دریا کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا سارا سال خشک رہتا تھا جب بارشیں ہوتی تو اس میں پانی بہتا نظر آتا لیکن وہ پانی گہرا نہ ہوتا اس لئے اس میں بچے بڑے نہاتے نظر آتے گاؤں میں چند چھوٹے گھر تھے کچھ کچی مٹی سے بنے ہوئے اور کچھ پکی اینٹوں سے لیکن وہ سب گھر ایک جیسے ہی لگتے تھے اب
👇
چند دنوں سے شہر کی جانب سے پکی اینٹوں سیمنٹ،گارڈر سریوں اور لکڑی کے دروازوں کھڑکیوں سے بھری ٹرالیاں آرہی تھی جلال الدین نے اپنا تین کمروں کا کچا گھر مسمار کردیا تھا اور اب وہاں پکا مکان بن رہا تھا تھوڑے ہی عرصے میں یہاں شہروں میں دکھائی دینے والے گھروں جیسا گھر بن گیا
👇
صحن کے آگے بڑا سا دروازہ
اونچا برآمدہ
خوبصورت بل کھاتی سیڑھیاں
چھت کے احاطے پر جالی دار چبوترہ
گاؤں کے لوگ اس گھر کو حیرت اور رشک سے دیکھتے۔ سب جانتے تھے جلال الدین کا بیٹا غیر ملک کمانے گیا ہے وہاں سے خاصی رقم اس کے پاس آرہی ہیں وہ عام آدمی سے بڑا آدمی بن گیا تھا اس کا سب سے
👇
یارانہ تھا لیکن اب وہ بات کرتا تو اس کے لہجے میں رعونیت بھری ہوتی
کوئی پوچھتا
”کیا حال ہے جلال؟“
”کیا بتاؤں یار
آج تمہاری بھابھی نے مرغ پلاؤ کے ساتھ قورمہ بھی بنالیا ساتھ کھیر تیار کر لی پیٹ بھر کر کھالیا اب طبعیت کچھ بھاری سی ہے"
کوئی پوچھتا
" آج کل کیا ہورہا ہے جلال الدین،
👇
بڑے دنوں سے ہمیں ملے نہیں"
وہ جواب دیتا
"بس یار
ہر تیسرے دن شہر جانا پڑتا ہے شاپنگ کرنے کبھی گھر کا فرنیچر لینے کبھی کپڑے خریدنے اور کبھی گھر کی آرائش کی چیزیں خریدنے ذرافرصت نہیں لوگوں سے ملنے کی“
سوال کرنے والا عجب حسرت آنکھوں میں لئے وہاں سے چلا جاتا
جلال کے اس بدلتے رویے
👇
کا سب سے زیادہ دکھ اس کے بڑے بھائی جمال کو ہوا جلال نے اپنی بیٹی کی منگنی بچپن میں ہی جمال کے بیٹے سے کردی تھی جمال کے بیٹے نے اب چھوٹی سی دکان کھول لی تھی جمال نے جب جلال الدین سے اس کی بیٹی کی رخصتی کی بات کی تو وہ عجب بے رخی سے بولا
"دیکھو بھائی میری بیٹی اب بڑے گھر میں
👇
رہتی ہے وہ تمہارے دو کمروں کے کچے مکان میں نہیں رہ سکتی اپنے بیٹے سے کہو وہ ایسا ہی گھر بنوائے“
" لیکن لالہ
اس نے نئی دکان کھولی ہے ہماری ایسی حیثیت نہیں کہ تمہارے جیسا گھر بنواسکیں آپ کے پاس پیسہ آگیا ہے تو آپ ہمیں اپنے قابل نہیں سمجھتے“
جمال کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے
👇
"ہاں یہی سمجھ لو"
جلال نے منہ موڑلیا۔ جمال نے منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا اور جمال دل برداشتہ ہوکر وہاں سے چلا آیا۔اس گاؤں میں ایک اور گھر تھا جو باقی گھروں سے بہتر تھا اس میں رہنے والا ممتاز گاؤں کے دوسروں لوگوں سے مالی لحاظ سے بہتر سمجھا جاتا تھا وہ غریب لوگوں کو قرض دیتا
👇
لیکن وصولی کے لیے انہیں بہت تنگ کرتا اور ان کی قیمتی چیزیں ہتھیا لیتا تھا۔ جامو دودھ والے کی ماں کا آپریشن ہوا تو اس نے ممتاز سے بیس ہزار روپے ادھار مانگ لیے ممتاز نے اسے ادھار تو دے دیا لیکن جلد ہی واپسی کے لیے تنگ کرنے لگا جامو کبھی اپنی محنت کی کمائی سے ہزار دو ہزار روپے
👇
