تم کیوں میرے حق میں
آواز اٹھاؤ گے؟
تمہارے شہر میں
تمہاری لاشیں نہیں ملتیں
میرے شہر میں
میرے گھر جلائے جاتے ہیں
میرے اپنے جلائے جاتے ہیں
میرے شہر میں
قیمت ہمارے سر کی لگاتے ہیں
میرے شہر میں
ہمارے اپنے مٹائے جاتے ہیں
سنا تم نے؟
"ہاں میں مہاجر ہوں"
میں ہندوستان سےہجرت کرکےپاکستان پہنچا تھا،اپنے وطن، پاک وطن،اس وطن کی خاطر میں نے اپنے آباؤ اجداد کی پرکھوں کی زمین کو چھوڑ دیا تھا جہاں مجھے بتایا گیا تھا کہ میں "آزادی" کے ساتھ اپنے وطن میں زندگی گزار سکوں گا لیکن افسوس صد
افسوس صد افسوس
ہم کہ ٹہرے اجنبی
اتنی مداراتوں کے بعد
مگر یہاں اس وطن پاک وطن میں میرے لئےکوئی جگہ نہیں تھی میں یہاں آکر جنگلوں میں بسایا گیا، مجھے پاکستان کے کسی شہر میں سر چھپانے کی جگہ نہیں دی گئی، میں ہندوستان سے چلا تو رستا کٹتا نہ تھا، پاؤں زخمی تھے
جگر لہولہان تھا چہرہ گرد آلود تھا
دماغ سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا بس ایک آس تھی ایک امید تھی کہ شاید میں زندہ اپنے پاک وطن کی سرزمین پر قدم رکھ کر سجدہ شکر بجالاؤنگا، میں دیکھ رہا تھا لوگ کٹے پھے لٹے مٹے، راستوں راہوں میں لاشوں کی صورت زمین پر بکھرےپڑے تھے
میری آنکھیں دھندھلا گئی تھیں میری أنکھوں سے آنسو رواں تھے میں خود ایک لٹے ہوئے بکھرے ہوئے خاندان کے ساتھ محو سفر تھا میرے دادا کے پانچ بھائی اس کاروان کاحصہ تھے مگر میرے دادا کے پانچوں بھائیوں کے خاندان میں کوئی جوڑا مکمل نہ تھا
کوئی گھر مکمل افراد کے ساتھ نہیں تھا میرے ساتھ کوئی فرد ایسا نہ تھا
جو مکمل خاندان کے ساتھ سفر کررہا ہو، کسی کا بیٹا بچھڑ گیا تھا کسی کی ماں مر گئی تھی کسی کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا کسی کے بھائی کا لاشہ ٹکڑے کردیا گیا تھا
تو کسی کی بہن کی عصمت کا سودا ہوگیا تھاچاروں جانب خون ہی خون تھا اوراگریہ کہاجائے کہ خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی توبیجا نہ ہوگا
لیکن پھربھی شوق سفرتھا کہ سارا غم ہم بھول بیٹھے تھے
مگر شوق سفر تھا کہ ہمیں اپنے پاک وطن پہنچنے کےعلاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا
گاڑی تھی کہ بس چلی جارہی تھی ہندو بلوائیوں کے حملے مسلسل ہر اسٹیشن پر ہورہے تھے گاڑی کے ڈبوں کو آگ لگائی جارہی تھی لیکن۔۔۔۔۔!!
انتظار تھا کہ۔۔۔
ختم نہیں ہورہا تھا
انتظار۔۔۔!!
پاک وطن کی سر زمین پر سجدہ شکر
ادا کرنے کا انتظار
انتظات تھا بس انتظار
طویل انتظار اس امید پر کہ
اپنے وطن پاک وطن کی زمیں پر سجدہ شکر بجالانے کا وہ لمحہ میری طلب کو بڑھائے جارہا تھا
میں بے چین تھا میرے ساتھ میرے اپنے بےچین تھے سوال تھا سب کے لبوں پر بس ایک۔۔۔!!
