ایک بزرگ کولیگ سے ان کے آفس میں ایک کام کے سلسلے میں ملاقات ہوئی۔ کام مکمل ہونے کے بعد کہنے لگے کہ مجھے ایک مشورہ دیں
میری ایک قریبی رشتہ دار کی شادی تقریباً چھ سال پہلے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد اس نے جاب کی خواہش کی تو شوہر نے تھوڑی پس و پیش کے بعد اجازت دے دی۔ گھر میں
👇
اس کی نندیں اور ساس موجود تھی اس لیے گھر کے کاموں کا بھی کچھ زیادہ مسئلہ نہیں تھا۔ بچے ہوئے تو تب بھی اس نے کچھ وقت کے لیے چھٹی لی مگر جاب جاری رکھی۔اس کے شوہر نے اس سے جاب والے پیسوں کا کبھی نہیں پوچھا اور اس نے بھی کبھی گھر کے خرچ یا کسی بھی دوسری ضرورت کے لیے شوہر کو خود سے
👇
بھی کبھی نہیں دیے۔اپنے پیسوں سے اس نے سیونگ کیں، پلاٹ وغیرہ لیے
اپنے خرچ کے لیے بھی وہ شوہر سے لیتی ہے پچھلے سال اس کی دونوں نندوں کی شادی ہو گئی ہے۔ ساس کی عمر بھی تھوڑی زیادہ ہوئی ہے تو اس کے شوہر نے اسے جاب چھوڑ کر گھر سنبھالنے کا کہا۔ اس نے جاب چھوڑنے سے انکار کر دیا
👇
اور شوہر سے کہا کہ کام کاج کے لیے کوئی کام والی رکھیں۔ گھر کی صفائی کے لیے الگ ، برتن اور کپڑے استری کرنے کے لیے الگ کام والی رکھ لیں۔ اب مہنگائی زیادہ ہوئی تو شوہر نے اس سے کہا کہ وہ اپنی تنخواہ سے گھر کے اخراجات میں حصہ ملائے۔ لیکن وہ کسی بھی طرح سے اس پر راضی نہیں ہوئی
👇
اس کا کہنا ہے کہ یہ میری کمائی ہے اور اس پر صرف میرا حق ہے۔ شوہر نے یہ کہا کہ کم سے کم اپنا خرچہ ہی خود اٹھا لو اور جو کام والی رکھی ہیں ان کی تنخواہیں بھی آپ دیا کرو کیونکہ گھر سنبھالنا آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ کے جاب کی وجہ سے ہی انھیں رکھا ہے لیکن وہ اس پر بھی راضی نہیں
👇
کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ میں اور میرے بچے آپ کی ہی ذمہ داری ہیں اس لیے یہ اخراجات آپ کی تنخواہ سے پورے ہونے چاہیے۔ میری تنخواہ پر آپ کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے بعد شوہر کا کہنا ہے کہ پھر جاب چھوڑ دو اور گھر سنبھالو۔ اسی بات پر لڑائی بہت طول پکڑ چکی ہے اور خدانخواستہ یہ گھر
👇
ٹوٹ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مشورہ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا کہ بزرگو! آپ کو اچھے سے معلوم ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی آج کل کی عورت کو مغربی معاشرے والے بھی سارے حقوق چاہیے ہیں اور اسلامی معاشرے والے بھی۔ لیکن فرائض کی بات آئے تو پھر کوئی بھی
👇
پورے نہیں کرنے۔ اسی دوغلی پالیسی کی وجہ سے معاشرے میں طلاق و خلع کی شرح بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔بات سادہ سی ہے کہ جس بھی نظام کو اپنانا ہے پورا اپنائیں۔شادی میں مرد و عورت مل کر ایک خاندان بناتے ہیں جہاں مرد کے کچھ حقوق و فرائض ہیں وہاں عورت کے بھی حقوق کے ساتھ ساتھ کچھ فرائض بھی
👇
ہیں
اب اس معاملے میں اگر اسلامی لحاظ سے بات کی جائے تو مرد کو قوام بنایا گیاہے اور معاشی طور پر مکمل ذمہ داری مرد پر ہے۔ کما کر لانا اس پر فرض ہے۔ جبکہ گھر کا سارا نظام اور شوہر کی اطاعت عورت کے ذمہ ہے۔ اس نظام کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مرد کہے کے جاب چھوڑ کو گھر کا نظام
