Moona Sad Profile picture
Nov 27 10 tweets 3 min read
انڈیا میں امرتسر سے تقریباً 35 کلو میٹر دور واہگہ باڈر کی جانب ایک "پُل کنجری" ہے۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی محبوبہ، بیوی مہارانی موراں سرکار کے لیے بنایا تھا۔

کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔ رقص کے چرچے دور دور تک تھے۔ ایک مرتبہ
👇 Image
شاہی برادری میں ناچ کے لیے بلایا گیا، وہاں اکیس سالہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کو دیکھا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا

موراں، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر رقص کے لیے شاہی برادری، لاہور آنے جانے لگی ایک مرتبہ شاہی برادری پر رقص کے لیے آ رہی تھی تو ہنسالی نہر میں موراں کا جوتا
👇
گِر گیا جب ننگے پاؤں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں پہنچی، مہارجہ نے احوال سن کر بنسالی نہر پر فوراً "پل موراں" بنا دیا تا کہ آنے جانے میں آسانی رہے۔

دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں، امرتسر یا لاہور میں ملتے تو روائتی و مذہبی سماج کے لیے یہ تعلق ناقابلِ برداشت تھا لہذا
👇
ان دونوں شہروں کے درمیان "پل موراں" کے قریب ایک جگہ پر ملاقات کے لیے مقام بنایا گیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موراں سے شادی کے لیے کہا تو اس نے اپنے والد سے اجازت کے بعد مہاراجہ سے شادی کر لی جو کہ سکھ مذہبی حلقوں میں ہلچل مچا گئی کہ ایک سکھ مہاراجہ کسی مسلمان
👇
طوائف سے کیسے شادی کر سکتا ہے۔ اس جرم کی سزا کے طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کوڑے پڑے اور کچھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے انتخاب پر قائم رہا۔ موراں کو سرکاری نام "موراں سرکار" دیا گیا۔ چونکہ یہ کشمیری رقص کے فن کی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی سو مہاراجہ
👇
کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے موراں سے مشورہ لیتا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی چھیالیس بیویوں میں سے ایک موراں ہی تھی جس کے نام کے سکے بھی چلے۔

موراں خود ایک طوائف تھی اس لیے اس نے طوائفوں کے مسائل کو مہاراجہ رنجیت کی مدد سے حل کروانے کی کوشش کی، انہیں سماج میں انسانی وقار دلوایا۔
👇
اپنی حویلی میں روز عدالت لگاتی، عام لوگ اس کے پاس آ کر اپنے دکھ سناتے، وہ جس حد تک ممکن ہوتا مدد کرتی۔ کسی نے آ کر کہا مسجد بنوا دو، موراں نے مسجد بنوا دی، کسی نے آ کر کہا کہ مندر بنوا دو، اس نے مندر بنوا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ موراں نے عوام میں اپنا پُروقار مقام بنا لیا
👇
اور عوام کے دِلوں پر راج کرنے لگی۔

لاہور شاہ عالمی کے قریب آج بھی مسجدِ طوائف موجود ہے، جس کا نام کچھ سال پہلے مسجدِ موراں کیساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح پُل کنجری کو بھی اب پُل موراں کہا جاتا ہے۔موراں محبت، انکسار و عجز کی داستان کے طور پر ہر روپ میں لوگوں کے
👇
درمیان زندہ ہے۔ کوئی اسے کنجری کہتا ہے، کوئی طوائف، کوئی مائی موراں، کوئی موراں سرکار اور کوئی عوامی ملکہ۔۔۔

قُربِ عباس
23 ستمبر، 2020
لاہور، پاکستان

پاکستان میں ایک مائی "موری" بھی ہے
اس کے باپ نے لوگوں کا خون چوس چوس کر بیشمار جائدادیں بنائیں ہیں اور مائی موری نے
👇
اپنے داماد کے لیے بجلی کے پلانٹس لگائے ہیں
وہ بھی ٹیکس فری، اسمگلنگ کے سامان سے اور سہولت کاروں کے تعاون سے
مائی موری اور اس کے سہولت کاروں کا گندی وڈیوز کا دھندہ بھی ہے
گندا ہے، پر دھندا ہے

