بحیثیت ایک پاکستانی، میرے لیے اس ملک کی شان، عزت اور وقار صرف عمران خان ہے
اس حوالے سے نہ مجھے فوج سے کوئی خاص لگاؤ رہا، نہ شریفوں سے، نہ زرداریوں سے
میں اس نتیجے پر کیونکر پہنچا؟
کیا یہ محض ایک جذباتی لگاؤ ہے؟
ہرگز نہیں @ImranKhanPTI @OfficialDGISPR
میری اس سوچ کے پیچھے کئی برسوں پر محیط ایک پوری ہسٹری ہے جو آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہوں گا
بحیثیت ایک پاکستانی، میں بچپن سے ہی قومی سطح پر رونما ہونے والے ایسے متعدد واقعات دیکھتا ہوا آرہا ہوں، جنھوں نے مجھے میری قومی شناخت پر ہمیشہ شرمسار رہنے پر مجبور کیا
99 میں کارگل کا
واقعہ ہوا۔ پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت کا وزیراعظم بھاگا بھاگا امریکہ گیا اور ہماری تاریخ کے اوراق ایک اور سرنڈر سے داغ دار ہوئے
نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان
99 میں ہی، بھارت نے پاکستان کی
سرحدوں کے قریب ایک پاکستان نیوی کے طیارے کو مار گرایا جس میں درجن سے زائد نیوی افسران اور جوانوں کی شہادت ہوئی
پاکستان کچھ بھی نہ کرسکا
نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان
مشرف کے دور میں پاکستان نے امریکہ کے سامنے بدترین سرنڈر کی کئی
شرمناک مثالیں قائم کیں
مشرف دور سے شروع ہونے والے ڈرون حملے 2018 تک مسلسل جاری رہے جن میں بے شمار معصوم پاکستانی بھی نشانہ بنے
میں نے معلوم تاریخ میں کبھی ایسی ذلت نہ دیکھی کہ کوئی سپر پاور، کسی دوسرے ملک میں کئی برسوں ڈرون اسٹرائیکس کرتی رہی ہو، اس میں عام سویلینز کو نشانہ
بناتی رہی ہو اور نشانہ بننے والا ملک چپ کرکے بیٹھا رہا ہو
نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان
2011 میں، سلالہ کے مقام پر، نیٹو فورسز نے پاکستان میں گھس کر ہمارے جوانوں کو نشانہ بنایا
پاکستان احتجاج کے سوا کچھ نہ کرسکا
2013 میں، ایک
امریکی ایجنٹ جس کا نام ریمنڈ ڈیوس تھا، وہ کسی خفیہ مشن پر آپریٹ کررہا تھا کہ اسے ہمارے ایجنسی کے جوانوں نے انٹرسیپٹ کرلیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے جیسے ہی خطرے کو محسوس کیا، اس نے دن دیہاڑے، بیچ سڑک پر گاڑی روک کر، ہمارے ایجنسی کے جوانوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا۔
ان میں سے ایک نوجوان
کی بیوی اس قیامت کی تاب نہ لاسکی۔ وہ مقامی ہسپتال میں انصاف کی دہائیاں دیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی
ہماری ایٹمی ریاست اپنی ہی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے قاتلوں کے ساتھ کیا کیا؟
اسے باعزت پاکستان سے فرار کروایا
اس عمل میں ریاست، ن لیگ اور پیپلز پارٹی باقاعدہ شامل رہیں
مجھے آج بھی نیوز چینلز پر چلنے والی وہ پریس کانفرنسز یاد ہیں جن میں پیپلز پارٹی کی رہنما فوزیہ وہاب ہاتھوں میں آئین کی کتاب لہراتے ریمنڈ ڈیوس کا دفاع کیا کرتی تھیں
بالآخر ریمنڈ ڈیوس صحیح سلامت پاکستان سے فرار کروا دیا گیا
نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام
آئے اور نہ ہی سیاستدان
2011 میں، کچھ مقامی ایجنٹوں کی مدد سے، امریکہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں گھس کر، اسامہ کے کمپاونڈ پر حملہ کرتا ہے، اور سکون سے آپریشن مکمل کرکے اسامہ کی باڈی کو وہاں سے باحفاظت لے جاتا ہے
اس شرمناک واقعے کے اگلے دن اس وقت کے صدر پاکستان جناب آصف
زرداری صاحب کا امریکی اخباروں میں باقاعدہ کالم چھپتا ہے جس میں وہ اس "عظیم الشان" آپریشن پر امریکی صدر کو مبارکباد پیش کرتے ہیں
اس آپریشن سے امریکہ نے یہ پیغام دیا کہ اس کے نزدیک پاکستان کی sovereignty کی کوئی حیثیت نہیں۔ نہ ہی وہ پاکستان کی فوج پر زرہ برابر اعتماد کرنے کو
تیار ہیں
یہاں بھی نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان
مشرف دور سے چلنے والے ڈرون حملے مارچ 2018 تک چلتے رہے۔ پاکستان ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکا
ان تمام واقعات اور ان کے aftermaths دیکھنے کے بعد، بحیثیت ایک پاکستانی، میرے دل و
دماغ میں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ ہماری کوئی حیثیت، کوئی وقعت نہیں
امریکہ، نیٹو یا بھارت جب چاہے، پاکستان کی سالمیت کا مذاق اڑا سکتے ہیں، جب دل چاہے ہماری سرحدوں میں گھس عام پاکستانیوں کو قتل کرسکتے ہیں
یہ احساس ہی تباہ کن تھا
انتہائی ذلت سے بھرپور تھا
ہمارا قومی فخر ملیامیٹ
ہوچکا تھا
ہم نے وہ بے توقیری اور ذلالت سہی، جو حالیہ تاریخ میں شاید ہی کسی اور قوم نے سہی ہو
اوورسیز پاکستانیوں سے پوچھیں کہ ان واقعات کے بعد، وہ دوسری اقوام خاص کر بھارتیوں کے سامنے کس قدر شرمندگی محسوس کیا کرتے تھے، کیسے منہ چھپائے پھرتے تھے
پھر تاریخ بدلنا شروع ہوئی
2018 میں عمران خان منتخب ہوا
کسی "نامعلوم" وجوہ کی بناء پر ڈرون حملے اچانک بند ہوگئے
پاکستانی امریکیوں کے ہاتھوں مرنا بند ہوگئے
2019 میں، بھارت نے پاکستانی حدود میں گھسنے کی غلطی کی تو 24 گھنٹوں کے اندر اسے ایسا دندان شکن جواب دیا گیا کہ ساری دنیا حیران رہ گئی، بھارت بھونچکا
رہ گیا
غالباً 65 کے بعد پہلی بار بھارتی حدود میں گھس کر اسٹریٹیجک بمباری کی گئی اور بھارتی طیارے ٹریپ کرکے پاکستان کی فضائی حدود میں لایا گیا اور اسے کامیابی سے نشانہ بنایا گیا
بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرنے اور اس پر تھپڑوں کی بارش کرنے کی ویڈیو جان بوجھ کر لیک کی گئی تاکہ
بھارتی افواج کو یہ تھپڑ برسوں یاد رہے
یاد کیجیے وہ وقت جب بھارت نے پاکستان نیوی کا طیارہ مار گرایا جس میں میں درجن سے زائد جوان شہید ہوئے اور پاکستان کچھ بھی نہ کرسکا
اور پھر وہ وقت کہ جب 27 فروری کو بھارت کو تاریخی جواب دیا گیا
2021 میں سی اے آئی چیف کا دورہ ہوتا ہے پر
عمران خان اس سے ملنے سے یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ اپنے ہم منصب سے ملو، مجھ سے نہیں
