ایک بھائی، ذہن اسلامی ، چہرہ مہرہ غیر اسلامی ، ہم ذہن پر شکر ادا کرتے ، مو صوف کچھ عرصہ کے لئے انگلینڈ تشریف لے گے، جب واپسی ہوئی تو بغل میں ایک میم تھی !
موصوف کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا ، اس لے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جناب میم لے کر آئے ہیں ، رشتے داروں نے
👇
گوری کے دیدار کے لئے دور دراز سے ان کے گھر تک کا سفر کیا ، عورتوں سروں پر دوپٹہ لیتی ہوئی چوری چوری میم صاحبہ کو دیکھتیں اور ہا تھ لگانے سے بھی ڈرتیں کہ کہیں گوری میلی نہ ہو جائے،دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہیلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں ،بچے تو اس
👇
کمرے سے نکلتے ہی نہ تھے جہاں پر میم تھی ۔اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی لیکن پھر بھی روایتاً چادر اور سوٹ گوری کو دیا
بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے ۔ ہاں کو جی بھر کر دعائیں دیتی رہیں ، صرف ابا جی تھے جنہوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا، مسلمان ہے کیا؟؟
👇
بیٹا جی نے جواب دیا جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے ۔اس پر ابا جی مطمئن ہو گئے!
مشترکہ خاندانی نظام تھا ، کچھ عرصہ گزرا کہ ایک نیا کا م شروع ہوا، میا ں کے آفس جانے سے میم پہلے دروازے پر خاوند کی بانہوں میں جھول جاتی اور چہرے پر ایک پیار کی لمبی مہر ثبت کرتی
گھر میں کچھ چہ مہ گوئیاں
👇
چہ مہ گو ئیاں ہوئیں ، بیٹا جی نے استفسار پر بتایا کی سمجھ جائے گی ‘”کلمہ پڑھا ہوا ہے۔”
گرمیاں شروع ہوئیں تو گوری نے پینٹ اتار کر نیکر پہننی شروع کر دی ، ابا جی نے تو کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا اور بھائی رات کو دیر سے گھر آنے لگے، اماں ہر وقت گھر کی دیواروں کو تکتی رہتیں
👇
کہ کہیں سے چھوٹی تو نہیں رہ گئیں ! بیٹے سے شکوہ ہوا ،اس نے پھر بتایا “کلمہ پڑھا ہوا ہے ”
ایک شادی پر گوری نے بریک و کینبرے ڈانس کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا کہ بڑے بڑے دل تھام کر رہ گئے ، دریا فت کیاگیا تو بتایا گیا کہ”کلمہ پڑھا ہوا ہے”
گوری عید وغیرہ تو کرتی لیکن ہر سال
👇
کرسمس بھی بڑے تزک و احتشام سے مناتی ، بیٹا جی ھر دفعہ پوچھنے پر جواب دیتے “”کلمہ پڑھا ہوا ہے”
وقت گزرتا چلاگیا ، برداشت پیدا ہوتی چلی گئی ، بچہ ہوا تو گوری نی ختنے کروانے سے انکار کر دیا ،کہنےلگی کہ یہ ظلم ہے ، بیٹا جی کھسیانی سی ھنسی کے ساتھ بو لے سمجھ جائے گی
👇
“کلمہ پڑھا ہوا ہے”
ڈانس ، میوزک ، فلمیں ، کا ک ٹیل پارٹیز، کرسمس ، سر عا م بوس و کنار گھر کے کلچر کا حصہ بنے ، بھائی آہستہ آہستہ بھا بھی سے فری ہوتے چلے گئے ،ہاتھوں پر ہاتھ ما ر کر باتیں کرتے اور وہ ان کی گوری سہیلیاں ڈھونڈتے کی کوشش کرتے۔بہنیں بھابھی کے کمرے میں جا تیں
👇
اور جینز کی پینٹیں پہن پہن کر شیشے کے آگے چیک کرتیں ، کلمہ تو انہوں نے بھی پڑھا ہوا تھا ، بھا بھی سے دل کیہر بات کھول کر بیان کر دیتیں، گوری کبھی کبھار نماز جمعہ پڑھ لیتی تھی ، اس لئے ابا جی کہنے لگے ” کلمہ پڑھا ہوا ہے”
دوست احباب جب بھی ملنے جاتے تو گوری خاوند کے پہلو سے
👇
چپک بیٹھتی ، ایک دو بار تو جگہ تنگ ہو نے کی صورت میں گود میں بھی بیٹھنے سے گریز نا کیا ، پوچھنے پر صرف اتنا جواب ملتا ” کلمہ پڑھا ہوا ہے”
ایک کام گوری کا اچھا تھا ، جب بھی کہیں باہر بازار وغیرہ نکاتی تو جینز شرٹ میں ملبوس ہونے کے باوجود سر ایک ڈوپٹہ سا ڈال لیتی۔دیکھنے والے