ادھار کی واپسی کی صورت میں بناتا تو ممتاز غصے سے کہتا قسطوں میں ذرا ذرا سی رقم نہیں لوں گاپوری رقم دے۔ اور جب جامو پوری رقم کا بندوبست نہ کرسکا تو وہ اس کی بھینس کھول کر چل پڑا جامو منتیں کرنے لگا بھائی دیکھ ہمارا گزارا ہی اس بھینس کے دودھ پر ہے دودھ بیچ کر ہی کچھ کماتا ہوں
👇
بھینس تم لے گے تو ہم کیا کریں گے بھوکے مرجائیں گے۔ مرجا بھوکا میں کیا کروں،
جس دن بیس ہزار روپے لاکر دوں گے بھینس لے جانا جامو آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کرسکااسی گاؤں میں ایک گھر نور محمد کمہار کا تھا وہ مٹی کے برتن بناتا تھا اور شہر جاکر بیچتا تھا اس کا چھ سالہ بیٹا ایک ٹانگ
👇
سے معذور تھا نور محمد بہت محنت سے برتن بنا کرایک کمرے میں جمع کررہا تھا اس کا بیٹا پوچھتا؟۔
"ابا جی اتنے سارے برتن ہم کیا کریں گے؟"
نور محمد پیار سے جواب دیتا
"بیٹا جب بہت سے برتن بکے گئے تو ہمارے پاس زیادہ پیسے جمع ہوجائے گے پھر ہم ان پیسوں سے تمہاری ٹانگ کا علاج کرائیں گے"
👇
"پھر میں چلنے لگوں گا؟ابا جی کیا دوسرے بچوں کی طرح دوڑیں لگاؤں گا؟"
"ہاں میرے بچے نور محمد اسے سینے سے لگالیتا"
نور محدمحمد کے گھر کے ساتھ ہی مائی رحمت کا گھر تھااس کا بیٹا وسیم شہر میں ملازمت کرتا تھا وہ اکیلی رہتی تھی اور سارا مہینہ اس کا انتظار کرتی ،وہ یکم تاریخ کو
👇
تنخواہ لے کر آتا اپنی ماں کے حوالے کرتا دو دن رہتا اور واپس شہر چلا جاتا اس طرح ہر گھر کی ایک کہانی تھی،چند دنوں سے شدید بارشیں ہوگئی تھیں اتنی بارش پہلے کبھی نہ ہوئی تھی گلیوں میں کافی پانی جمع ہوچکا تھاسارے گاؤں والے پریشان تھے اور اللہ سے بارش رک جانے کی دعائیں مانگ رہے تھے
👇
اس بار بھی یکم تاریخ آگئی مائی رحمت نے وسیم کی پسند کا ساگ اور گڑوالے چاول بنائے تھے وہ بڑی بے چینی سے بیٹے کا انتطار کر رہی تھی اچانک مسجد میں اعلان ہوا
"بھائیوں اور بہنوں دریا میں سیلاب آگیا ہے گاؤں کو سخت خطرہ ہے جتنی جلدی ہوسکے اپنے گھر چھوڑدو پرانے کنویں کے پاس جو اونچے
👇
ٹیلے ہیں ان پر جمع ہوجاؤ"
مائی رحمت نے صحن کا دروازہ کھولا اور اپنے بیٹے کی راہ تکنے لگی
لوگ گھروں سے نکل کر ٹیلے کی طرف بڑھ رہے تھے وہ سخت پریشان تھے نہ صرف ان کے گھر اور گھر کا سازو سامان بہہ جانے کا خدشہ تھا بلکہ ٹیلے دور ہونے کی وجہ سے ان کی جانیں چلے جانے کا خوف بھی تھا
👇
جن کے پاس بیل گاڑی یا کوئی تانگہ تھا اس نے نہ صرف اپنا کنبہ اس پر بٹھا لیا تھا بلکہ سمٹ سمٹا کر دوسروں کو بھی بیٹھنے کی جگہ دے دی تھی،جلال بھی پریشان ہوگیا اپنی بیٹی اوربیوی کے ساتھ باہر نکل آیا تھا اس کے قریب سے کوئی بیل گاڑی یا تانگہ گزرتا وہ ساتھ لے جانے کی التجا کرتا لیکن
👇
کوئی اس کے لئے جگہ نہ بنا سکاجلال کو محسوس ہورہا تھا لوگ نکل جائے گے اور وہ وہی رہ جائے گا سیلاب کا ریلا آئے گا اسے اس کے گھر والوں سمیت بہا کر لے جائے گا اچانک اس کے قرین گدھا گاڑی رکی اس میں جمال اور اس کے بیوی بچے بیٹھے ہوئے تھے ساتھ ضروری سامان تھا
"آجاؤ لالہ"
👇