👇
سنبھالو تو یہ عورت پر لازم ہو جاتا ہے۔
اگر مغربی نظام کو لینا ہے تو اس میں معاشی ذمہ داری مرد و عورت دونوں پر ہے۔ اس لیے مرد بھی جاب کرتا ہے اور عورت بھی۔ فرانس میں نو سال کے دوران اچھے سے دیکھا ہے کہ وہاں سب چیزوں میں مرد وعورت آدھا آدھا حصہ ملاتے ہیں۔ مکان کا کرایہ،
👇
گھر کے لیے کھانے پینے یا کسی بھی سامان کی خریداری وغیرہ سب میں دونوں آدھا آدھا دیتے ہیں۔ اپنی ضرورت کی اشیاء جیسا کہ کپڑے ، سگریٹ وغیرہ اپنے اپنے پیسوں سے لیتے ہیں۔ کہیں باہر ہوٹل میں جائیں یا کسی ریسٹورنٹ میں بل آدھا آدھا ہوتا ہے۔ اس نظام کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جتنا شوہر
👇
کما کر لا رہا ہے اتنا ہی بیوی کو بھی کما کر لانا ہے۔ ساس کی ویسے تو ذمہ داری اس عورت پر نہیں ہے لیکن ساس پر پھر اس کے بچے سنبھالنے بھی فرض نہیں ہیں اور گھر کے کام کاج اور کام والیوں کی نگرانی بھی فرض نہیں ہے۔
اب اس کیس میں آپ کی رشتہ دار خاتون دونوں میں سے کسی ایک نظام کو
👇
اپنا لے تو یہ لڑائی ختم ہو سکتی ہے۔ لیکن لڑائی اس وجہ سے ہے کہ ایک نظام سے اس نے مرد کے قوام ہونے والا اپنا حق لے لیا ہے اور دوسرے نظام سے اپنی آزادی والا حق۔ لیکن پہلے نظام سے شوہر کی اطاعت اور گھر سنبھالنے والے فرائض سے منہ موڑ لیا ہے اور دوسرے نظام میں برابری کی آزادی
👇
ساتھ معاشی برابری کا فرض چھوڑ دیا ہے۔
اب اگر وہ کسی بھی نظام کے لحاظ سے اپنے حقوق تو لیتی ہے مگر فرائض پورے نہیں کرتی تو کوئی بھی مرد اسے کیونکر رکھے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عدنان خان نیازی #ازدواجیات #موناسکندر
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
نئی خوبصورت، طرحدار اور جواں سال پڑوسن محلے میں آباد ہوئی تھی۔ تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ شوہر شکل ہی سے خرانٹ اور بدمزاج لگتا تھا۔ پڑوسن کی صورت دیکھ کر ہی محلے کے مردوں کی تمام تر ہمدردیاں خاتون کے ساتھ ہوگئیں۔
خاتون نے آہستہ آہستہ محلے کے گھروں میں آنا جانا شروع کیا۔
👇
شیخ صاحب اور مرزا صاحب کو اپنی اپنی بیگمات کے توسط سے پتا چلا کہ نئی پڑوسن کا شوہر تند خو اور شکی ہے۔ خاتون شوہر سے کافی ڈرتی ہیں۔ یہ سنتے ہی دونوں مرد حضرات کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں دل ہی دل میں شکوہ کر لیا کہ یا اللہ کیسے کیسے ہیرے ناقدروں کو دے دیئے ہیں
ایک دن نئی
👇
خوبصورت پڑوسن سبزی والے کی دکان پر شیخ صاحب کو ملی۔ خود ہی آگے بڑھ کر سلام کیا۔ شیخ صاحب کو اپنی قسمت پر ناز ہوا۔ خاتون نے کہا کہ شیخ صاحب برا نہ مانیں تو آپ سے کچھ مشورہ درکار ہے۔ شیخ صاحب خوشی سے باولے سے ہوگئے۔ خاتون نے عام گھریلو عورتوں کی طرح بھائی صاحب کہنے کے بجائے
👇
منگول شہزادی کوتلون چودہ بھائیوں کی اکلوتی بہن اور ایک شاندار جنگجو لڑکی تھی. اپنے دور کے فن جنگ کے ہر شعبے میں مہارت رکھتی تھی. چاہے وہ گھڑ سواری ہو تیر اندازی ہو دو بدو جنگ ہو یا نیزہ بازی کوتلون کا کوئی ثانی نہیں تھا.
