گیدڑ سنگهی دراصل گیدڑ کے سر میں نکلنے والا ایک دانا (پهوڑا ) ہوتا ہے جو کہ اسکے سر میں اپنی شاخیں پهیلاتا ہے اور ایک خاص حد تک بڑا ہونے کے بعد خود بخود جهڑ کر گر جاتا ہے گرنے کے بعد بهی یہ جاندار رہتا ہے ، (1) #FloodinPakistan #Faisalabad #Jalsa #صدقے_جاؤں #JhagraResign
اور اسے جادو ٹونے کرنے والے اٹها کر لے جاتے ہیں اور اپنے خاص مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں.
اسے سندور میں ہی رکها جاتا ہے ورنہ اسکی بڑهوتری ختم ہوجاتی ہے یہاں تک کہ یہ مر جاتا ہے ...کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ نر اور مادہ حالتوں میں ہوتا ہے ...
جادوگروں کے پاس شوہر یا محبوب یا (2)
سسرال والوں کو قابو کرنے کے خواہش مند خصوصاً محبت کا حصول چاہنے والے مرد و زن جب آتے ہیں تو انہیں ایک مخصوص رقم کے عوض یہ گیدڑ سنگهی دی جاتی ہے،گیدڑ سنگهی کی ہمیشہ جوڑی ( نر اور مادہ ) ایک ساتھ رکهی جاتی ہے ورنہ بقول ان بد عقیدہ لوگوں کے یہ کام نہیں کرتی اور بے کار ہوجاتی ہے.(3)
کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا
”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں(1)
رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی (2)
کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو
طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ،
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا..
اور کہا.
یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،
دونوں میں جب (3)
گھر کے باہر کوڑا رکھ دیں جمعدار نہیں اٹھاے گا منتهلی الگ سے پیسے لے گا جبکہ ماہانہ تنخواہ وہ سرکار سے گلی محلے کی صفائی کی ہی لیتا ہے آپکے سیورج لائن چوک ہو جاۓ بھنگی الگ سے پیسے لے گا جبکہ آپکے ماہانہ پانی کے بل میں سیورج کی فیس لگ کر آتی ہے۔ بجلی کا میٹر لگوانا ہو ایس ڈی اؤ (1)
کو جب تک 10/20 ہزار رشوت نہ لگاؤ میٹر نہیں لگے گا آپکے ساتھ کوئی واردات ہو جاۓ پولیس بغیر کسی سفارش یا رشوت کے ایف ای آر درج نہیں کرے گی ۔ سرکاری ہسپتال علاج اور سرکاری سکول میں تعلیم کا میعار سب جانتے ہیں عدالتوں میں انصاف طاقتور کی لونڈی بنا بیٹھا ہے کسی سیاسی جماعت کو ووٹ (2)
ڈالو الیکشن میں وہ کسی اور کے کھاتے میں چلا جاتا ہے ٹیکس عوام کی ب میں بازو ڈال کر لیتی ہے ریاست اور شہریوں کو بنیادی سہولیات تک نہیں فراہم کر سکتی سالانہ ٹیکس لگا کر جو بجٹ اکٹھا ہوتا ہے اسکا بڑا حصہ بدمعاش ادارہ گلے پر انگوٹھا رکھ کر لیجاتا ہے باقی بچ جانے والا پیسہ حکومت (3)
یہ ہوتا ہے انصاف۔۔
ملزم ایک 15 سالہ لڑکا تھا۔ ایک اسٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی۔ مزاحمت کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا۔
جج نے فرد ِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا "تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟"
"بریڈ اور پنیر کا پیکٹ" لڑکے نے (1)
اعتراف کرلیا۔
"کیوں؟"
"مجھے ضرورت تھی" لڑکے نے مختصر جواب دیا۔
"خرید لیتے"
"پیسے نہیں تھے"
"گھر والوں سے لے لیتے"
"گھر پر صرف ماں ہے۔ بیمار اور بے روزگار۔ بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی۔"
"تم کچھ کام نہیں کرتے؟"
"کرتا تھا ایک کار واش میں۔ ماں کی دیکھ بھال کے لئے (2)
ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔"
"تم کسی سے مدد مانگ لیتے"
"صبح سے مانگ رہا تھا۔ کسی نے ہیلپ نہیں کی"
جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کردیا۔
"چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے۔ اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ عدالت میں موجود ہر شخص، مجھ سمیت۔ اس (3)
دوہزار پانچ کے زلزلے کے بعد دریائے نیلم کے کنارے ایک صاحب نے قصہ سُنایا تھا۔
فیصل آباد اور ساہیوال کے درمیان جانگلی کہلائے جانے والے علاقے میں واقع میرے گاوں کا ایک بابا ہے، ستر سال سے زیادہ کی عمر، لیکن کاٹھی بہت مضبوط ہے، بغیر لاٹھی کے بلا #دوہرہ_نظام_انصاف_نامنظور (1)
تھکان چلتا ہے۔ بینائی اور سماعت وغیرہ سبھی قابل رشک ہیں۔ نہایت اکھڑ مزاج مشہور ہے۔ ساری زندگی مشقت کرتے، روکھی سوکھی کھاتے اور دشمنیاں نبھاتے گزار دی تھی۔ بابے کا اکلوتا بیٹا بھی دشمنی میں جان کی بازی ہارا ہوا تھا۔ بابا اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک بیٹی ساتھ والے گھر ہی (2)
بیاہی ہوئی تھی۔ وہ بھی خیال رکھتی تھی۔ لیکن بابے کے دو بھینسیں پالی ہوئی تھیں۔ جن کا دودھ کی فروخت سے میاں بیوی کی گزر اوقات تھی۔
ہم نے زلزلہ متاثرین کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم میں اُس کے گھر کے دروازے پر بھی پہنچے۔ بابے نے پوری بات سُنی، متعدد سوال کیے۔ پھر اٹھ کر (3)
روایات بتاتی ہیں کہ جن گھوڑوں سے امام حسین(ع)کے جسم کو پامال کیا گیا وہ عرب کے مشہور گھوڑے "آواجیاع" کے طور پر جانے جاتے تھے۔
ان کی خصوصیات دیگر اسٹالینز (ایک اعلیٰ نسل کے نر گھوڑے)سےبھی اعلیٰ تھیں۔
ایک محقق نے ان گھوڑوں پہ تحقیق کی تو اس (1) #محرم_1444 #حسين #Muharram #قربلا
کو ایک جرمن گھوڑوں کے ماہر کی کتاب "دنیا کے سب سے مضبوط اسٹالینز" ملی، جس میں لکھا تھاکہ: اسٹالینزکی ایک خاص نسل آواجیاع کے نام سے مشہور ہیں, اور ان کی خاصیت یہ ہے کہ ان کی ایک ٹاپ کا وزن 65 کلو گرام ہوتا ہے اور اس کا مقصد اس کے نیچے آنے والی چیز کوکچلنا اور پیسنا ہوتاہے"
(2)
جب کہ ایک اور تحقیق کے مطابق اس کھوڑے کی ایک ٹاپ کا وزن 125 کلو گرام ہوتا ہے۔
پھر راوی نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ابن سعد کی فوج کے ایک گھوڑ سوار نے بتایا کہ میں نے حسین کی پسلیوں کے چٹخنے اور ٹوٹنے کی آواز سنی کہ جس وقت وہ ہمارے گھوڑوں سے پامال کیے جارہے تھے۔
وہ لوگ جو ہم سے (3)