یہ وہی دورہ تھا جس میں عمران حکومت کی جانب سے، امریکی سی آئی اے کو اڈوں کے حوالے سے صاف جواب دے دیا گیا تھا پر یہ بات ابھی پردوں کے پیچھے تھی
پھر ایک مغربی صحافی کے اڈوں سے متعلق سوال کے جواب
میں عمران خان absolutely not کہہ دیتا ہے
اعتراض کرنے والے اسے صرف ایک منہ زبانی بیان قرار دیتے ہیں
میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ یہی "آسان" جملہ عسکری قیادت یا ن لیگ و پیپلز پارٹی کے رہنما بھی بول کر دکھادیں
ن لیگی قیادت نے تو چند ماہ پہلے ہی یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان
وینٹیلیٹر پر ہے اور اس کا پائپ امریکہ کے ہاتھ میں ہے
ان ہی لوگوں نے ہمیں بتایا کیا کہ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم ہونا ہے ہے تو امریکہ کی جی حضوری لازمی ہے
پاکستان پچھلے چھ سات ماہ سے امریکی جی حضوری کرتے کرتے معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا
ککھ فائدہ نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔
بیان کی بات ہی نکلی ہے تو کچھ ماہ پہلے ہی، پاکستان کے سابق سپہ سالار، باجوہ صاحب ایک کانفرنس میں بیٹھے امریکی فرمائش پر، یوکرین پر روسی حملوں کی مذمت کرتے پائے گئے تھے
یہاں میں دو سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:
1- اگر عمران خان صرف منہ زبانی بیانات دیتا ہے تو یہی کام باجوہ صاحب،
نواز شریف، شہباز شریف اور زرداری کیوں نہیں کرپاتے؟
2- اگر یہ صاحبان پاکستان کی معشیت کی خاطر امریکی جی حضوری کرتے رہے تو پھر پچھلے چھ ماہ میں، ہماری معشیت کیونکر برباد ہوئی؟
حکومت کے آخری وقت میں بھی، عمران خان امریکی مخالفت مول کر روس کا دورہ کرتا ہے اور پاکستان کی معشیت
خاص کر تیل کے حوالے سے مذاکرات کرتا ہے
امریکہ اور مغرب کے بھرپور پریشر کے باوجود وہ کسی بھی پروپگینڈہ بلاک کے ساتھ کھڑے ہونے سے صاف انکار کردیتا ہے
بالآخر کہ اس کی حکومت ختم کردی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
آخر میں کہنا چاہوں گا کہ عزت ایک بڑا subjective معاملہ ہے
محسوس کرنے والے کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے
اور جو نہ محسوس کرے وہ بیشک کچھ بھی کرتا پھرے
اگر آپ کے لیے بھی قومی غیرت معنی رکھتی ہے، تو عمران خان کی تحریک میں اس کا بھرپور ساتھ دیجیے
اگر نہیں رکھتی، تو بیشک لاتعلق بیٹھے رہئیے اور ڈرائنگ رومز مباحث میں بیٹھ کر
#وہ_کون_فرعون_تھا
"کبھی نہ بھولو کہ مسلح افواج عوام کی نوکر ہیں۔ آپ پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہمارا، سولینز، کاکام ہے۔ان معاملات پر ہم فیصلہ ساز ہیں اور آپ ان فرائض کوسرانجام دینےکےپابند ہیں جو آپ کےذمہ لگیں"
یہ میرےنہیں قائداعظم محمدعلی جناح کی آرمی سٹاف کالج کوئٹہ میں 14
جون1948 کی تقریر کےالفاظ ہیں