کوتلون کی ایک شرط تھی. وہ کہتی تھی شادی اسی سے کرے گی
👇
جو اسے کشتی میں ہرا دے گا. لیکن اگر کشتی لڑنے والا ہار جائے تو اسے کوتلون کو ایک گھوڑا دینا ہوگا. کوتلون کے پاس دس ہزار گھوڑے جمع ہوگئے تھے لیکن اس کی شادی نہیں ہوئی.
اس میں ایک ایسا بہادر بھی تھا جس نے ایک ہزار گھوڑے کوتلون سے لڑ کر ہارے تھے. لیکن وہ کوتلون کو جیت نہ سکا
👇
لیکن ایک دن کوتلون ہار گئی. اس نے شادی کر لی تھی. بغیر کشتی بغیر لڑے کوتلون کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جس سے کوتلون لڑنا ہی نہیں چاہتی تھی. کیونکہ اسے اُس سے محبت ہوگئی تھی. وہ اپنا دل ہار بیٹھی تھی.
احساسات کے میدان میں عورت وہ جنگجو ہے جس سے لڑ کر جیتنا بہت مشکل ہے.
👇
ریاضى میں کمزور دو دوست انٹرویو کیلئے تیار بیٹھے تھے،
پہلے کا نمبر آیا تو وه اندر داخل ہُوا
آفیسر: آپ ٹرین سے سفر کر رہے ہوں اور اچانک آپ کو گرمى لگے تو کیا کرو گے؟
امیدوار: میں کھڑکى کھول دُوں گا۔
آفیسر : بہت خُوب، اَب بتاؤ کہ اگر وه کھڑکى 1.5 اسکوئر میٹر ہے اور
👇
ڈبے کا رقبہ 12x90 فٹ ہے اور ٹرین 80 کلومیٹر فى گھنٹہ کى رفتار سے جنوب کى طرف جا رہى ہو اور ہوا جنوب سے 5 میل فى سیکنڈ کی رفتار سے ڈبے میں داخل ہو رہى ہو تو پُورا ڈبه ٹھنڈا ہونے میں کتنا وقت درکار ہو گا؟
امیدوار نے کوشش کى مگر جواب نہ دے سکا اور وه فیل ہو گیا۔
باہر آ کر
👇
اُس نے وہ سوال اپنے دوست کو بتایا
اب اس کى بارى آئی
آفیسر : آپ ٹرین میں سفرکر رہے ہوں، اچانک آپ کو گرمى لگے تو کیا کرو گے؟
امیدوار : میں اپنا کوٹ اُتار دُوں گا
آفیسر : پھر بھى آپ کو گرمى لگے تو کیا کرو گے؟
ایک بادشاہ نے رعایا میں اعلان کیا کہ جو مرد اپنی بیوی کی مانتا ہے وہ آئے اور انڈا لے کر جائے اور جو نہیں مانتا وہ آئے اور گھوڑا لیکر جائے۔لوگ آنا شروع ہوگئے۔ مگر بادشاہ محوحیرت تھا کہ جو آرہا ہے وہ صرف انڈا لے کر جا رہا ہے۔
کافی دیر بعد ایک شخص آکر بولا بادشاہ سلامت
👇
میں اپنی بیوی کی نہیں مانتا، آپ مجھے گھوڑا عنایت کریں۔بادشاہ بہت خوش ہوا، اسے اپنے پاس بلایا، پیٹھ تھپتھپائی اور کہا جا اور شاہی اصطبل میں جو گھوڑا پسند آئے، گھر لے جا۔
وہ بندہ سینہ تان کر آگے بڑھا ایک لال گھوڑا کھولا اور اپنے گھر کی طرف فخر سے چل دیا۔
بادشاہ سلامت بھی بڑی
👇
حسرت اور رشک بھری نظروں سے اس کو تکتے رہے۔
