آج کل بریسٹ کینسر کی وباء عام ہے ۔ کسی عمر میں بھی ہوسکتا ہے لیکن اکثر 30 سال سے زائد عمر کی خواتین میں ہوتا ہے۔ چھاتی میں کینسر کی ابتداء ایک خاص قسم کے ابھار یا سخت گلٹی کی صورت ہوتی ہے۔ پہلے پہلے جلد کے اندر محسوس ہوتی ہے، پھر ظاہر جلد تک واضح ہو جاتی ہے۔👇
مرض کا احساس ابتدا میں نہیں ہوتا کیونکہ گلٹی میں درد نہیں ہوتا..محض ایک ابھار سا معلوم ھوتا ہے. جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس میں درد محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اور شدید درد ہوتا ہے حتی کہ اس سے سرخی مائل مواد بہتا ہے۔ بریسٹ کینسر میں
👇
رسولیوں کی وسعت بغل کے نیچے پیٹ کے نیچے نسوانی اعضاء تک جا پہنچتی ہے لیکن ٹیومرز کے اس پھیلاؤ میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
برسیٹ میں موجود ابھار یا گلٹی ضروری نہیں ہے کہ وہ کینسر کی ہو بلکہ عام طور پر سادہ گلٹی ہوتی ہے جو عام ادویہ سے ٹھیک ہو جاتی ہے .لیکن جب اس میں مواد متعفن
👇
ہو جائے تو یہ کینسر کی صورت اختیار کر لیتا ہے لہذا اس کا بر وقت صحیح علاج کرانا ضروری ہے۔ چھاتی میں مستقل درد واقعتا کسی اہم مرض کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ مثلا چھاتی میں ایک گلٹی یا کئی گلٹیاں ، چھاتی میں انفیکشن ، چھاتی کی ٹی بی ، چھاتی پر خارش، چھاتی کا کینسر وغیرہ ان
👇
امراض میں درد کی نوعیت مرض کے اعتبار سے ہوتی ہے. کسی میں زیادہ کسی میں کم ہوتی ہے۔
تشخیص کے بعد اگر گلٹی سادہ ہے تو اس کا جلد علاج کرایں اور اگر خبیث یعنی کینسر کی ہے تو فوری طور پر تمام مناسب تدابیر بروئے کار لا کر اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں اور مرض کے مکمل خاتمے تک
👇
پوری جدوجہد کر یں۔ اگر معالج کو شک ہوتو چھاتی کا خاص ایکسرے جسے میوگرافی (Mamography) کہتے ہیں، کروائے ۔ اس سے بیماری کی نوعیت سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے البتہ کینسر کاحکم لگانے سے پہلے بائیوپسی (Biopsy) ضرور کراۓ ۔
Copied #BreastCancerAwarenessMonth
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
فوجی چھاؤنی سے متصل کچی بستی سے گزرنے کا راستہ تھا۔ اس پر ایک دن ایک لفٹین صاحب چھاؤنی کی طرف جار ہے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ گوبر سے انسانی مجسمہ بنا رہا ہے۔ ازراہ تفنن لفٹین نے پوچھا "یہ کیا بنا رہے ہو"
بچے نے ایک نظر اٹھا کر لفٹین کی وردی پر ڈالی اور کہا
👇
"لفٹین بنا رہا ہوں"
لفٹین بیچارہ شرمندہ سا ہو گیا ۔ چھاؤنی پہنچا تو یونٹ کپتان کو قصہ سنایا۔ کپتان محظوظ ہوا، کہنے لگا، چلو اسے دیکھ کر آتے ہیں۔ دونوں پہنچے۔ بچہ اب بھی مجسمہ بنانے میں محو تھا