"پاکستان کب أئے گا؟"
"پاکستان کب آئے گا؟"
یہ سوال تھا جو لب زدعام تھا سب کو پاکستان پہنچنے کی جلدی تھی سب کو وطن پاک پہنچنا تھا پھرشاید ہم پاکستان کی حدود میں داخل ہوچکے تھے ہمیں نہیں معلوم تھا ہم کس راستے پر ہیں، کہا ناں کہ منزل کا نشاں معلوم نہ تھا، اپنا انجام معلوم نہ تھا
بس شوق سفر تھا
کہ ہم کارواں کی مانند رواں تھے
"کیا پاکستان آگیا؟"
اب یہ سوال سب کی زبان پر تھا لیکن ہمارے بڑے بوڑھے ہمیں ہر اسٹیشن پر یہی کہتے رہے نہیں بیٹا ابھی پاکستان نہیں آیا جب ف
گاڑی رکتی اسٹیشن آتا سب بیتابی سے ایک ہی سوال کرتے
"کیا پاکستان آگیا؟"
اورجواب یہی ملتا
"نہیں بچوں ابھی پاکستان نہیں آیا"
ایسا کیا تھا کہ سفر بہت طویل ہوگیا تھا وقت تھا کہ تھم ہی نہیں رہا تھا اب تو ہندو بلوائی بھی نظر نہیں آرہے تھے اب کوئی شور نہ تھا نہ آگ نہ دھواں نہ لاشوں کے ڈھیر تو یہ کونسی زمیں تھی؟ جہاں ہم پہنچ گئے تھے؟
"یہ کونسی زمیں تھی جہاں ہم پہنچ گئے تھے؟ ہمارے ننھے ذہن سوال کر رہے تھے اور جواب ڈھونڈ رہے تھے ہمارے بڑے جو ہر اسٹیشن پر باہر نکلتے دوروازے تک جاتے پھر واپس آجاتے پہلے پہل بہت خوشی خوشی ہر اسٹیشن پر اتررہے تھے پھر آہستہ آہستہ ہمارے بڑوں کے۔۔۔۔۔
کے قدم بوجھل اور أنکھیں نمناک سی تھیں وہ ہمیں مایوسی سے دیکھتے اور یہی جواب دیتے نہیں بیٹا ابھی اکستان بہت دور ہے پاکستان ابھی نہیں آیا آپ سب سو جاؤ اب ہم محفوظ ہیں اب ہمیں کوئی بھی نقصان نہیں ہوگا
جب پاکستان آئے گا ہم آپکو اٹھ دینگے
اور ہم سب پرسکون ہوکر سو گئے کارواں چلتا رہا اسٹیشن گزرتے رہے اندھیری رات صبح کے سویرے میں تبدیل ہوگئے لیکن ہمیں ہمارے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا تھا
"پاکستان ابھی تک نہیں آیا تھا"
اور پھر طویل کٹھن سفر گویا تمام ہوا ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی ہم نے کھڑکی سے باہر جھانکا جنگل بیابان ویران سنسان اسٹیشن تھا، ہمارے بڑے بزرگ گاڑی سے نیچے اترے اور دمکتے چہروں کے ساتھ واپس آئےاور ہمیں نوید دی کہ مبارک ہو پاکستان آگیا ہے
ہم پاک وطن پہنچ گئےہیں
یہ کیسا پاکستان تھا؟
جنگل ویران بیابان؟
نہ زمیں پر سبزہ نہ کھیت نہ پہاڑ نہ انسان نہ رونق؟
اس سے پہلے جو پرسکون اسٹیشنز گزرے وہ تو بہت پررونق تھے آباد تھے زندگی سے بھرپور تھے لوگ تھے کھیت تھے کھلیان تھے بڑے شہر تھے آباد تھے مگر یہ کیسا علاقہ تھا؟
ہمارے بزرگوں نے کہا
"یہی ہے ہمارا پاکستان"
یہی ہے ہماری پہچان
ہماری مٹی جس کے لئے ہم نے لاکھوں جانوں کا نزرانہ دیا
جسکی بنیادوں میں ہمارا لہو ہے
"یہی ہے وہ پاکستان"
اور ہم ہمارے خاندان والے اور ہمارے ساتھ آنے والے سینکڑوں ہزاروں لوگوں نے پاک سر زمین پر۔۔۔
سجدہ شکر ادا کیا
اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی
کہ ہم اپنے پاکستان پہنچ گئے ہیں
"ہمارا پاکستان"
اور پھر ہم مہاجروں نے ایک جنگل بیابان شہر کو اپنی محنت طاقت روپے پیسے تعلیم ہنر عقل و شعور کو استعمال کرتے ہوئے "شہر کراچی" بنا دیا
جو پاکستان کی شہہ رگ بن گیا
گویا پاکستان کا معاشی حب بن گیا
اور جس جنگل بیابان میں ہمیں آباد کیا گیا اسی شہر نے ناصرف خود کو پروان چڑھایا بلکہ اسی پاکستان کے صوبوں اور شہروں کو امداد دی 80٪ ریونیو دیا کہ وہ شہر جن سے ہم قیام پاکستان کے وقت گزرے تو وہ کہتے تھے آگے جاؤ
"آگے جاؤ یہ پاکستان نہیں ہے"
ان تمام "تعصبی" صوبوں شہروں نے ہمیں حقیرفقیر جان کر،ننگا بھوکا مان کر ہمیں زمیں نہ دی ہمیں آباد کرنےکی حامی نہ بھری اور ہمیں جنگل بیابان میں آباد کردیا گیا جہاں سندھ میں رہنے والے خود بھی رہنا پسند نہیں کرتے تھے ہمیں آباد کیا
پھر سب نے دیکھا کہ مہاجرین پاکستان کے ساتھ نام نہاد پاکستانیوں نے کیسا سلوک کیا، ریاست نے ہم پر کیا مظالم ڈھائے، ظلم جبر ذیادتی کے ذریعے کس طرح مہاجر قوم کی نسل کشی کی گئی آپ ہم سب جانتے ہیں
اور جب ہمیں ہمارے لیڈر قائد رہنماء کی صورت میں قائد تحریک جناب " الطاف حسین کی صورت میں ایک راہبر ملا تو انہیں گرانے مٹانے ستانے تڑپانے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی گویا مہاجر نام کو مٹانے کی کوشش کی گئی
ہم پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے
ہمارے نوجوانوں بھائیوں ساتھیوں کارکنان اور ہمدردوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے منفی پروپیگنڈہ کیا گیا کیونکہ اشرافیہ ریاست اسٹیبلشمنٹ، و تمام ادارے ہمیں سمندربرد کردینے کے خواب دیکھتے تھے۔۔۔
انہیں " مہاجر" کبھی گوارا نہیں ہوئے
انکی نفرت بڑھتی چلی گئی انہیں الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے نفرت تھی مہاجر سے نفرت تھی انہیں ہمیں ہمارے جائز حقوق دینا گوارا نہ تھا اس لئے قیام پاکستان سے آج تک ہم نفرت کی آندھی میں پل رہے ہیں آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔۔
ہمارا جرم کیا ہے؟
کیا مہاجر ہونا
ہمارا جرم ہے؟
کیا کراچی والا ہونا
ہمارا جرم ہے؟
پاک وطن کی طلب میں اپنی پرکھوں کی زمین جائیداد
مال متاع دولت
چھوڑ کر پاکستان آنا
ہمارا جرم ہے؟
لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینا
ہمارا جرم ہے؟
کیا زمیں کی بنیادوں کو
اپنے خون سے سینچنا
ہمارا جرم ہے؟
وطن کی طلب میں
حق پرچلنا
ہمارا جرم ہے؟
کیا الطاف حسین سے
محبت کرنا
ہمارا جرم ہے؟
کیا ایم کیو ایم سے
ہمارا تعلق ہونا
ہمارا جرم ہے؟
"ہمارا جرم کیا ہے؟"
کبھی ہمارے پیاروں کو
ماورائے عدالت قتل کرتے ہو
کبھی ہمارے اپنوں کو
مرگلہ کی پہاڑیوں میں
زندہ دفن کرتے ہو
