نواب راحت سعید خان ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ عہدہ عطا کیا۔
نواب چھتاری اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ
"ایک بار انہیں سرکاری
امور کےلئے لندن بلایاگیا
ایک انگریز دوست نے نواب صاحب سے کہا “آیئے! آپکو ایک ایسی جگہ کی سیر کراوں جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا لیکن وہاں جانےکےلیے حکومت سے اجازت لینی ضروری تھی خیر دو روز بعد انگریز دوست اجازت نامہ لے آیا اور کہا”ہم کل صبح چلیں گے، اگلی صبح
نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر سے نکل کر جنگل شروع ہو گیا۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک اور نہ کوئی پیدل مسافر!آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا، پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی۔ عمارت کے چاروں طرف فوجی پہرہ
اس عمارت کے باہر فوجیوں نے تحریری اجازت نامہ دیکھا اور حکم دیاکہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں۔آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے اس میں سوار ہو جائیں۔ اب پھر سفر شروع ہوا وہی گھنا جنگل،دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں!
نواب صاحب گھبرانے لگے، تو انگریز نے کہا "بس منزل آنے والی ہے"
آخر دور ایک
سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو ڈرائیور نے کہا"یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جاسکتے ہیں"راستے میں انگریز دوست نے نواب صاحب سے کہا کہ آپکو یہاں بولنے یا سوال کرنے کی بلکل اجازت نہیں
عمارت کے شروع میں وسیع دالان تھا۔دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال
لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان اور نکلے پہلے نے عربی لہجے میں “السلام وعلیکم” کہا دوسرے نے کہا”وعلیکم اسلام”نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران ہوگئےکچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کر دیا۔
پھر ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے اندر دیکھا
کہ یہ تو مسجد جیسا ہے عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں۔ سامنے استاد بلکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں طلباء عربی اورکبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے نواب صاحب نے دیکھاکہ کسی کمرے میں قرآن مجید پڑھایاجارہا ہے،
کہیں قرآت سکھائی
جارہی ہے،ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں درمیان مناظرہ ہو رہاتھا اور کہیں فقہی مسائل پر بات۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔ مثلاً غسل کا طریقہ، وضو، روزے، نماز کے مسائل، وراثت اور رضاعت کےجھگڑے، لباس اور داڑھی کی وضع قطع، لونڈی غلاموں کے مسائل، حج کے
مناسک، بکرا، کیسا ہو، چھری کیسی ہو، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے؟میز پر بیٹھ کر کھانا، پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز، معراج روحانی تھی یا جسمانی؟ امام کے پیچھے سورتہ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو آدمی کیا کرے؟ سود
جائزہے یا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔
ایک استاد نے سوال کیا کہ جماعت اب یہ بتائے کہ جادو نظر بد، تعویز گنڈہ آسیب کا سایہ بر حق ہے یا نہیں؟ پینتیس چالیس کی جماعت بیک آواز عربی میں جواب دیا کہ “سچ سچ" پھر اردو میں جواب دہرایا!
ایک طالب علم نےکھڑے ہوکر سوال کیا کہ حج کے لیئے نیت ضروری ہے
تو جو دنیا سے چلےگئے ان لوگوں کا حج بدل کا کیا طریقہ ہے؟ قرآن کیا کہتا ہے؟
تو استاد نے جوابا کہا
” قرآن کی بات مت کرو، روایات، ورد اور استخارے میں مسلمانوں کا ایمان پکا کرو ہاتھ کی لکیروں، مقدر اور نصیب میں انہیں الجھاو"
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب نے انگریز دوست سے پوچھا
اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھاہے؟ انگریز نے کہا
ارے بھئ، ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں۔ تعلیم مکمل ہونے پر انہیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطٰی، ترکی، ایران، اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے اور کہتے ہیں کہ وہ
یورپی مسلمان ہیں انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں۔یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں۔وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے، صرف کھانا، سر چھپانے کی جگہ درکار ہے پھر وہ موذن، پیش امام، بچوں کے لیے قرآن پڑھانے کے طور پر اپنی خدمات پیش
کرتے ہیں۔تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقرر ہو جاتے ہیں۔جمعہ کے خطبہ تک دیتے ہیں اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں کتاب راجپال سے اسی ادارے نے لکھوائی تھی اس طرح کئی برس پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بنا کر کھڑا کرنے والا یہی ادارہ تھا۔ ان کتابوں کی بنیاد لندن کی
اسی عمارت سے تیار ہو کر جاتی تھی۔۔
اللہ تعالٰی ہمیں سچے مذہب اسلام پر چلنے کی ہدایت عطا فرمائیں۔
واشنگٹن کے میٹرو اسٹیشن پر وائلن بجاتے ایک شخص کی تصویر..!
