وہ بستر جس پر حضرتِ علامہ اقبال نے زندگی کی آخری رات گزاری تھی۔
یہ بیس اپریل کی رات تھی , نو بجے منیرہ اقبال اپنے والد کے بستر میں گھس گئی اور ان سے باتیں کرنے لگی ,
چند منٹ بعد آنٹی ڈورس منیرہ کو لینے آگئی تو منیرہ کہنے لگے
Aunty one minute more
والد نے آنٹی ڈورس سے کہا
👇
اسکی چھٹی حس اسے بتا رہی ہے کہ
this is the last meeting with the father
آدھے گھنٹے بعد جب وہ سو گئی تو اسے والد کے بیڈ سے اپنے روم میں لے جایا گیا
حکیم قرشی جو ہر رات کچھ گھنٹوں کے لئے اقبال رح کے ساتھ ہوتے تھے وہ گیارہ بجے اپنے گھر چلے گئے ,
اب اقبال رح کے کمرے میں
👇
ڈاکٹر عبدالقیوم , راجہ حسن اختر , میاں محمد شفیع اور اسکا ملازم علی بخش رہ گئے , ڈاکٹر قیوم نے رات بارہ بجے کے بعد انہیں افیون کا انجکشن لگانا چایا تو اقبال رح نے منع کر دیا اور کہا
" میں نشے کی حالت میں مرنا نہیں چاہتا , میں موت کا سامنا کرناچاہتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں
👇
کہ یہ موت کیسے ہوتی ہے "
اسکے بعد اقبال رح نے اپنی وہ آخری رباعی پڑھی کہ
دگر دانائے راز آید کہ ناید ,
اکیس اپریل صبح آذان ختم ہوتے ہی انہوں نے علی بخش کی گود میں اپنا سر رکھا اور دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے یااللہ کہا اور پھر ملت اسلامیہ کے دانائے راز ابدی نیند سو گئے ,
👇
مرنے والوں کی جبین روشن ہے اس ظلمات میں ,
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں ,
Copied
ملا نصرالدین صاحب کے پاس ایک لڑکا آیا اور ان سے پوچھا
"ملا صاحب! میرے والدکی آج جمعہ کے مبارک دن وفات ہوئی ہے۔ اگلے جہان میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟"
ملا صاحب نے پوچھا
"کیا آپ کے والد صاحب نماز روزے کے پابند تھے؟"
لڑکے نے کہا
"نہیں وہ نمازپڑھتے تھے،نہ روزے رکھتے تھے
👇
تھے، مگر خوش قسمتی سے جمعہ کے دن فوت ہوئے ہیں‘‘
ملا نے دریافت کیا
"عیاشی تو نہیں کرتے تھے؟"
لڑکے نے بتایا
"عام طور پر تو نہیں۔ مگر جس روز رشوت کی رقم زیادہ مل جاتی، اُس روز جوا بھی کھیل لیتے، عیاشی بھی کرلیتے۔ اس کے باوجود انھیں جمعہ کے مقدس دن وفات پانے کا شرف حاصل ہوا ہے"
👇
ملّا
"کچھ صدقہ خیرات بھی کرتے تھے؟"
لڑکا
"جی نہیں، فقیروں کو بُری طرح پھٹکارکر بھگا دیتے تھے کہ شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے؟ مگرفوت جمعہ کے دن ہوئے"
ملّا
"عزیزوں، رشتے داروں اور محلے والوں سے اُن کا سلوک کیسا تھا؟"
یہ سوال سن کر لڑکا جھلا گیا۔ کہنے لگا
"جی، وہ تو پورے محلے میں
👇
میری بیوی نے کچھ دنوں پہلے گھر کی چھت پر کچھ گملے رکھوا دیے اور ایک چھوٹا سا باغ بنا لیا۔
گزشتہ دنوں میں چھت پر گیا تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ بہت گملوں میں پھول کھل گئے ہیں، لیموں کے پودے میں دو ، لیموں بھی لٹکے ہوئے ہیں اور دو چار ہری مرچ بھی لٹکی ہوئی نظر آئیں
👇
میں نے دیکھا کہ گزشتہ ہفتے اس نے بانس کا جو پودا گملے میں لگایا تھا، اس گملے کو گھسیٹ کر دوسرے گملے کے پاس کر رہی تھی۔ میں نے کہا تم اس بھاری گملے کو کیوں گھسیٹ رہی ہو؟ بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہاں یہ بانس کا پودا سوکھ رہا ہے، اسے کھسکا کر اس پودے کے پاس کر دیتے ہیں
میں ہنس پڑا
👇
اور کہا ارے پودا سوکھ رہا ہے تو کھاد ڈالو، پانی ڈالو. اسےکھسکا کر کسی اور پودے کے پاس کر دینے سے کیا ہو گا؟ "
بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہ
پودا یہاں اکیلا ہے اس لئے مرجھا رہا ہے. اسے اس پودے کے پاس کر دیں گے تو یہ پھر لہلہا اٹھے گا۔ پودے اکیلے میں سوکھ جاتے ہیں، لیکن انہیں اگر
👇
ایک مصنف لکھتا ہے کہ
کچھ دیر قبل بیٹھا ھوا تاریخ اسلام پڑھ رھا تھا کہ پڑھتے پڑھتے ذہن میں اچانک خیال آیا دُنیا کے اندر بڑے بڑے لوگ آئے
