے سٹارٹ ہوتا ہے یونیورسٹی تک جاتا ہے پھر وہاں سے دولے شاہ کا چوہا تیار کر کے معاشرہ میں چھوڑ دیا جاتا ہے انمیں سے 10% باہر کسی ملک جاب کیلئے نکل (2)
جاتے ہیں 90% یہاں پاکستان میں بغیر دلیل بغیر ثبوت بغیر کسی لاجک کے جھوٹا پراپوگنڈہ معاشرے میں پھیلاتے ہیں اپ کسی بھی بڑی کمپنی کے ایسے ڈیپارٹمنٹ میں چلے جائیں جہاں ایجوکوٹیڈ سٹاف کام کر رہا ہو اپ کو اس پورے سٹاف میں شاید ہی کوئی 1 بندہ ایسا مل جاۓ جو نیازی کو سپورٹ نہ کرتا ہو (3)
مائیكل ہارٹ نے اپنى كتاب’’ سو عظيم شخصيات‘‘ كو لكھنے ميں 28 سال كا عرصہ لگايا ، اور جب اپنى تاليف كو مكمل كيا تو لندن ميں ايك تقريب رونمائى منعقد كى جس ميں اس نے اعلان كرنا تھا كہ تاريخ كى سب سے ’’عظيم شخصيت‘‘ كون ہے؟
جب وہ ڈائس پر آيا تو كثير تعداد نے سيٹيوں ، شور اور
(1)
احتجاج كے ذريعے اس كى بات كو كاٹنا چاہا، تا كہ وہ اپنى بات كو مكمل نہ كر سكے۔
پھر اس نے كہنا شروع كيا:
ايك آدمى چھوٹى سى بستى مكہ ميں كھڑے ہو كر لوگوں سے كہتا ہے ’’مَيں اللہ كا رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں‘‘ ميں اس ليے آيا ہوں تاكہ تمہارے اخلاق و عادات كو بہتر بنا
(2)
سكوں، تو اسکی اس بات پر صرف 4 لوگ ايمان لائے جن ميں اس كى بيوى، ايك دوست اور 2 بچےتھے۔
اب اس كو 1400 سو سال گزر چكے ہيں۔ مرورِ زمانہ كہ ساتھ ساتھ اب اس كے فالورز كى تعداد ڈيڑھ ارب سے تجاوز كر چكى ہے۔۔۔ اور ہر آنے والے دن ميں اس كے فالوروز ميں اضافہ ہورہا ہے۔ اور يہ
(3)