اسے ایک سوشل تجربے کے لیے سی سی ٹی وی سے دیکھا جا رہا تھا۔ یہ شخص راہگیروں کے لیے تقریباً 45 منٹ تک مشہور میوزک بجاتا رہا۔ اس دوران میٹرو پر سوار ہونے کے لیے کم و بیش ایک ہزار سے زائد لوگ گزرے،
45 منٹ کے دوران صرف سات
+
راہگیروں نے کھڑے ہو کر چند لمحے کےلیے سنا اور پھر آگے بڑھ گئے ۔ کچھ نے اسے پیسے بھی دیے۔
آخر میں، اس نے 45 منٹ کے اندر ($32) جمع کر لیے!!
دلچسپ بات یہ تھی کہ..
وائلن بجانے والا شخص "جوشوا بیل" تھا جو کہ دنیا کے عظیم ترین موسیقاروں میں سے ایک ہے.. وہ جو وائلن بجاتا رہا
+
اس کی قیمت 3.5 ملین ڈالر تھی...
اس واقعے سے چند روز پہلے جوشوا نے بوسٹن میں شو کیا تھا ، جس کے تمام ٹکٹ فروخت ہو گئے تھے ، سب سے کم قیمت ٹکٹ سو ڈالرز کا تھا۔
بہت سے ایوارڈز جیتنے والے موسیقار نے نامناسب جگہ اپنا ٹیلنٹ پیش کیا اور لوگوں نے اس ٹیلنٹ کو نہیں
+
شیر شکار میں کامیاب نہیں ہوتا سوائے ایک چوتھائی کوششوں کے، یعنی وہ 75% میں ناکام! صرف 25 فیصد میں کامیاب ہوتا ہے۔
باوجود زیادہ تر شکاریوں کی کامیابی کے اس کم تناسب کے، شیر کے لیے شکار اور شکار کی کوششوںسے مایوس ہونا ناممکن ہوتا ہے۔۔
+
یہ بار بار کرتا رہتا ہے ، جب تک کامیاب نہیں ہوتا لیکن مایوس ہوکر کوشش کرناچھوڑتا کیوں نہیں؟
شائد بھوک!
جیسا کہ کچھ سوچتے ہیں
مگر
اسکی بنیادی وجہ بھوک نہیں ہے بلکہ جانوروں کو ایک قانون کی سمجھ ہے یہ وہ قانون ہے جسکے ذریعے فطرت کام کرتی ہے.
مچھلی کے آدھے انڈے ضائع ہو جاتے ہیں
+
نوزائیدہ ریچھوں میں سے نصف بلوغت سے پہلے مر جاتے ہیں۔
زیادہ تر درختوں کے بیج پرندے کھاتے ہیں...
ایسی کئی مثالیں ہیں۔
مگر
صرف ایک انسان ہی اس آفاقی فطری قانون کو نہیں سمجھتا اور چند کوششوں میں ناکامی سے اپنے آپکو ناکام انسان سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
لیکن
سچ یہ ہے
+
"جاہل معاشرے کےلئے باغی ایسا ہی ہے جو کسی اندھے کے راستے کو روشن کرنے کےلئے اپنے آپکو آگ لگا لے"
نپولین کی قیادت میں مصر میں فرانسیسی مہم کے بعد محمد کریم کو گرفتار کرکے موت کی سزا سنائی گئی لیکن نپولین نے اسے کہاکہ
مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایک ایسے شخص کو پھانسی کی سزا سنادی جس
نے اپنی ہمت سے ملک کا دفاع کیا اور میں نہیں چاہتا کہ تاریخ مجھے ایسے یاد رکھے کہ میں نے اپنے وطن کے دفاع کرنے والے ہیروز کو پھانسی دی تھی۔اس لئے میں دس ہزار سونے کے بدلے آپکو معاف کرتا ہوں اور یہ بھی میرے سپاہیوں کو مارنے کے بدلہ میں جرمانے کے طور پر ادا کرنا ہوگا"
محمد کریم
+
نے کہا: میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔ لیکن میرے پاس سونا کے سوداگروں کےساتھ ایک لاکھ سے زائد کا قرض ہے۔
نپولین نےکہا:
"میں تمھیں اپنا مال جمع کرنے کےلئے کچھ مہلت دیتا ہوں"
وہی اپنے ملک کےلئے لڑنے والا بیڑیوں میں جکڑے ہوئے اور غاصب فرانسیسی کے نرغے میں رہتے ہوئے بازار گیا۔
اسے امید+
ہمارے گھر کے قریب ایک بیکری ہے.