کپتان نے لفٹین کا مزید مذاق اڑانے کی نیت سے سوال دہرا دیا
" یہ کیا بنا رہے ہو"
👇
بچے نے نظریں اٹھائیں، ایک لحظہ توقف کیا اور بولا
"کپتان بنا رہا ہوں"
اب خفیف ہونے کی باری کپتان کی تھی
لفٹین بیچارہ کھل کر ہنس بھی نہ سکا۔خیر دونوں واپس پہنچے تو راستے میں میجر صاحب مل گئے۔ قصہ سنا تو کھلکھلا کر ہنس دیے۔ دونوں کو لیے پھر بچے کے پاس پہنچے سوال دہرایا گیا۔
👇
دو بھائیوں کو وراثت میں زمین ملی تھی اور وہ سالوں سے اُس پر اکٹھے کام کر رھے تھے ایک دن کسی معمولی بات پر دونوں کی تکرار ھو گئی اور بات اِتنی بڑھی کہ دونوں نے زمین کے بٹوارے کا فیصلہ کر لیا
ایک دن بڑے بھائی کے دروازے پر دستک ھوئی، دروازہ کھولا تو ایک مزدور کھڑا تھا
👇
مزدور کہنے لگا: "میں کئی دنوں سے کسی کام کی تلاش میں ھوں آپ کا دروازہ اس امید پر کھڑکایا ھے کہ شاید آپ کے گھر یا کھیت میں کوئی کام ھو جو میں انجام دے سکوں"
"اتفاقاً مجھے بھی کسی کاریگر کی تلاش تھی ھمارے کھیتوں کے بیچ میرے چھوٹے بھائی نے ایک نہر کھدوائی ھے میں چاھتا ھوں کہ تم
👇
ھماری زمینوں کے بیچ ایک دیوار بنا لو تاکہ میں آئندہ اُس کی شکل بھی نہ دیکھ سکوں"
کاریگر نے کہا کہ جیسا آپ چاھیں، اور اُس نے پیمائش شروع کر دی بڑا بھائی کہنے لگا؛ "میں قریبی قصبے جا رھا ھوں ایک کام سے، تمہیں اگر کام کے لئے کسی چیز کی ضرورت ھو تو کہو تاکہ میں ساتھ لے آؤں"
👇
ایک آدمی نے اخبار میں اشتہار دیا میں ڈائنوسار🦕🦖 مارنے میں ماہر ہوں. اور اس کو مار کر اس میں سے ایک ہیرا نکلتا ہے جو چھبیس کروڑ ڈالر کا بکتا ہے۔
جیسے سیکھنا ہو دو ہزار ڈالر فیس دے کر میرے کورس میں داخلہ لے لے۔
بہت سے چنو منو جمع ہو گئے۔ فیس دے کر بیٹھ گئے۔
استاد جی نے
👇
ڈائنوسار کو پکڑنے اور مارنے کے بہت اعلی اعلی طریقے اسکرین پر سکھائے۔ امتحان لیا اور جو ٹاپ اسٹوڈنٹس تھے ان کو سرٹیفیکیٹ بھی دیا۔
ایک ٹاپر اسٹوڈنٹ کورس کرنے کے بعد نکلا، پانچ برس تک ڈائنوسار ڈھونڈنے کے لیے جنگل جنگل دریا دریا پھرتا رہا۔
ڈائنوسار نہ ملنا تھا نہ ملا۔ بہرحال یہ
👇
ضرور پتا چل گیا کہ ڈائنوسار دنیا سے ختم ہو گئے ہیں۔
سب جمع پونجی لٹا کر خستہ حال لٹا پٹا واپس پہنچا تو استاذ جی کے گھر گیا۔ پوری رام کتھا سنائی اور بولا کہ جب ڈائنوسار ہیں ہی نہیں تو آپ نے مجھے مارنے کا طریقہ کیوں سکھایا؟؟ میں تو بھوکا مر رہا ہوں آپ کے دیے گیے علم سے پیسے
👇
ڈپریشن کو معمولی مت لیا کریں، تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شدید ڈپریشن آگے چل کر ذہنی حالت کو اس قدر بگاڑ دیتا ہے کہ انسان میں درد دینے اور درد سہنے کے صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے، ایسے ہی ایک ماں نے اپنے دو بچوں کو آگ لگا دی۔ انہیں زندہ جلتا دیکھ کر وہ سگریٹ پیتی رہی۔