ابھی کے لیے اتنا ہے
بس ایک نعرہ لگاتے جائیں

#امپورٹڈ_حکومت_نامنظور

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Moona Sad

Moona Sad Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Moona_sikander1

Nov 29
دریا کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا سارا سال خشک رہتا تھا جب بارشیں ہوتی تو اس میں پانی بہتا نظر آتا لیکن وہ پانی گہرا نہ ہوتا اس لئے اس میں بچے بڑے نہاتے نظر آتے گاؤں میں چند چھوٹے گھر تھے کچھ کچی مٹی سے بنے ہوئے اور کچھ پکی اینٹوں سے لیکن وہ سب گھر ایک جیسے ہی لگتے تھے اب
👇 Image
چند دنوں سے شہر کی جانب سے پکی اینٹوں سیمنٹ،گارڈر سریوں اور لکڑی کے دروازوں کھڑکیوں سے بھری ٹرالیاں آرہی تھی جلال الدین نے اپنا تین کمروں کا کچا گھر مسمار کردیا تھا اور اب وہاں پکا مکان بن رہا تھا تھوڑے ہی عرصے میں یہاں شہروں میں دکھائی دینے والے گھروں جیسا گھر بن گیا
👇
صحن کے آگے بڑا سا دروازہ
اونچا برآمدہ
خوبصورت بل کھاتی سیڑھیاں
چھت کے احاطے پر جالی دار چبوترہ
گاؤں کے لوگ اس گھر کو حیرت اور رشک سے دیکھتے۔ سب جانتے تھے جلال الدین کا بیٹا غیر ملک کمانے گیا ہے وہاں سے خاصی رقم اس کے پاس آرہی ہیں وہ عام آدمی سے بڑا آدمی بن گیا تھا اس کا سب سے
👇
Read 37 tweets
Nov 28
میراثی نے نئی گرم چادر لی
اور کندھے پہ رکھکر گاؤں کی چوپال میں جا بیٹھا
نمبردار نے چادر دیکھی تو اپنے بیٹے کی بارات میں استعمال کے لئے مانگ لی
بارات گاؤں سے نکلی تو چادر دلہے کے کندھے پر تھی
بارات کو دیکھ کہ ایک شخص نے پوچھا
بارات کِہندی اے؟
میراثی جھٹ سے بولا
👇
بارات نمبرداراں دی اے تے
چادر میری اے
چوھدری کے لوگوں نے میراثی کی دھلائی کر دی کہ یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی؟
بارات تھوڑی اور آگے گئی
تو سامنے آتے ایک شخص نے پوچھا
بارات کِہندی اے؟
میراثی جلدی سے بولا
بارات نمبرداراں دی اے تے
چادر وی اوہناں دی اپنی اے
ایک دفعہ پھر پھینٹی پڑی
👇
کہ تو نے تو اس طرح بول کر لوگوں کو چادر کے بارے جان بوجھ کر شک ڈال دی
اب جو تیسری مرتبہ راستے میں پھر کسی نے پوچھا! کہ اتنی شاندار بارات کس کی ہے؟
تو میراثی نے پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جواب دیا
کہ بارات تو نمبرداروں کی ہے
لیکن چادر دا مینوں بالکل وی نہیں پتہ
👇
Read 5 tweets
Nov 27
تیــسـری روٹـــی

حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ
" تمہاری جیب میں کچھ ہے؟"

شاگرد نے کہا
" میرے پاس دو درہم ہیں"

حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا
" یہ تین درہم ہوجائیں گے،
👇
قریب ہی ایک آبادی ہے، تین درہم کی روٹیاں لے آؤ"

وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ👇
روٹی پہلے ہی کھا لوں،چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لےکر حضرت عیسیٰؑ کےپاس پہنچا

آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا
" تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں؟"

اس نےکہا
" دو روٹیاں ملی تھیں،ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی"

حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے
👇
Read 15 tweets
Nov 26
ایک آدمی دو بہت اونچی عمارتوں کے درمیان تنی ہوئی رسی پر چل رہا تھا۔ وہ بہت آرام سے اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ڈنڈا پکڑے ہوئے سنبھل رہا تھا۔ اس کے کاندھے پر اس کا بیٹا بیٹھا تھا۔ زمین پر کھڑے تمام لوگ دم سادھے کھڑے یک ٹک اسے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ آرام سے دوسری عمارت تک پہنچ گیا
👇
تو لوگوں نے تالیوں کی بھرمار کر دی اور اس کی خوب تعریف کی۔ اس نے لوگوں کو مسکرا کر دیکھا اور بولا،
"کیا آپ لوگوں کو یقین ہے میں واپس اسی رسٌی پر چلتا ہوا دوسری طرف پہنچ جاؤں گا؟"
لوگ چلٌا کر بولے
"ہاں ہاں تم کر سکتے ہو"
اس نے پھر پوچھا
"کیا آپ سب کو بھروسہ ہے؟
" لوگوں نے کہا
👇
ہاں ہم تم پر شرط لگا سکتے ہیں۔ اس نے کہا، "ٹھیک ہے، کیا آپ میں سے کوئی میرے بیٹے کی جگہ میرے کاندھے پر بیٹھے گا؟ میں اسے بحفاظت دوسری طرف لے جاؤں گا۔"
اس کی بات سن کر سب کو سکتہ سا ہو گیا۔ سب خاموش ہو گئے ۔

یقین الگ چیز ہے، بھروسہ الگ
👇
Read 4 tweets
Nov 26
دو میٹھے بول۔۔۔

یہ ہیں مسز ہیلن۔ میری محلےدار، انتہائی سلجھی ہوئی، ہنستی مسکراتی ایک روایتی خاتون، ایک بیوہ، چار بچوں کی ماں
بہت سی داستانیں کہتیں چہرے کی جُھریاں، زندگی کے ان گنت تجربوں کے عکاسی کرتے چاندی سے بال، 70 فیصد سے زیادہ بینائی سے محروم آنکھیں جنہوں نے زندگی کے
👇
لاتعداد نشیب و فراز دیکھے

وقت کا ستم کہیے یا یہاں کا کلچر، بچے ایک ایک کر کے جوان ہوئے اور اپنے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کر کے اپنے ماں باپ سے الگ ہوتے گئے

15 سال قبل بےپناہ محبت کرنے والا شوہر بھی ہمیشہ کا ساتھ چھوڑ گیا
ادھر لندن میں اکثر لوگ اپنے بوڑھے ماں باپ کو ساتھ
👇
رکھنے کے بجائے اولڈ ہوم میں داخل کروا دیتے ہیں، یہی مسز ہیلن کے بچوں نے بھی کرنے کی کوشش کی مگر بچوں کے لاکھ جتن اور منانے کے باوجود مسز ہیلن نے اولڈ ہوم میں رہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ
"باقی کی تمام عمر بھی اسی گھر میں گزاروں گی جہاں میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی رہی ہوں،
👇
Read 16 tweets
Nov 25
ایک آدمی جو بُتوں کا پجاری تھا وہ ایک جگہ بیٹھ کر یا صنم یا صنم کی تسبیح پڑھ رہا تھا وہ یا صنم کہتے کہتے رات کو تھک گیا تو اسے اونگھ آنے لگی جب اونگھ آئی تو اس کی زبان سے یا صنم کی بجائے یا صمد کا لفظ نکل گیا جیسے ہی اس کی زبان سے یہ لفظ نکلا تو اللہ رب العزت نے فورا فرمایا،
👇
لبّیک یا عَبدی

میرے بندے میں حاضر ہوں مانگ کیا مانگتا ہے

فرشتے حیران ہو کر پوچھنے لگے اے اللہ یہ بُتوں کا پجاری ہے اور ساری رات بت کے نام کی تسبیح کرتا رہا ہے اب نیند کے غلبہ کی وجہ سے آپ کا نام نکل گیا ہے اور آپ نے فورا متوجہ ہو کر فرمایا اے میرے بندے تو کیا چاہتا ہے؟
👇
اس میں کیا راز ہے؟؟

اللہ تعالی نے فرمایا میرے فرشتوں وہ ساری رات بتوں کو پکارتا رہا اور بُت نے کوئی جواب نہ دیا جب اس کی زبان سے میرا نام نکلا اگر میں بھی جواب نہ دیتا تو مجھ میں اور بت میں کیا فرق رہ جاتا؟؟

جو پروردگار اتنا مہربان ہو کہ بندے کی زبان سے نیند کی حالت میں بھی
👇
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(