👇
دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے کہ ” کلمہ پڑھا ہوا ہے”
یہی حال ہماری پیاری #ام_حریم کا بھی ہے
ہمارے ہر جائز شکوے کے جواب میں وہ یہی جوابِ شکوہ پیش کرتی ہے کہ جی ہم لہو بہاتے ہیں
یہ اور بات ہے کہ لہو ہمارے بچوں کا بہتا ہے اور اسے کیش کروانے والے کلمے کی گرادان کرتے ہوئے،
👇
دبئی، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، اور بیلجیئم شفٹ ہو جاتے ہیں
رہے نام اللہ کا
انہوں نے بھی بس
"کلمہ پڑھا ہوا ہے"
حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ سے
شیطان کا عجیب سوال
حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ کا نام کون نہیں جانتا؟
آپ کا واقعہ ہے کہ حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ نے ایک مرتبہ دل میں خیال کیا کہ اگر شیطان سے ملاقات ہوجائے تو، ایک سوال کروں گا اور انہوں نے ایک دن اللہ سے دعا بھی
👇
کردی کہ اے اللہ! کبھی شیطان سے ملاقات کرادے، تاکہ اس سے سوال کرلوں
ایک دن نماز پڑھ کر مسجد کے باہر نکلے، تو ایک بوڑھا آدمی جھک کر سلام کرنے لگا
حضرت جنید رحمت اللہ نے اس کو دیکھ کر کہا کہ کون ہو تم؟ کہنے لگا کہ میں وہی ہوں، جس سے ملنے کی آپ کو آرزو اور تمنا تھی
حضرت سمجھ گئے
👇
کہ یہ اصل میں شیطان ہے
شیطان نے کہا کہ آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟
حضرت جنید رحمت اللہ علیہ نے کہا کہ میرے ذہن میں تیرے متعلق ایک سوال ہے، سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی نے تجھے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر تجھے کس چیز نے اللہ
👇
مشہورہے کہ ایک یہودی اورنصرانی سفرپرروانہ ہوئے ،راستے میں آبادی کے قریب کنواں تھا اور آگے ایک وسیع و عریض صحراء ،جس کی وسعت چاردن کی راہ تھی دونوں کے پاس مشکیزے تھے ،یہودی نے اپنامشکیزہ پانی سے بھرلیا،جب نصرانی بھرنے لگاتو کہا
” ایک مشکیزہ پانی ہمیں کافی ہے تم اپنامشکیزہ بھرکر
👇
خواہ مخواہ وزن میں اضافہ مت کرو”
نصرانی نے کہا
”میں اس راستہ سے اچھی طرح واقف ہوں شاید یہ ایک مشکیزہ ہمیں کافی نہ ہو”
یہودی نے کہا
”تم یہی چاہتے
ہو کہ جب تمہیں پیاس لگے تومیں تمہیں پانی پلاؤں”
اس نے کہا
”ہاں۔”
یہودی نے کہا
”بس پھر اپنا مشکیزا نہ بھرو،جب تمہیں پیاس لگے گی
👇
پانی مل جائے گا”
یہ سن کرنصرانی نے ا پنامشکیزہ خالی ہی رکھاحالانکہ وہ جانتاتھاکہ عنقریب اسے پیاس کی شدت کا سامناکرناپڑے گا لیکن وہ یہودی کے مشکیزے کی امیدپر پانی کے بغیرہی صحراکی طرف چل دیا۔ سخت گرم ہواؤں کی وجہ سے بار بارپیاس لگی اور با لآ خر پانی ختم ہوگیاحالانکہ ابھی آدھا
👇
اسکول کی ایک طالبہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: جب ہم ثانویہ کے مرحلے میں تھیں۔ ہم کچھ سہیلیاں ناشتہ کے وقفہ میں ایک ساتھ بیٹھتیں اور ہم سب اپنا اپنا ناشتہ ایک ساتھ اس طرح رکھتی کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے کیا لایا ہے۔
ایک غريب ونادار بچی تھی
👇
جو ناشتے میں کچھ بھی نہیں لاتی تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ناشتے میں بیٹھنے کے لئے آمادہ کرلیا۔ کیونکہ ہم لوگوں میں کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کس کا کون سا ناشتہ ہے
اسی طرح مدرسے کے ایام گزرتے رہے یہاں تک کہ ثانویہ سے ہماری فراغت کا وقت قریب آگیا اسی دوران اس طالبہ کے والد
👇