اگلے دن وہ بندہ گھوڑا لےکر بادشاہ کے پاس واپس آیا بادشاہ نے وجہ پوچھی کیوں واپس آئے ہو، کیا گھوڑا پسند نہیں آیا۔
جواب ملا
بادشاہ سلامت گھوڑا تو ماشاء اللہ بہت عمدہ ہے، اور مجھے پسند بھی آیا تھا، پرمیری بیوی بول رہی ہے کہ
👇
حضرت امیہ بن الاشکر کنعانی آنکھوں سے معذور تھے، ان کا ایک ہی بیٹا کلاب نامی تھا جو نابینا باپ کی بے حد خدمت کرتا تھا۔ اسے ایک دفعہ جہاد کا شوق ہوا اور فورا فوج میں شامل ہو کر عراق چلا گیا۔ نابینا باپ خدمت گزار اور فرمانبردار بیٹے کی چلے جانے سے بہت معذور ہوگیا۔
اس کی خدمت
👇
کے لیے کوئی نہ رہا، ناچار امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اپنی تکلیف اور مصیبت کا حال بیان کرکے خلیفہ وقت سے التجا کی کہ کلاب کو واپس بلوا دیجئے۔ بیٹے کے فراق میں جو اشعار باپ نےکہے تھے وہ بھی سنائے جہنیں سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے حد
👇
متاثر ہوئے اور سپہ سالار اسلام کو حکم بھیجا کہ فورا کلاب کو واپس بھیج دو۔
جب کلاب واپس آیا تو سیدھا مسجد نبوی میں حضرت امیرالمومنین کی خدمت میںپہنچا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا
کلاب، تم اپنے باپ کی ایسی کیا خدمت کرتے تھے کہ وہ تمھارے لیے بہت ہی بے چین اور بے قرار ہے؟
👇
ایک عرب نوجوان کا کہنا ہے کہ
ان دنوں جب میں ھالینڈ میں رہ رہا تھا تو ایک دن جلدی میں ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کر بیٹھا۔ بتی لال تھی اور سگنل کے آس پاس کوئی نہیں تھا، میں نے بھی بریک لگانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور سیدھا نکل گیا۔ چند دن کے بعد میرے گھر پر ڈاک کے ذریعے سے اس
👇
خلاف ورزی "وائلیشن" کا ٹکٹ پہنچ گیا۔ جو اُس زمانے میں بھی 150 یورو کے برابر تھا
ٹکٹ کے ساتھ لف خط میں خلاف ورزی کی تاریخ اور جگہ کا نام دیا گیا تھا، اس خلاف ورزی کے بارے میں چند سوالات پوچھے گئے تھے، ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں؟
👇
میں نے بلا توقف جواب لکھ بھیجا: جی ہاں، مجھے اعتراض ہے۔ کیونکہ میں اس سڑک سے گزرا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے اس خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے
میں نے یہ جان بوجھ کر لکھا تھا اور یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اس سے آگے میرے ساتھ کیا کرتے ہیں؟