چینل فائیو کی رپورٹر صدف نعیم کے افسوسناک حادثے کی خبر ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
حادثے سے چند لمحات پہلے کی ویڈیو ہے جس میں خاتون رپورٹر کنٹینر کے پیچھے بھاگتی دیکھی جاسکتی ہیں۔
رات کے وقت، سڑک پر کنٹینر کے پیچھے بھاگتے ہوئے۔
کیوں؟
وجہ؟
وجہ یہ کہ اپنے چینل کے لیے لمحہ بہ لمحہ
رپورٹنگ کی جائے۔ اگر ممکن ہوسکے تو کسی بڑے سیاسی لیڈر کے انٹرویو کا موقع مل سکے، کوئی ایسی بریکنگ نیوز مل سکے جو دوسرے چینلز تک نہ پہنچی ہو، چیختی چنگھاڑتی ہنگامی خبر اور رپورٹنگ۔
کیوں؟
مسابقت کی دوڑ تاکہ چینل کی ریٹنگ بہتر ہو۔
پھر کیا ہوگا؟
لوگ زیادہ دیکھیں گے۔
پھر کیا ہوگا؟
👇
اشتہارات، پروگرام زیادہ ملیں گے
پھر؟
چینل کے مالک کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوگا
یعنی صدف نعیم کی دوڑ درپردہ، سرمایہ دار کے لیے دولت میں مزید اضافے کی دوڑ تھی
پھر وہ خبر ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود خبر بن گئی
بریکنگ نیوز کی تلاش میں خود بریکنگ نیوز بن گئی
سرمایہ دار کا تو اب بھی فائدہ
👇
ہوگیا
کیونکہ کل سے ہر طرف چینل کے نام کی بازگشت ہے
لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ
صدف نعیم، اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کی بھینٹ چڑھ گئی
مختلف جگہوں پر مختلف عمر بتائی جارہی ہے
لیکن غالب امکان یہی لگ رہا ہے کہ چالیس سال یا چالیس سے اوپر عمر تھی۔
دو بچوں کی ماں تھی۔
👇
کیوں ہمیں خوشنما خواب دکھاتے ہوئے اس ظالمانہ نظام کے مہرے بنا دیا گیا ؟
کیا صدف نعیم یا کسی بھی خاتون کے لیے یہ منصفانہ طرز ہے کہ وہ خبر کی تلاش میں سڑک پر اندھیرے میں یوں دیوانہ وار بھاگے اور پھر کسی حادثے کا شکار ہوجائے؟
یہ کیسی ترقی ہے؟
یہ تو بدترین استحصال ہے۔
ہم میں سے
👇
کون اپنی ماں کے لیے، بیوی بہن بیٹی کے لیے پسند کرے گا کہ یوں وہ سڑکوں پر خوار ہو اور اندوہناک حادثے کا شکار ہوجائے؟
کچھ لوگ کہیں گے کہ اپنی مرضی سے ایسا کرتی ہیں، یہ اپنا چُنا ہوا راستہ ہے۔
یہ مرضی، یہ چنیدہ راستے، یہ کیرئیر در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا پھندہ ہیں جنھیں پیسہ
👇
کمانے کے لیے مُہرے چاہیے اور کسی بھی قیمت پر چاہیے۔
چاہے یہ قیمت جان کی صورت میں کیوں نا ہو۔
افسوس ہے کہ ایک خاتون، ایسی دردناک موت سے ہمکنار ہوئیں۔
جو گھر والوں پر گزری، اس کا تو ہم احاطہ بھی نہیں کرسکتے۔
👇
کاش، یہ استحصالی نظام ختم ہوں جن میں انسان کو انسان نہیں بلکہ مشین تصور کیا جاتا ہے
سورۂ ابو لہب پر غور کرنے کے بعد مُجھے آئینے میں بھی ابو لہب دکھائی دیا اپنے اردگرد ہر طرف بھی وہی چلتا پھرتا بولتا دکھائی دینے لگا۔ گھبرا کر مسجد کا رُخ کیا تو ممبر اور صفوں میں ہر طرف ابُو لہب ہی نظر آتے
میری گلیوں شہروں
👇
سیاسی جماعتوں, ایوانوں، اداروں اور عدالتوں میں ہر طرف ایک ہی چہرہ نظر آتا، آگ برساتا، عقل اور تدبیر سے عاری، جزبات اور احساس برتری سے سے بھرا ابُو لہب
مجھے ان سب میں سے اُس ابُو لہب کی تلاش تھی جسکے بارے میں قرآن نے سورۂ ابو لہب میں ذکر کیا ہے۔ کسی نے کہا بھائی کسے ڈھونڈتے ہو
👇
قرآن نے جسے ابُو لہب کہا ہے وہ تو مُحمدﷺ کا چچا عبدُل عُزا تھا جسے اللہ نے اُس کے رویّے کی وجہ سے ابُو لہب یعنی شُغلوں کا باپ کہا۔ وہ تو چودہ سو سال پہلے مر کھپ بھی گیا، تم آج اسے ڈھونڈ رہے ہو
میں نے عرض کی، جیسے سورہ ابُو لہب میں ذکر ہے اُس کے ہاتھ ٹوٹیں گے کیا عبدل عزا کے
👇
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک شخص ٹیکسی میں سوار ہوا تو کیا ہوا؟ زبان نہ آنے کی وجہ سے زیادہ بات تو نہ کر سکا، بس اس انسٹیٹوٹ کا نام لیا جہاں اسے جانا تھا، ٹیکسی ڈرائیور سمجھ گیا، اس نے سر جھکایا اور مسافر کو دروازہ کھول کر بٹھایا
اس طرح بٹھانا ان کا کلچر ہے۔👇