جمال نے پکارا۔ اس نے اپنا سامان نیچے پھینک دیا اور جگہ بنادی جلال نے احسان مند نظروں سے بھائی کو دیکھا اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ گدھا گاڑی میں بیٹھ گیا نور محمد کمہار نے اپنے بیٹے کو کندھوں پر بٹھالیا تھا اس نے دیکھا مائی رحمت دروازے میں کھڑی ادھر اُدھر دیکھ رہی ہے اور سخت
👇
پریشان ہے نور محمد نے آواز دی
"ماسی۔ آجاؤ،، دیر کیوں کررہی ہوں ابھی سیلاب آئے گا اور تمہیں بہا کر لے جائے گا" "مجھے اپنے بیٹے کا انتظار ہے میں اگر یہاں سے چلے گی تو وہ مجھے کہاں ڈھونڈے گا۔“
" پہلے اپنی جان بچاؤ"
نور محمد زور سے بولا
"زندگی ہوتو بچھڑے مل ہی جاتے ہیں"
👇
رحمت مائی بنے کھانا رومال میں باندھ لیا تھا وہ نور محمد کے ساتھ چل پڑی ۔ جامو نے اپنی ماں کو ایک تانگے میں سوار کردیا تھا اور خود پیدل جارہا تھا،بچاؤ۔بچاؤ جامو کو پیچھے سے آواز سنائی دی اس نے مڑکر دیکھا ممتازلڑ کھڑاکر چل رہا تھا اور پھر وہ بارش کے پانی میں گر گیا جامو نے بھاگ
👇
کر اسے پانی میں کھڑاکیا اور بولا میرا کندھا پکڑلو اور میرے سہارے چلو ممتاز کچھ دیر اس کے سہارے چلا لیکن پھر گرنے لگا مجھے بخار ہے مجھ سے چلا نہیں جارہا وہ ہانپتے ہوئے بولا۔ ممتاز دبلا پتلا چھوٹے قد کا آدمی تھا زیادہ بھاری نہ تھا جامو نے اسے کندھوں پر اٹھالیا گوکہ اسے اٹھا کر
👇
پانی میں چلنا آسان نہ تھا لیکن جامو نے ہمت نہ ہاری۔گاؤں کے سب لوگ ٹیلے پر بیٹھے تھے اب کوئی چھوٹا بڑا امیر غریب نہ تھاسب کا ایک ہی جیسا حال تھا بھوکے پیاسے بے بس اور مجبور سب روٹی کے چند ٹکڑوں کے لئے محتاج تھے نہ سونے کے لیے بستر تھا نہ سر پر کوئی چھت
اللہ کے سوا ان کا کوئی
👇
آسرا نہ تھا سب کی زبان اور دل پر اللہ کا نام تھا ایک سرکاری گاڑی آئی انہیں کھانا اور پانی کی بوتلیں دے کر چلی گئی سب مل بانٹ کر کھارہے تھے رحمت مائی بڑی دیر سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ شاید اس کا بیٹا آجائے اس نے بھی رومال کھول کر کھانا نکالا اور سب کے آگے رکھ دیا ممتاز کا
👇
جسم بخار کی وجہ سے ٹوٹ رہا تھا وہ نیچے پڑا ہائے ہائے کررہا تھا جامو آگے بڑھا اس نے پانی میں رومال بگھویا نچوڑا اور ممتاز کے ماتھے پر لگاتا رہا
بخار کچھ کم ہورہا تھا جامو اس کی ٹانگیں دبانے لگا اسے محسوس ہوا ممتاز اسے تشکر بڑی نظروں سے دیکھ رہا ہے گاؤں میں سیلاب آچکا تھا حد نظر
👇
تک پانی ہی پانی تھا گھر اور فصلیں ڈوب چکی تھیں امدادی ٹیمیں اپنا کام کررہی تھی خدا خدا کرکے پانی اترا لوگ گاؤں میں واپس لوٹے تو گھروں کے کافی حصے ٹوٹ چکے تھے،جلال الدین کے مکان کے کچھ حصوں میں دراڑیں پڑچکی تھیں اور صحن کی دیواریں گر گئی تھیں مائی رحمت کا بیٹا وسیم بھی شہر
👇
سے آچکا تھا وہ سب کو جمع کرکے بولا ہماری اکیلے کوئی زندگی نہیں ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے تو اللہ بھی ہمارے ساتھ دے گا پہلے بھی اپنے گھر خود بنائے تھے اور اب بھی مل کر اپنے گھر دوبارہ بنالیں گے اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کریں گے ہماری بستی پھر سے آباد ہوگی سب لوگوں نے اس کی
👇