قائد اعظم نے جونیئر فوجی افسر کو غصے میں کہا کہ مت بھولیں کہ فوج عوام کی ملازم ہے. قومی پالیسی بنانا سول عوامی نمائندوں کا کام ہے پالیسی ہم بنائیں گے آپ فالو کروگے۔ فوج کا کام بیرونی خطرات سے حفاظت ہے فوج کو سیاسی کرکے یہ مقصد ختم نہیں کرنا
مگر اس کے بعد قائد اعظم کی وفات کہ بعد ملک پر ایک ڈکٹیٹر بیٹھا تھا اور قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو غدار کہہ رھا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے
لیکن معاملہ یہ ہے کہ یہ غیر مرئی حکومت جسے ہیلری کلنٹن ڈیپ اسٹیٹ کی مثال میں استعمال کرتی ہے
وہ بلکل تسلسل سے ہٹ کر ہر آنے والے
#یوم_انقلاب_26_نومبر
قوموں کی زندگیوں میں کچھ لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں ۔ یہ لمحات اگلی کئی صدیوں تک قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ قوموں کو یہ مراحل بطور آزمائش عطا کیے جاتے ہیں اور وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔
26 نومبر 2022 کا دن بھی مملکت پاکستان @ImranKhanPTI 💞
کے باسیوں کےلیے ایسا ہی ایک دن ہے۔ پچہتر سال سے مافیا اور اشرافیہ نے مل کر اس ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹا ہے اور اس کی بنیادیں کھوکھلی کر کے بائیس کروڑ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے اشاروں پہ گھمایا ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کےلیے نہ صرف ان کی عزت ، غیرت اور سلامتی کا سودا کیا
جاتا رہا بلکہ ان کی ترقی میں بھی رکاوٹ بن کر انھیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور کیا گیا۔ جس وقت پڑوسی ملک میں میگا ڈیمز ، اسپیشل اکنامک زونز اور آئی ٹی زونز بن رہے تھے ، تب یہاں جیہادی لیٹریچر بانٹ کر امریکہ کی لڑائی کےلیے قربانی کے بکرے تیار کیے جا رہے تھے۔ قوم کے بچوں کا
آرمی چیف کی تعیناتی کو لے کر پاکستان میں میڈیا میں ایک ہاہاکار مچی ہوتی ہے کہ جیسے کوئی سرکاری ملازم نہیں بلکہ اگلا بادشاہ چنا جا رہا ہو۔ یہ ہائپ خود میڈیا پہ بنوائی جاتی ہے تاکہ 22 ٹکے ایک سرکاری ملازم کو کوئی انمول مخلوق ظاہر کیا جائے ۔ رعایا بے تاب
ہو کہ اگلا بادشاہ سلامت کون آئے گا۔ حالانکہ تعیناتی جہاں ہونی ہوتی ہے وہاں ہو چکی ہوتی ہے۔ اس بار بھی تین چار ماہ قبل نام اوپر سے فائنل ہو کر آ چکا ہے اور آگے بھی اسی کی سمری جانی ہوتی ہے لیکن جان بوجھ کر ایسا تاثر پیدا کیا گیا جیسے اس حوالے سے حکومت اور اسٹبلشمنٹ میں اختلافات
ہیں ۔ اختلافات ۔۔۔۔۔ ہنس لیجیے۔ دو سیٹوں پہ کھڑی ایک کٹھ پتلی سرکار جس کو وہ جب چاہیں ایک اشارے پہ گھر بھیج دیں ، جس ڈاکو کا چاہیں کیس کھول دیں۔ سمری ادھر سے آ نہیں رہی ، ادھر پہنچ نہیں رہی ، ادھر جا نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔ یہ سب ڈرامے بازیاں صرف اور صرف بادشاہ سلامت کی امیج بلڈنگ
#ArmyChief #ISPR
تقریر لکھنے والے کو غلط فہمی ہوئی یا خوشامد مقصود ہو گی لیکن چیف صاحب نے بھی ہوبہو یاد کر لی۔