کوئی جرنیل بنا ، کوئی سپاہ سالار بنا تو کوئی حکمران ، فلاسفر ، ڈاکٹر اور سائنسدان بنا اور کوئی حکماگر میں شامل ھوا ، ان سب نے دنیا میں اپنی
👇
قابلیت کا لوہا منوایا ، کسی نے سائنس کے میدان میں ، کسی نے شاعری اور فلاسفی کے میدان میں تو کسی نے ادب و لغت کے میدان میں تاریخ کے ان مٹ نقوش چھوڑے لیکن جب ان کی زندگیوں کو پڑھتا ھوں تو ان سب میں ایک بات یکساں نظر آتی ھے ، وہ بات یہ ھے کہ اگر ھم نے کسی فاتح کی حالات زندگی کا
👇
مطالعہ کیا تو آخر میں یہ بات پڑھنے کو ملتی ھے کہ صاحب نے تو اور بھی علاقوں کو فتح کرنا تھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور یوں مزید علاقوں کو فتح نہ کرسکے
مختلف شعراء کی زندگیوں کو پڑھا کہ انھوں نے بہترین کلام لکھے مگر زندگی نے وفا نہ کی اور انکی ایک بہترین تصنیف لکھتے ھوئے
👇
دیہاتوں میں ایک کیڑا پایا جاتا ہے جسے گوبر کا کیڑا (گونگٹ) کہا جاتا ہے kala poond
اسے گائے بھینسوں کے گوبر کی بو بہت پسند ہوتی ہے
وہ صبح اٹھ کر گوبر کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اور سارا دن جہاں گوبر ملے اس کا گولا بناتا رہتا ہے
شام تک اچھا خاصا گولا بن جاتا ہے ﭘﮭﺮ اس
👇
گولے کو دھکا دیتے ہوئے اپنی بل تک لے جاتا ہے
لیکن بل پر پہنچ کر اسے احساس ہوتا ہے کہ گولا تو بڑا بنا اور بل کا سوراخ چھوٹا ہے
بہت کوشش کے باوجود بھی گولا بل کے اندر نہیں جا سکتا اور اسے وہیں پر چھوڑ کر اندر چلا جاتا ہے
یہی حال ہمارا ہے ساری زندگی حلال حرام کی
👇
تمیز کیے بغیر دنیا کا مال و متاع جمع کرنے میں ﻟﮕﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ اور جب آخری وقت قریب آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب تو
"ﻗﺒﺮ" میں ساتھ نہیں لے جا سکتے ﺍﻭﺭ ﮨﻢ زندگی بھر کی کمائی ﮐو حسرت سے دیکھتے ﮨﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﮯ ہیں
👇
کچھ عرصہ قبل ہمارے علاقے میں ایک پچیس چھبیس سالہ لڑکی کو طلاق دے دی گئی اور شوہر نے بچے چھین لئیے لڑکی کا نام طوبیٰ فاروق تھا انتہائی سلجھی ہوئی شریف اور باکردار لڑکی تھی یتیم تھی بھائی کوئی تھا نہیں لہذا سسرال والوں نے زرخرید غلام بنا کر رکھا ہوا تھا
👇
طوبیٰ نے فزکس کے ساتھ ماسٹر کر رکھا تھا اس کی شادی کو سات سال کا وقت گزر چکا تھا تین بچے تھے اور پھر اچانک اس کے شوہر کو کسی اور لڑکی سے محبت ہو گئی اپنی محبت سے نکاح کے لئیے اس نے اپنی پہلی بیوی طوبیٰ سے اجازت مانگی تا کہ قانونی چارہ جوئی سے محفوظ رہ سکے تو اس نے مشروط اجازت
👇
دیتے ہوئے کہا کہ تینوں بچوں کےلئے مناسب خرچہ لکھ کر دے دیں تو دوسری شادی کر لیں تا کہ آپ بچوں کی طرف توجہ نہ بھی دیں تو مجھے پرورش کی دقت نہ ہو میرے بچوں کی پرورش ہو سکے گو کہ طوبیٰ کی ساری باتیں برحق تھیں مگر اس کے شوہر نے ان کو انا مسئلہ بنایا تو اور تینوں بچے چھین کر اسے
👇
مرد کو ہینڈل کرنا اصل میں یہ سیٹ ہی عورت کی ہے، عورت ہی اس کو پیدا کرتی ہے ، زنانہ وارڈ میں اس کا نزول ہوتا ہے، عورتیں ہی اس کو خوش آمدید کہتی ہیں ، عورت ہی اسے پالتی اور اس کی تربیت کرتی ہے اچھی ہو یا بری، پھر ہار سنگھار کر کے اسے دوسری عورت کو سونپ دیتی ہے ،
👇
لہذا ہر ماں یہ دیکھ لیا کرے کہ وہ اپنا لعل کسکو سونپ رہی ہے ! اس کی میت بھی عورتوں میں ہی پڑی ہوتی ہے، مرد صرف غسل دینے کے لیئے اٹھانے آتے ہیں ! عورت کے بگاڑے کو عورت ہی سدھار سکتی ہے، ماں کے بگاڑے ہوئے کو بیوی ہی سدھار سکتی ہے ، اور ماں کے سدھارے کو بیوی ہی بگاڑ سکتی ہے،
👇
اس کا پاس ورڈ password ازل سے عورت کے پاس ہے، اور یہ ہمیشہ ماں یا بہنوں یا بیوی کے درمیان فٹ بال بنا رہتا ہے جو اپنی اپنی مرضی کی گیم اس پر کھیلتی اور اسکی سیٹنگز تبدیل کرتی رہتی ہے،
👇