ہاں میں ہاں ملائی اور اپنے گھر تعمیر کرنے لگے جمال بھی کچی مٹی سے اپنا گھر بنانے لگا تو اس کا بھائی جلال آیا اور بولا جمال میرے صحن کی پکی اینٹے لے جاؤ اوراس سے اپنا گھر بناؤ اور،،،،وہ آپ کا صحن؟جما ل حیرت سے بولا فی الحال مٹی کے گارے سے بنالوں گا پھر کبھی پکا بھی کرلوں گا
👇
پہلے تمہارا گھر بننا چاہیے آخر میری بیٹی نے اسی گھر میں تمہاری بہو بن کر آنا ہے جمال نے جلال کو گلے لگالیا،جامو بھی اپنے گھر میں اینٹے لگا رہا تھا تو ممتاز آگیا اس کے ساتھ جامو کی بھینس بھی تھی وہ بولا یہ رسہ تڑا کر جانے کہاں بھاگ گئی تھی بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر لایا ہوں یہ لو
👇
اپنی بھینس مگر وہ تمہارا قرض؟جامو حیران رہ گیا تھوڑا تھوڑا کر کے اتر ہی جائے گا اکٹھے پیسے دینے کی ضرورت نہیں ممتاز پیار سے جامو کا کندھا تھپتھپا کر بولا خوشی سے جامو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے نور محمد بہت دکھی تھا وہ بولا گھر تو میں بنا ہی لوں گا مگر میرے سارے برتن ٹوٹ گئے
👇
اور بہہ گئے ہیں اب میں کیا بیچ کر بیٹے کا علاج کراؤں گا وسیم بولا تمہارا بیٹا ہم سب کا بیٹا ہے ہم سب مل کر پیسے جمع کریں گے اور اس کا علاج کرائیں گے نور محمد نے خوش ہوکر وسیم سے ہاتھ ملایا وسیم نے اپنے دوسرے ہاتھوں سے جامو کا ہاتھ پکڑ لیا اور جامو نے جمال کا
اور یوں سب
👇
ایک دوسرے سے جڑتے گئے سب ایک ہوگئے
ایک دوسرے سے جڑتے گئے سب ایک ہوگئے
Copied
ایسی ہی پاکستان کی کہانی بھی ہے
روتے، ہنستے ،پاکستان آگے بڑھ رہا تھا، جیسے تیسے مشکل حالات سے نکلنے کا آسرا بنتا نظر آ رہا تھا کہ رجیم چینج نامی بلا نے ہنستے بستے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا
کھڑا کیا،
پاکستانی قوم کو شاباش ہے کہ اس بار گونگے بہرے نہیں بنے،اٹھ کھڑے ہوئے
کہہ دیا کہ ہم #غلام_نہیں_ہیں
بلا کے سہولت کاروں نے آواز اٹھانے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے
ان پر تشدد کیا، انہیں برہنہ کیا
مگر اس بار #ٹکر_کے_لوگ ملے
بار بار، ہر بار، جب جب وطن نے پکارا
👇
ڈٹ کر کھڑے ہو گئے،
ایک سرپھرے نے تو سہولت بھری زندگی چھوڑ کر اپنی جان دیار غیر میں حق پر نثار کر دی
مگر
"خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا"
پھر وہ دن آیا جب "بلا" کا سب سے بڑا سہولت کار دفع ہوا
قوم نے #یوم_دفع منایا
اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم اب متحد ہوتی ہے یا پھر ٹکڑوں میں
👇
بٹ جاتی ہے
وکلاء برادری،صحافی برادری، تاجر برادری، ینگ ڈاکٹرز، کسان برادری، فلاں، فلاں، فلاں
اب نجات بس اس میں ہے، کہ ایک قوم بن کر ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں
اپنے ہر ہم وطن کو پکڑے جانے، ننگے کئے جانے پر مل کر آواز اٹھائیں
اتحاد میں اتنی برکت ہے کہ ابابیلیں ہاتھیوں
👇
کو بُھس بنا سکتی ہیں
آنے والا سہولت کار اگر رجیم چینج کا ہی مہرہ ہے تو جدوجہد ختم نہیں ہوتی ہے
اور زور لگانا پڑے گا
اور صعوبتیں اٹھانی پڑیں گی
مگر ایک دن جال ٹوٹ ہی جائے گا
رات کتنی ہی سیاہ
کتنی ہی تاریک ہو
سورج نکل ہی آتا ہے
👇
ان اندھیروں کا جگر چیر کے نور آئے گا
