#کپتان_کی_بس_ایک_کال
قاسم سوری کی رولنگ آئی تو آدھی رات کو عدالت لگ گئی ۔ کہا بھی گیا کہ یہ اسپیکر کی ڈومین ہے لیکن عدلیہ نے اسپیکر کے اختیارات چھین لیے۔ نہ صرف رولنگ مسترد کی بلکہ اجلاس کس دن اور کتنے بجے بلانا ہے ، یہ بھی پہلی دفعہ عدالت سے حکم آیا @ImranKhanPTI
تحریک انصاف اپنے استعفے پیش کر چکی ہے لیکن امپورٹڈ سپیکر مسلط کرنے کے بعد ان کی منظوری کا حق اسے دیا گیا۔ ایک دن دنیا کے لمبر ون دماغ اپنے پچھواڑے جوڑ کر بیٹھے اور عمران خان کو سرپرائز دیتے ہوئے ایسے گیارہ حلقے چنے جہاں تحریک انصاف کی جیت کے چانس کم سے کم ہوں۔ پھر ان کے استعفے
سپیکر نے منظور کر لیے۔ یعنی اپنی مرضی سے بیچ میں گیارہ استعفے چن لیے لیکن اس پہ کوئی سو موٹو نہیں لیا گیا کیونکہ اب عدالت کو پتہ تھا کہ سپیکر کے اختیارات پہ سوموٹو نہیں لینا چاہیے ،
تحریک انصاف عدالت گئی کہ ایک ہی پروسیجر کے باجود باقی استعفے ری جیکٹ کر کے گیارہ کیسے منظور
کر لیے گئے ۔ یہ بدنیتی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس غیر قانونی طریقہ کار کو روکیں۔ یا تو سارے استعفے منظور ہوں یا کوئی بھی نہیں۔ عدالت نے کہا کہ سپیکر کے اختیارات میں تو ہم مداخلت ہی نہیں کر سکتے،
پھر عمران خان نے ان کے پچھواڑوں میں آگ لگاتے ہوئے خود نو حلقوں میں الیکشن لڑنے کا
اعلان کر دیا۔ اب سب کی پھٹنے لگی اور ایک دفعہ پھر سلائی مشین عدالت کے ہاتھ آئی۔ ایک ممبر نے اپنے استعفے کی منظوری پہ سوال اٹھایا تو اسی عدالت نے موقع غنیمت جانتے ہی سپیکر کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہوئے اس کے استعفے کی منظوری روک دی،
بعد میں اس کا جھوٹ پکڑا گیا اور
اسپیکر کو لکھا خط سامنے آ گیا تو باقی دس استعفوں کا کیس بھی سیم ہو گیا ۔ اب ایک دفعہ پھر اسپیکر کے اختیارات میں مداخلت کی گئی اور باقی دس کی منظوری بھی روک کر ضمنی الیکشن کے میدان سے ہی بھاگ گئے ،
یہ صرف ایک سپیکر کے اختیارات کا معاملہ ہے جو وفاق اور پنجاب میں بار بار تضاد کا
شکار ہوا ۔ باقی ایسے کئی معاملات ہیں جہاں یہ تماشا چلتا رہا ہے اور ابھی بھی چل رہا ہے۔ صدر پاکستان کا رجیم چینج آپریشن کی تحقیقات کا ریفرنس چار ماہ بعد آج بھی عدالت کی الماری میں پڑا ہے جبکہ عمران خان کے بیان پہ فوراً ایکشن لیا جاتا ہے ۔ ان چار ماہ میں آئین کے ساتھ جتنی فضلوتی
ججوں نے کی ہے ، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی لیے تو یہ کھوتی کے بچے دنیا میں انصاف کے معاملوں میں افریقہ کے پسے ہوئے ممالک سے بھی نیچے ہیں۔ اگر ان کھوتی کے بچوں کی بھی توہین ہوتی ہے تو پھر ابوجہل بھی قابل احترام ہے ۔ آئین شکنی کرنے والے آئین کے محافظ بنے ہوئے ہیں اور غداری کرنے
والے ملک کے محافظ بنے ہوئے ہیں اور توہین عدالت اور تضحیک کی بات بھی یہی کرتے ہیں۔ قوم اب سب کرداروں کو جان چکی ہے ۔ تمہاری توہین اور تضحیک کو اب کوئی اپنے کھبے ٹٹے پہ بھی نہیں لکھتا !!
کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ عمران خان جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا مطالبہ کریں گے۔
یہ ایک بڑا پتہ کھیلا گیا ہے۔ لفافے تو اب یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کریں گے کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ڈیل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے عمران خان نئے الیکشن تک جنرل باجوہ @ImranKhanPTI 💞
کی ایکسٹینشن کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن یہاں عمران خان نے بڑی پیاری چال چلی ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ رجیم نے جس بھی آرمی چیف کو منتخب کرنا ہے ، یقینا وہ باجوہ انکل سے کم تو نہیں ہوگا۔ لہذا الیکشن کسی بھی آرمی چیف کے ہوتے ہوئے ہوں ، پی ٹی آئی کےلیے تو یکساں ہے لیکن اس مطالبے
کے کچھ نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔
1 عمران خان نے اگلے آرمی چیف کی میرٹ پہ تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اختیار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بجائے اگلی منتخب حکومت کو ہونا چاہیے ۔ اب انھوں نے بڑے خوبصورت انداز میں حکومتی ٹولے کو یہاں گھیر لیا ہے اور یہ فیصلہ بھی اپنے
کیونکہ ن لیگ کی اصل لیڈر مریم بھاگ گئی۔
جب مریم کے بھاگنے کا ذکر ہوتا ہے تو بدخواہ بلاوجہ اس کا گیراج کو بیڈ روم تصور کرکے صفدر کے ساتھ ایئرپورٹ بھاگنے کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسکے ذاتی خانگی معاملات تھے گھر سے بھاگنا کوئی ایشو نہیں البتہ ملک اور حکومت سے بھاگنا
ایشو ہے۔
اب کیوں بھاگنا پڑ گیا ؟
کیونکہ حاجی اور زرداری چاہتے تھے کہ گوجرانوالہ کا جنرل عامر اگلا چیف بنے جو سینیارٹی میں پانچویں نمبر پہ ہے۔ لیکن وہ زداری کا دوست ہی نہیں بلکہ اومنی گروپ میں اس کا بزنس پارٹنر بھی ہے سو اگلے انتخابات میں مریم کی بجائے بلاول کو وزیراعظم بنوائے
#امپورٹڈ_حکومت_نامنظور
قوم کا پرچم کسی بھی قوم کی آن اور شان ہوتا ہے۔ یہ اس کی پہچان ہوتا ہے۔ قومی پرچم صرف قومی سوگ پہ علامتی طور پہ سرنگوں ہوتے ہیں لیکن اب دنیا یہ مناظر بھی دیکھے گی کہ اپنی آزادی کے ستر سالوں بعد ہزاروں کلومیٹر دور گوری @OfficialDGISPR @CMShehbaz
چمڑی کے غلام اب بھی اپنے آقاؤں کے گزر جانے پہ اپنے ملک کا قومی پرچم سرنگوں کرتے ہیں۔ کل ملک بھر میں یوم سوگ منایا جائے گا جس کا نوٹیفیکیشن وزیر اعظم پاکستان نے کابینہ میٹنگ کے بعد جاری کیا ہے۔ بھکاریوں نے پاکستانی پرچم کی توہین کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے زیادہ ذلت و پستی ہو
نہیں سکتی۔ یہ نہ صرف بائیس کروڑ عوام کی توہین ہے بلکہ ایک نسل پرست اور استعماریت کی علامت ایک ملکہ کی طبی موت پہ ایک آزاد ملک کا یوم سوگ منانا انسانیت کی توہین ہے۔