اکثر شام کے وقت کام سے واپسی پر میں وہاں سے صبح ناشتے کےلئے کچھ سامان لیکر گھر جاتا ہوں.آج جب سامان لیکر بیکری سے باہر نکل رہا تھاکہ ہمارے پڑوسی عرفان بھائی مل گئے. وہ بھی بیکری سے باہر آرہے تھے.
میں نے سلام دعا کی اور پوچھا
"کیا لیا عرفان بھائی؟+
کہنے لگے
"کچھ نہیں ثاقب بھائی کچھ چکن پیٹس اور جلیبیاں لی بیگم اور بچوں کےلئے"
میں نے ہنستےہوئے کہا
"کیوں؟آج کیابھابھی نے کھانا نہیں پکایا"
کہنے لگے
"نہیں نہیں ثاقب بھائی! یہ بات نہیں ہے دراصل آج دفتر میں شام کے وقت کچھ بھوک لگی تھی تو ساتھیوں نے چکن پیٹس اور جلیبیاں منگوائیں۔
+
میں نے وہاں کھائے تو سوچا بیچاری گھر میں جو بیٹھی ہے وہ کہاں کھانے جائیگی، اسکےلئے بھی لے لوں. یہ تو مناسب نہ ہوا نہ کہ میں خود تو آفس میں جس چیز کا دل چاہے وہ کھالوں اور بیوی بچوں سے کہوں کہ وہ جو گھر میں پکے صرف وہی کھائیں"
میں حیرت سے انکا منہ تکنے لگا کیونکہ میں نے آج تک اس
+
العزبن عبدالسلام،
عالموں کے سلطان"جن کا ایک فتویٰ جو تاریخ میں امر ہو گیا۔
ملک المظفر بادشاہ سیف الدین قتوز،اس وقت کے اپنے ملک کے حاکم، تاتاریوں کے حملے کے پیش نظرفوج تیار کرنے کےلیے عوام پر ٹیکس لگانے کاسوچتے ہیں۔
متوقع شدید جنگ، حملے اور تباہی کا خطرہ ہے، اس نازک صورتحال
+
کیوجہ سے ٹیکس لگانے کافیصلہ کیاگیا۔
بادشاہ نے شیخ العزبن عبدالسلام سے رائے لی تو انہوں نے کہا:
"دو شرائط ہیں"
پہلی شرط::
اگر دشمن، ملک پرحملہ کرتا ہےتو پوری دنیا کو اسکا مقابلہ کرناچاہیے(یعنی عالم اسلام) اور دفاعی ضرورت پوری کرنےکےلئے رعایا سے وہ چیز لینا جائز ہے جو انکے زیر
+
استعمال ہو (یعنی زکوٰۃ سے اوپر)
لیکن
بشرطیکہ خزانے میں کوئی چیز باقی نہ رہے۔
دوسری شرط زیادہ مشکل تھی،
شیخ نے کہا:
"اورجو کچھ تمہارے پاس جائیداد اور آلات ہیں انہیں بیچ دو۔(یعنی حکمران،شہزادے اور وزراء اپنی ملکیت کوبیچ دیں)
اور تم خواص میں سے ہرایک صرف اپنے گھوڑے اور ہتھیار
+
ﮐﺎ قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ پر آ گیا اور ﮐﮩﺎ کہ"ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ"
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ نے جواب دیا کہ"
یہ مرغی میری نہیں بلکہ کسی اور کی ہے اور میرے پاس ابھی کوئی اور مرغی بھی نہیں جو آپکو دے سکوں"
قاضی نے کہا کہ"کوئی بات نہیں یہی مرغی مجھے دے دو +
مالک آئے تو کہنا کہ مرغی اڑ گئ ہے"
دوکاندار نے کہا"ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے مجھے ذبح شدہ مرغی دی تھی وہ بھلا کیسے اڑ سکتی؟
قاضی نے کہا "میری بات غور سے سنو! بس یہ مرغی مجھے دے دو اسکے مالک سے یہی کہو کہ تیری مرغی اڑ گی ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ تمہارے خلاف مقدمہ لیکر میرے پاس +