تم ہو فرعون، تو موسیٰ بھی ضرور آئے گا
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو
آمین یا رب العالمین
گھر قریب آ چکا تھا،
میں نے بائیک مین روڈ سے اپنی گلی کی طرف موڑ لی
لگتا تھا کہ لائٹ گئی ھوئی ہے
اچانک ایک نقاب پوش بائیک کے ایک دم سامنے آ گیا میں نے گھبرا کر بریک لگائی اور اس سے قبل کہ میں کچھ سمجھ پاتا
اس نے بائیک کے قریب آ کر پستول میری
👇
کنپٹی سے لگا دیا اور آواز کو دباتے ہوئے بولا
موبائل نکالو
میں نے فوری طور پر نتائج کی پرواه کیے بغیر اس کو زور کا دھکا دیا
اور وه جو بائیک سے چپکا کھڑا تھا
اس فوری ری ایکشن کے لیے شائد تیار نہ تھا
لڑکھڑا کر زمین پر گر گیا
میں نے اُسکو جا لیا
اور تین چار تھپڑ کس کس کر لگائے
👇
اسکے ہاتھ سے پستول گر چکا تھا
میں نے اسکو قابو کیا
اور ایک ہاتھ سے اسکا نقاب اتار دیا
اسکی شکل دیکھ کر میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی، وه کوئی اور نیں
میرا اپنا نوکر تھا جو کہ آج چھٹی پر تھا
میرے غصے کی انتہا نہ رہی میں چیخ پڑا
احسان فراموش مجھے شک تیری آواز سے ہی ھو گیا تھا
👇
مینڈکوں کا ایک گروہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ان میں سے دو بے دھیانی میں ایک گڑھے میں جا گرے
باہر ٹھہرے مینڈکوں نے دیکھا کہ گڑھا ان دو مینڈکوں کی استطاعت سے زیادہ گہرا ہے تو انہوں نے اوپر سے کہنا شروع کر دیا۔ ھائے افسوس، تم اس سے باہر نہ نکل پاؤ گے کوششیں
👇
کر کے ہلکان مت ہونا، ہار مان لو اور یہیں اپنی موت کا انتظار کرو۔
ایک مینڈک کا یہ سب کچھ سن کر دل ہی ڈوب گیا، اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ چند کوششیں تو کیں مگر اس جان لیوا صدمے کا اثر برداشت نہ کر پایا اور واقعی مر گیا۔
دوسرے کی کوششوں میں شدت تھی اور وہ جگہ بدل بدل کر، جمپ لگاتے
👇
ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اوپر والے مینڈک پورے زور و شور سے سیٹیاں بجا کر، آوازے کستے ہوئے، اسے منع کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ مت ہلکان ہو، موت تیرا مقدر بن چکی ہے۔ لیکن مینڈک نے اور زیادہ شدت سے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور واقعی میں باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
👇
میراثی نے نئی گرم چادر لی
اور کندھے پہ رکھکر گاؤں کی چوپال میں جا بیٹھا
نمبردار نے چادر دیکھی تو اپنے بیٹے کی بارات میں استعمال کے لئے مانگ لی
بارات گاؤں سے نکلی تو چادر دلہے کے کندھے پر تھی
بارات کو دیکھ کہ ایک شخص نے پوچھا
بارات کِہندی اے؟
میراثی جھٹ سے بولا
👇
بارات نمبرداراں دی اے تے
چادر میری اے
چوھدری کے لوگوں نے میراثی کی دھلائی کر دی کہ یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی؟
بارات تھوڑی اور آگے گئی
تو سامنے آتے ایک شخص نے پوچھا
بارات کِہندی اے؟
میراثی جلدی سے بولا
بارات نمبرداراں دی اے تے
چادر وی اوہناں دی اپنی اے
ایک دفعہ پھر پھینٹی پڑی
👇
کہ تو نے تو اس طرح بول کر لوگوں کو چادر کے بارے جان بوجھ کر شک ڈال دی