ملکہ برطانیہ کوئی انتظامی عہدہ نہیں بلکہ استعماریت اور نسل پرستی کی symbolic representation ہے۔ یہ قبضہ
بوڑھوں کے انٹرویوز کریں پڑھے لکھے لوگ انگریزی زبان میں اپنا پیغام ریکارڈ کروائے اور انہیں ٹویٹر اور فیسبک پر یو این اور دیگر عالمی اداروں کو ٹیگ کریں۔
یورپ اور امیریکہ میں رہنے والے لوگ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ آج شام کو عالمی اداروں کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے اور
وہاں کے پارلیمنٹس کو خطوط لکھیں، گلف میں رہنے والے اگر چہ براہ راست کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ کم از کم اپنے ریجن میں واقعہ پاکستان ایمبیسی کو خط ضرور لکھیں اور سوشل میڈیا پر اپنا کردار ادا کریں، عالمی اداروں کو خط لکھیں اور اس میں عدالت عظمی کے دیگر متنازعہ فیصلوں کا حوالہ دیں
رجیم چینج آپریشن کا آخری مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور اس مرحلے میں عمران خان کو مائنس کیا جانا ہے۔ تحریک انصاف کے تمام راہنماؤں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور انھیں کہا جا رہا ہے کہ @ImranKhanPTI
یہ آخری چانس ہے۔ مائنس ون کو مان لیا جائے تو تحریک انصاف کو قبول کر لیا جائے گا اور اگلے الیکشن میں جیت کی صورت میں اسے حکومت دے دی جائے گی۔ سب کو یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان کا مستقبل تاریک ہے لہذا جو بھی اس کے ساتھ کھڑا رہے گا وہ ختم ہو جائے گا لیکن تاریخ میں
پہلی دفعہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں اور طاقتور حلقے ہیں جبکہ دوسری جانب عمران سب طاقتور مافیا و اشرافیہ کے سامنے کھڑا ہے لیکن کوئی اس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا کیونکہ قوم کو اس پہ اندھا اعتماد ہے اور وہ جانتی ہے کہ اشرافیہ اپنے مفاد کےلیے اکٹھی ہو چکی ہے تو
کہا جاتا یے کہ گدھا شیر کو دیکھ لیں تو آنکھیں بند کرکے سمجھتا ہے شیر کو میں نظر نہیں آرہا اور اسی بیوقوفی میں وہ زندگی کی بازی ہار جاتا ہےکچھ یہی حال ہے جی ایچ کیو اور پڈم ٹولے میں موجود گدھوں کا بھی ہے جنہوں نے نو حلقوں میں سامنے شکست کو دیکھتے ہوئے #عمران_خان_ہماری_ریڈ_لاین_ہے
ملک بھر میں ہونے والے تمام ضمنی انتخابات کینسل کردئیے تاکہ ان کی بدمعاشی اور مینڈیٹ چرا کر ملک پر قابض ہونے کا بھونڈا نہ پھوٹے حالانکہ یہ بھونڈا کب کا اور کئی بار پھوٹ چکا ہے جس کی واضح مثالیں عمران خان کی لاکھوں افراد پر مشتمل جلسے جلوسوں کا انعقاد ہے، پچیس مئی کا تاریخی لانگ
مارچ ہے، سترہ جولائی کے پنجاب کے ضمنی انتخابات یا پھر وزارات عظمی چھن جانے کے باجود سوات، تیراہ اور کراچی سے یکطرفہ مقابلے میں جیتے گئے انتخابات ہے۔
جنرل ہیڈ کوارٹر اور پڈم کے گدھوں کو بخوبی علم تھا کہ اس انتخابات میں ہارنے کا مطلب کہ رہی سہی اخلاقی حیثیت جو کہ پہلے سے نہ ہونے