کبھی کیٹی بندر میں
بہاتے ہو
کبھی جنگل بیابانوں میں
پھینک دیتے ہو
جلا دیتے ہو
مسخ کردیتے ہو
شناخت مٹا دیتے ہو
لیکن سوال تو
پھر وہی ہے
"ہمارا جرم کیا ہے"
ہم افف تک نہیں کرتے
پرامن احتجاج کرتےہیں
تم ہم پرگولیاں چلاتےہو
ہمارے قائد کا
گھر جلاتے ہو
ہم تم سے اپنا
حق مانگتے ہیں
تم ہمیں مٹادیتے ہو
ہم سے اتنے
نالاں کیوں ہو؟
بند کردو ظلم
بند کردو ہماری
نسل کشی کرنا
انصاف کرو
کہ کہیں دیر نہ ہوجائے
انصاف کرو
اس سے پہلے کہ
مکافات عمل ہوجائے
انصاف کرو
کیونکہ تم نے ہمیں
کاٹ دیا
دیوار سے
لگادیا
نام و نشاں مٹانے کی
ہرممکن کوشش کرلی
الطاف حسین سے
دور کرنے کا
ہر جتن کر لیا
لیکن سنو
مان لو تم
کہ تم جیت کر بھی
ہار گئے ہو
جنھیں تم لاش
سمجھ کر
پھینکتے ہو ناں
جنھیں تم دیوار سے
لگا رہے ہو
جنھیں تم ظلم سے
دبا رہے ہو
جنکا نام و نشاں
مٹا رہے ہو
وہ ہار کر بھی
جیت گئے ہیں
تم جیت کر بھی
ہار گئے ہو۔۔۔!!
"ماں لو تم ہار گئے ہو"
آج تم نے ہمارے دل
ہماری روح پر وار کیا ہے
مگر یاد رکھنا
بھول نہ جانا
الطاف ہمارے
دل میں رہتا ہے
جسے نہ تم
دل سے باہر نکال سکتے ہو
جسے نہ تم
ہم سے دور کرسکتے ہو
آج تم نفرت کی انتہاء کو پہنچ گئے قوم مہاجر کو آج سمجھ جانا چاہئے کہ پانی سر سے بلند ہو چکا ہے کیونک نائین زیرو صرف قائد تحریک جناب الطاف حسین بھائی کا گھر نہیں تھا بلکہ یہ گھر ہر اس یتیم بے سہارا کا " بیت سکون" تھا
جہاں عزت کے ساتھ اس چھت کے نیچھے بیٹھ کر سکون سے ہزاروں لوگ پیٹ بھر کے کھانا کھاتے تھے، اپنے مسائل حل کرواتے تھے، اپنے قائد کی آواز سننے اور انکا دیدار کرنے آتے تھے
کشمیر کا رونا رونے والے
کیا تم نے نہیں دیکھا
کہ پاکستان میں....!!
بنگالیوں کےساتھ کیا ہوا؟
کشمیرکا رونا رونے والے
کیا یہ بات جانتے ہیں؟
کہ انسانیت کے علمبردار
انسانیت کے دعویدار
کیا ہم نہیں جانتے؟
کیا ہم نہیں دیکھتے؟
کیا ہم نہیں سمجھتے؟
کہ کراچی سسک رہا ہے
مہاجر تڑپ رہا ہے
بلوچستان جل رہا ہے
بلوچ جھلس رہا ہے
مظلوم مر رہا ہے
ظالم اکڑ رہا ہے
اوراس عالم میں
انسانیت کاجنازہ نکل رہا ہے
وہ کونسا شہر تھا؟
شہر کراچی
کونسی قوم تھی؟
قوم مہاجر
تاریخ تھی
بائیس اگست
سال تھا دو ہزار سولہ
ایک بکاؤ ٹی وی چینل نے
اپنی عمارت کےشیشےتوڑ کر
حملہ ہونےکا ڈرامہ رچایا
اپنا چینل جبری طور بند کروانے کی دہائیاں دینا، اپنے ہی ہاتھوں اپنی املاک کو تباہ کرکے اسے ایک سیاسی جماعت سے نتھی کرنا اور آزادئ صحافت پر حملہ قرار دینا
تمہیں یاد ہے ناں؟
الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آج صبح 10 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا تاہم کچھ دیر کی تاخیر کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تین رکنی بینچ کا متفقہ فیصلہ سنایا۔