کا انتقال ہوگیا۔ اس کے والد کے فوت ہوتے ہی اس کے حالات بھی تبدیل ہوگئے یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی گزارنے لگی۔ اب وہ اپنے لباس پر بھی توجہ دیتی اور ناشتہ بھی لانے لگی تھی۔ یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی جینے لگی تھی
یہ سب دیکھ کر میں نے سمجھا کہ شاید باپ کی میراث سے اسے کچھ
👇
جج صاحب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو سب احتراماً کھڑے ہو گئے پھر گواہی کے لیے ایک بوڑھی عورت کو پیش کیا گیا تو وکیل استغاثہ نے مائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جرح شروع کی اور جج سے کہا ” یہ بُڑھیا علاقے کی سب سے عُمر رسیدہ مائی ہے جو ہر طرح کی دُنیا داری کو خوب سمجھتی ہے”
👇
وکیل استغاثہ پھر جوشیلے انداز سے مائی کی طرف بڑھا اور مائی سے بولا ” مائی نظیراں کیا تُم مجھے جانتی ہو؟”۔
مائی نظیراں نے چشمہ دُرست کیا اور وکیل کو دیکھ کر بولی ” ہاں مسعود میں تمہیں اُس وقت سے جانتی ہوں جب تُم ایک چھوٹے بچے تھے اور یقین جانو تُم نے مجھے بہت مایوس کیا
👇
تُم جھوٹ بولتے ہو لوگوں کی لڑائیاں کرواتے ہو، طوائفوں کے کوٹھوں پر جاتے ہو، شرابی ہو، اپنی بیوی کو دھوکا دیتے ہو بیشمار لوگوں کے پیسے ادھار لے رکھے ہیں اور واپس نہیں کرتے، تُم خود کو بہت ہشیار سمجھتے ہو اور تمہاری کھوپڑی میں بندر جتنا بھی دماغ نہیں، ہاں ہاں میں تمہیں بہت اچھے
👇
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان نے گھڑی عمر فاروق نامی شخص کو بیچی تھی تو اس “اسٹوری” کا کیا بنا کہ وہ گھڑی اسی جیولر تک پہنچ گئی جو یہ گھڑیاں محمد بن سلطان کے لئے ڈیزائن کرتا ہے؟ کیا عمر فاروق نے محمد بن سلطان کو بتایا ؟
👇
اگر یہ “چوری کا مال”ہے تو چوری کے مال کو خریدنے والے کے اوپر قانون کی کونسی شق نافذ ہوتی ہے؟ دبئی اور پاکستان کے قانون کے مطابق ؟
بیس لاکھ ڈالر کیسے ٹرانسفر ہوئے؟ بینک ٹرانزیکشن؟
اگر بغیر رسیدوں کے لین دین ہوا تو کیا وہ وائٹ منی تھی یا بلیک منی؟
عمرفاروق نے کئی سال کھپ ڈالی
👇
تھی کہ اسکی ماڈل بیوی نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر اسکے خلاف کیسز کروائے اور اب بتا رہا ہے کہ شہزاد اکبر کے ذریعے فرح گوگی تک پہنچا اور یہ مال خریدا
یعنی یہ بندہ گھٹیا ہی نہیں ناقابل اعتبار بھی ہے
مشرف بڑے مان سے بتاتا تھا کہ مجھے قیمتی پستول ملا اور میں نے لغاری کے بیٹے کو دے
👇
شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا بہتر تھا
"ماڈل کالونی چلو گے"
" کتنے پیسے لو گے"
" جو دل کرے دے دینا سرجی"
" پھر بھی"
" سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا
میں ایک جاہل آدمی ہوں پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے
👇
نہیں سکتے
توکل اسی کا نام ہے"
اس کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں ٹیکسی ابھی تھوڑا آگے گئی کہ مسجد دکھائی دی
" سر جی
نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں"
اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی
" آپ نماز ادا کریں گے"
"کس مسلک کی مسجد ہے یہ"
میرا سوال سن کر اس نے میری طرف
👇
غور سے دیکھا
"باؤ جی
مسلک سے کیا لینا دینا اصل بات سجدے کی ہے
الله کے سامنے جھکنے کی ہے یہ الله کا گھر ہے"
میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا نماز سے فارغ ہوۓ اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے
" سر , آپ نماز با قاعدگی سے ادا کرتے ہیں"
" کبھی پڑھ لیتا ہوں , کبھی غفلت ہو جاتی ہے "
👇