تقریر کے دوران صاحب بہادر مشورے دیتے نظر آئے کہ ایک پارٹی ملک کو نہیں سنبھال سکتی بلکہ سب سٹیک ہولڈر کو مل کر چلنا ہو گا ۔
بندہ لا لوے جوتی تے پا لوے بوٹ تے موٹی
گال کڈ کے نس جاوے۔
مطلب تم ہوتے کون ہو یہ مشورے دینے والے۔ بائیس کروڑ عوام جس کو منتخب کریں وہ فیصلے کرے گا ۔ تم چوکیدار ہو ۔ اپنی ڈیوٹی کرو ۔ شریف اور زرداری تمہاری پھوپی کے بیٹے ہیں جو ان کو شامل کرنا ضروری ہے۔ ایک پارٹی نہیں سنبھال سکتی تو سب نام نہاد سٹیک ہولڈرز نے مل
کر کتنا سنبھالا ؟ ایویں ماچا بننے کی کوشش کرتے ہوئے دو ٹکے کے سرکاری ملازم خود کو ملک کا مالک سمجھ لیتے ہیں۔
یاد رکھیں یہ ملک کسی کے باپ کی ملکیت نہیں ہے اور نہ کسی کی ماں اسے جہیز میں لائی تھی ۔ یہ بائیس کروڑ کا ملک ہے اور اس کے فیصلے بھی بائیس کروڑ لوگ ہی کریں گے۔ کسی کو
#ArmyChief
حاجی صاحب آج آپ کی تقریر ایک مکمل سیاسی تقریر تھی۔
آپ کہتے ہیں فروری میں فیصلہ کیا کہ اب سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن آج آپ کی سیاسی تقریر مکمل طور پر میں سیاست میں مداخلت کی عکاس اور غیر آئینی ہے۔
آج آپ نے قوم کو یاد دلایا کہ اکہتر کی جنگ میں ناکامی سیاسی
ناکامی تھی ۔ فوجی ناکامی نہیں ۔ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں آپ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا زمے دار سول حکومتوں کو ٹھہراتے آئے ہیں ۔ ستر سال میں تین مارشل لاء اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ آج آپ کی یادداشت واقعی کام کرنا چھوڑ گئی ہے۔ آپ کو شاید یاد نہیں کہ اس وقت ایک جنرل کی حکومت
تھی جو فیصلہ کرنے سے قاصر تھا ۔
یقینا مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر کا غاصبانہ رویہ بھی ملک کو توڑنے کا باعث بنا لیکن یاد کریں کہ وہ لیڈر بھی ملٹری اکیڈمی کی پیداوار تھا جس کو اس ملک کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔
آج آپ کو آج پرانے قصے یاد آرہے
#ArmyChief
ان کا طریقہ واردات اور بیانیے بھی آپس میں ملتے ہیں۔
1999 میں مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔۔اس دوران گہما گہمی میں نواز شریف کی 2003 کی پراپرٹی کے کاغذات ادھر ادھر ہو گئے۔
شریف فیملی نے اپنے 2006 کے ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروائے @MaryamNSharif 🦮 @OfficialDGISPR
جس میں اس کیلبری فونٹ کا استعمال کیا گیا تھا جو 2007 میں ایجاد ہوا۔
90 کی دہائی میں شہباز شریف کا باپ کسان تھا تو اسی دوران نواز شریف کا باپ ایک جانا مانا بزنس مین تھا۔
2019 کے آخر میں آنے والا کرونا وائرس کیلبری کوئین کو 2018 میں لاحق ہو چکا تھا ۔
ایک لیک آڈیو کے بعد
لیگی راہنماوں نے اسے 2009 کی پرانی آڈیو قرار دیا تھا جس میں 2015 میں بننے والے چینلز کو مریم نواز نے اشتہار دینے سے منع کیا تھا۔
اب فیکٹ فوکس نے جنرل باجوہ صاحب کی بھی ایسی ہی کرامت ظاہر کی ہے۔ ٹیکس پٹرولیم کی پیرنٹ کمپنی 29 اگست 2018 میں دبئی میں رجسٹر ہوئی لیکن کرامت