👇
جب وہ نارمل ہوئی تو اسکے بچے جل کر مر چکے تھے۔ پھر جب اس طرح کے واقعے ہو جاتے ہیں تو ہم بڑی بڑی فلاسفی جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں کہ ماں ہے یا فرعون، ایسا کیسے کر گئی؟
تو خدارا لوگوں کو خوش رہنے دیں۔ کسی کی ذہنی بربادی کا سبب مت بنیں۔ کوئی ناچ رہا ہے، اسے ناچنے دیں۔ کسی کی شکل
👇
اچھی نہیں لگ رہی تو دفع ہو جائیں اپنی پیاری شکل سمیت۔کسی کی آواز بھدی لگ رہی ہے تو کانوں میں ایلفی ڈال لیں مگر اسکی زندگی میں دخل اندازی کرنا بند کر دیں۔ کوئی آپ کے ساتھ مخلص ہے تو اس کو بدلے میں اتنی توجہ اتنا پیار دیں جتنا وہ آپکو دے رہا ہے۔ اپنے آس پاس کسی کو ڈپریس پائیں
👇
اٹھائیس سالہ ایم فِل سوشیالوجی کی طالبہ نازیہ* نے نہاتے ہوئے محسوس کیا کہ چھاتی میں ایک اُبھار سا بنا ہوا ہے۔ ہاتھ لگانے پر کچھ گُھٹلی جیسا احساس ہوتا تھا۔ لیکن کوئی خاص درد تکلیف وغیرہ نہ تھی۔ اس نے سوچا والدہ سے ڈسکس کر لے گی۔ چند ہفتے یونہی بےدھیانی میں یاد نہ رہا۔
👇
ایک دن دوبارہ نہاتے ہوئے اس طرف دھیان گیا تو ماں سے اس بارے مشورہ کر ہی لیا۔ ماں نے کہا کوئی درد یا تکلیف ہے تو دکھا لیتے ہیں ڈاکٹر کو، ساتھ مشورہ دیا کہ زیادہ مسئلہ نہیں لگ رہا تو پیاز باندھ لو اور ساتھ وظیفہ پڑھ لو یہ آپ ہی “گُھل” جائے گی۔ چند ہفتے وظیفہ پڑھا، اور پیاز بھی
👇
باندھا اور ساتھ ساتھ زیتون کے تیل سے ہلکے ہاتھ مالش بھی کی۔ گویا نازیہ نے نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو یقین دلا دیا کہ ٹوٹکوں سے ابھار کا سائز کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ ابھار اپنی جگہ موجود رہا۔ خاموش۔ کسی تکلیف یا درد کے بغیر۔ جیسے طوفان سے پہلے سمندر ہوتا ہے۔
شہریار خان کے مضمون سوہنی، ہیر اور لیلیٰ کی جھوٹی محبت
سے سوہنی مہینوال کی محبت کا پوسٹ مارٹم
معلوم نہیں کیوں لیکن یہ پیار، عشق اور محبت کی کہانیاں بہت مشہور ہو جاتی ہیں اور لوگ ان کو مزے لے لے کر سنتے بھی ہیں اور سناتے بھی
اگر ان سب قصوں کو بغور پڑھیں تو پتا چلے گا کہ یہ
👇
سب جھوٹ ہے
مثلاً اگر سوہنی مہینوال کی محبت کی کہانی دیکھئے تو پتا چلتا ہے کہ جس نے بھی یہ کہانی گھڑی ہے انتہائی سستی فلمیں دیکھتا رہا ہو گا
یہ کوئی بات ہے کہ سوہنی ملنے کے لیے آئے تو اسے اپنی ران کے گوشت کا کباب بنا کر کھلایا
کچھ لوگوں کو یہ مذاق لگے گا لیکن کہانی میں یہی
👇
لکھا ہے کہ سوہنی اپنے محبوب سے ملنے کے لیے اس کے گھر آئی، اور مہینوال کے حالات جانتے ہوئے بھی اس سے کبابوں کی فرمائش کی چونکہ اس کے پاس کچھ کھلانے کو نہیں تھا تو اس نے یہ بات چھپانے کے لیے اپنی ہی ران کا گوشت کاٹا اور اس کے کباب بنا دیئے اور سوہنی نے بھی بہت چسکے لے کر وہ
👇