اب جو تیسری مرتبہ راستے میں پھر کسی نے پوچھا! کہ اتنی شاندار بارات کس کی ہے؟
تو میراثی نے پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جواب دیا
کہ بارات تو نمبرداروں کی ہے
لیکن چادر دا مینوں بالکل وی نہیں پتہ
👇
حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ
" تمہاری جیب میں کچھ ہے؟"
شاگرد نے کہا
" میرے پاس دو درہم ہیں"
حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا
" یہ تین درہم ہوجائیں گے،
👇
قریب ہی ایک آبادی ہے، تین درہم کی روٹیاں لے آؤ"
وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ👇
روٹی پہلے ہی کھا لوں،چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لےکر حضرت عیسیٰؑ کےپاس پہنچا
آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا
" تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں؟"
اس نےکہا
" دو روٹیاں ملی تھیں،ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی"
انڈیا میں امرتسر سے تقریباً 35 کلو میٹر دور واہگہ باڈر کی جانب ایک "پُل کنجری" ہے۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی محبوبہ، بیوی مہارانی موراں سرکار کے لیے بنایا تھا۔
کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔ رقص کے چرچے دور دور تک تھے۔ ایک مرتبہ
👇
شاہی برادری میں ناچ کے لیے بلایا گیا، وہاں اکیس سالہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کو دیکھا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا
موراں، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر رقص کے لیے شاہی برادری، لاہور آنے جانے لگی ایک مرتبہ شاہی برادری پر رقص کے لیے آ رہی تھی تو ہنسالی نہر میں موراں کا جوتا
👇
گِر گیا جب ننگے پاؤں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں پہنچی، مہارجہ نے احوال سن کر بنسالی نہر پر فوراً "پل موراں" بنا دیا تا کہ آنے جانے میں آسانی رہے۔
دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں، امرتسر یا لاہور میں ملتے تو روائتی و مذہبی سماج کے لیے یہ تعلق ناقابلِ برداشت تھا لہذا
👇
ایک آدمی دو بہت اونچی عمارتوں کے درمیان تنی ہوئی رسی پر چل رہا تھا۔ وہ بہت آرام سے اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ڈنڈا پکڑے ہوئے سنبھل رہا تھا۔ اس کے کاندھے پر اس کا بیٹا بیٹھا تھا۔ زمین پر کھڑے تمام لوگ دم سادھے کھڑے یک ٹک اسے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ آرام سے دوسری عمارت تک پہنچ گیا
👇
تو لوگوں نے تالیوں کی بھرمار کر دی اور اس کی خوب تعریف کی۔ اس نے لوگوں کو مسکرا کر دیکھا اور بولا،
"کیا آپ لوگوں کو یقین ہے میں واپس اسی رسٌی پر چلتا ہوا دوسری طرف پہنچ جاؤں گا؟"
لوگ چلٌا کر بولے
"ہاں ہاں تم کر سکتے ہو"
اس نے پھر پوچھا
"کیا آپ سب کو بھروسہ ہے؟
" لوگوں نے کہا
👇
ہاں ہم تم پر شرط لگا سکتے ہیں۔ اس نے کہا، "ٹھیک ہے، کیا آپ میں سے کوئی میرے بیٹے کی جگہ میرے کاندھے پر بیٹھے گا؟ میں اسے بحفاظت دوسری طرف لے جاؤں گا۔"
اس کی بات سن کر سب کو سکتہ سا ہو گیا۔ سب خاموش ہو گئے ۔