آغاز ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور نے میٹر آن کیا، تھوڑی دیر کے بعد بند کر دیا اور پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ آن کر دیا، مسافر حیران تھا مگر زبان نہ آنے کی وجہ سے چپ رہا، جب انسٹیٹوٹ پہنچا تو استقبال کرنے والوں سے کہنے لگا، پہلے تو آپ اس ٹیکسی ڈرائیور سے
یہ پوچھیں کہ اس نے دورانِ سفر
👇
کچھ دیر گاڑی کا میٹر کیوں بند رکھا؟ مسافر کی شکایت پر لوگوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا ’’راستے میں مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے جس جگہ سے مڑنا تھا، وہاں سے نہ مڑ سکا، اگلا یوٹرن کافی دور تھا، میری غلطی کے باعث دو ڈھائی کلومیٹر سفر اضافی کرنا پڑا،
👇
عطا اللّه خان عیسی خیلوی کہتے ہیں کہ
میں کچھ عرصہ اسلام آباد میں بھی رہا ہوں وہاں پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں میرا گانا ریکارڈ ہوا
"بالو بتیاں وے ماہی میکوں مارو سنگلاں نال"
ریکارڈنگ ٹی وی پے چلائی گئی تو ایک دن رات دو بجے مجھے فون آیا
دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز تھی
میں ان
👇
دنوں سنگل بھی تھا اس لئے تھوڑا الرٹ هو گیا
خاتون کہنے لگی کہ
میں نے آپ کا گانا سنا مگر ایک شعر کی سمجھ نہیں آئی اگر آپ سمجھا دیتے تو
میں نے کہا کہ
خاتون رات کے دو بج رہے ہیں پھر بھی آپ بتائیں
کوشش کروں گا کہ سمجھا سکوں
خاتون بولیں
اس شعر کا مطلب بتائیں کہ
👇
" میں اتھاں تے ڈھولا واں تے
میں سمّاں ڈھولے دی بانہہ تے"
میں نے کہا کہ
شعر کا مطلب یہ ھے کہ میں کہیں اور ہوں اور میرا محبوب کہیں اور ھے
میرا جی بڑی شدت سے چاہتا ھے کہ میں اپنے محبوب کے بازو پے سر رکھوں اور سو جاؤں
وغیرہ وغیرہ
جمعہ کے دن ہمارا سیمینار تھا جسکا موضوع تھا
Halloween Identity
اس دن پہلی دفعہ اس پر ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ یہ کس قدر خوفناک فتنہ ہے جو تیزی سے ہماری مسلم سوسائٹی میں پھیل رہا ہے اور آج تو حیرت کی انتہا نا رہی جب فیسبک پہ تصاویر دیکھیں کہ سعودیہ میں یہ تہوار بہت زور وشور سے
👇
منایا جارہا ہے استغفِرُاللہ ۔
اور ہمارے ہاں بہت سے لوگ اتنی آسانی سے کہہ رہے ہیں کہ اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ مختلف Costumes اور Masks پہنتے ہیں اور چاکلیٹس اور کینڈیز ہی تو بانٹتے ہیں بچوں میں ۔ تو آخر مسئلہ کہاں ہے ؟
اب یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اسکی تاریخ کو سمجھیں کہ آخر یہ
👇
تہوار آیا کہاں سے ہے اور اسکا مقصد کیا ہے ؟
Halloween actually is "Hallow" and "Evening" which slowly became "Hallow-even" and later "Hallow-een" "Hallow" means to make or set apart as holy
The origins go back to the "Celts", the ancient tribes of Europe.
ایک عورت آئی یا رسول اللہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور طلاق تھی زمانہ جاہلیت کی "تو میرے لئے میری ماں کی طرح ہے" اور اس پر جو طلاق پڑتی تھی وہ ایسی طلاق پڑتی تھی کہ کسی بھی صورت رجوع ممکن نہیں ہوتا تھا۔ جب ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی تو وہ پریشان ہو کر اللہ کے
👇
نبی کے پاس حاضر ہوئی۔
یارسول اللہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے اور کہہ دیا ہے کہ تو میرے لئے میری ماں کی طرح ہے۔ اللہ کے رسول اب کیا حکم ہے؟
تو اللہ کے نبی نے کہا
خولہ اب تو اس کے لئے حرام ہو گئی۔
تو کہنے لگی کہ
یا رسول اللہ آپ نظر ثانی کریں، وہ میرے بچوں کا باپ ہے،
👇
میرے ماں باپ مر چکے ہیں میں کس کے سہارے جیوں اور میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں بچوں کو کہاں سے پالوں؟
تو اللہ کے نبی نے پھر کہا
خولہ کام ختم ہو چکا ہے تو اس کے لئے حرام ہو چکی ہے اب۔
اس نے پھر کہا
یا رسول اللہ آپ نظر ثانی کریں میرے بچے بھی چھوٹے ہیں، میرے ماں باپ بھی مر چکے ہیں
👇