‘Queer notes on Begum Akhtar,’ exploring caste, sexuality and tawaif subcultures in postcolonial India.
“In 1949, when Begum Akhtar sang in a national broadcast of All India Radio (AIR), she was an instant hit. Born in 1914 to a tawaif (courtesan) mother, she (1/6)
performed in her first formal concert in 1934 as Akhtari Bai Faizabadi. She sang in elite gatherings, in royal courts, and performed in Bombay films. Her transition from Akhtari Bai into Begum Akhtar began when she married an English-educated barrister from Lucknow – an (2/6)
event considered both a scandal and a miracle by wider society. Her husband made only one condition: that she would not perform in public, a condition to which she readily agreed. But five years into the marriage, Begum Akhtar experienced mental health issues and her (3/6)
condition deteriorated rapidly. Doctors advised her husband that she might survive if she were allowed to sing. Her 1949 performance at AIR Lucknow met with great success, and as long as she lived, success followed her. She died in 1974, a few hours after performing in (4/6)
a private gathering in Ahmedabad, leaving behind a rich legacy of ghazal and thumri genres of singing associated with tawaif kothas, or salons. By reinventing these genres, and bringing them from kothas to the respectability of AIR and concert halls, Begum Akhtar gave (5/6)
them dignity. One cannot give any account of twentieth-century ghazal and thumri singing without invoking her name.”
20۔ اکتوبر 1972 کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے بلوچستان کے گورنر غوث بخش بزنجو نے ژوب کی تحصیل ہندوباغ کا نام تبدیل کرکے مسلم باغ رکھ دیا
27۔جون 1973 ریڈ کراس کا نام تبدیل کرکے ریڈ کریسنٹ رکھ دیا گیا جس کی توثیق 23 جنوری 1974 میں قومی اسمبلی نے بھی کردی
24۔جنوری 1974 رویت (1/4)
ہلال کمیٹی کی تشکیل کا اعلان
31۔مئی 1974 پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے
19۔جون 1974 سرحد اسمبلی نے احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی قرارداد منظورکرلی
30۔ جون 1974 قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے 22 ارکان نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد پیش (2/4)
کردی
23۔جولائی 1974 ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صوم وصلوۃپڑھنا لازمی قرار دے دیا گیا
7ستمبر 1974 قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا
24۔ دسمبر 1974 وزیراعظم بھٹو نے داتا گنج بخش کے طلائی دروازے کا افتتاح (3/4)
Further examples of inappropriately named and/or awarded gongs abound. The Nobel Peace Prize list is littered with them.
Abiy Ahmed Ali, the prime minister of Ethiopia since 2 April 2018 won the 2019 Prize for his work in ending the (1/6)
20-year post-war territorial stalemate between Ethiopia and Eritrea. Yet as early as January 2021 Simon Tisdall of the Guardian wrote that the gong should be returned as:
‘Despite Abiy’s claims that the war is over and no civilians have been harmed, sporadic fi ght i ng (2/6)
cont i nues, an analyst familiar with government thinking said. Thousands of people have died, about 50,000 have fl ed to Sudan, and many are homeless, sheltering in caves. Intentional artillery attacks have destroyed hospitals and health centres in an echo of the (3/6)
یہ گزشتہ سال کا واقعہ ہے۔ میں لاہور ہائیکورٹ میں ایک خاتون جج کی عدالت میں اپنے کیس کی باری کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ایک مقدمے کی آواز پڑنے پر وکیل صاحب پیش ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر سائل بھی موجود تھے۔ یہ تقریبا آج کل کے ہی دن تھے۔ کچھ سردی اور کرونا کا معاملہ (1/9)
بھی تھا۔ ماسک لگانے کی پابندی تھی۔ کیس سننے سے پہلے جج صاحبہ سائل کی طرف متوجہ ہوئیں۔ آپ نے ماسک ناک سے نیچے کر کے منہ پر کیوں ٹکایا ہوا ہے۔ وکیل صاحب نے سائل کو ہلکا سا ٹہوکا دیا اور اس نے فورا ماسک ٹھیک کر لیا۔
جج صاحبہ نے بطور سزا اس دن اس سائل کا کیس سننے سے انکار (2/9)
کر دیا۔ کورٹ آفیسر کو کہا کہ اگلی تاریخ ڈال دو۔
بزرگ سائل نے بہتیری معذرت کی کہ غلطی سے ایسا ہوا۔ سردی اور دھند میں بڑے دور سے سفر کر کے صبح 9 بجے عدالت پیشی پر پہنچا ہوں۔ پہلے ہی اتنے عرصے بعد کیس کی باری آئی ہے۔ مہربانی کریں سماعت کر لیں۔ اگلی تاریخ نہ ڈالیں۔ جج صاحبہ (3/9)
How we treat our heroes!
معروف اداکار افضال احمد لاہور کے جنرل اسپتال میں انتقال کرگئے۔
جنرل اسپتال انتظامیہ نے لیجنڈ اداکار سید افضال احمد کو الگ سے بیڈ نہیں دیا۔ دوران علاج ان کے بیڈ پر دوسرا مریض بھی موجود تھا۔
افضال احمد گزشتہ 21 برس سے فالج کے مرض میں مبتلا (1/4)
وہیل چیر تک محدود تھے۔نامور اداکار افضال احمد جھنگ کے سید گھرانے میں پیدا ہوئے، انہوں نےایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے اشفاق احمد کے ڈرامے اُچے برج لاہور دے (کارواں سرائے ) میں صرف18برس کی عمر میں50 سالہ بوڑھے کا کردار ادا کرکے سب کو حیران کر دیا تھا۔
اداکاری (2/4)
کے شوقین افضال احمد نے اپنے 35 سالہ کیریئر کے دوران اردو، پنجابی، پشتو فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے اپنی بہترین اداکاری کے جوہر کے باعث 90 کی دہائی میں خوب شہرت کمائی۔فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد زبان پر لقوہ پڑگیا جس کے باعث وہ قوت گویائی سے محروم ہوگئے اور معذوری (3/4)
کوئی بیس برس پرانی بات ہے کہ ایک نجی یونیورسٹی میں مجھے ایک کورس پڑھانے کی دعوت دی گئی جس کا عنوان تھا:
Thinking and Learning
زیادہ تر طلبہ کا مضمون کمپیوٹر سائنس تھا اور انھوں نے ایف ایس سی کیا ہوا تھا۔ (1/20)
لیکچرز میں بعض مثالیں دیتے ہوئے میں نے ماؤزے تنگ اور سٹالن کا بھی ذکر کیا۔ ایک دو لیکچروں میں تو وہ خاموش رہے لیکن پھر سب نے بیک آواز پوچھا کہ یہ کون لوگ تھے۔ ایک بار تو میں صدمے سے گنگ سا ہو گیا پھر میری زبان سے بس یہی الفاظ نکلے، زمانہ واقعی بہت بدل گیا ہے۔
ایک دن (2/20)
مجھے اس یونیورسٹی سے فون آیا کہ ڈین صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں اس لیے میں کلاس سے کچھ پہلے وہاں آ جاؤں۔ جب میں وہاں پہنچا تو ڈین صاحب نے دو اور سینیر اساتذہ کو بھی بلا رکھا تھا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ معمول کی میٹنگ نہیں ہے بلکہ کچھ سیریس معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ بتانا (3/20)
جنرل باجوہ کو قوم ہی ٹھیک نہیں ملی؟
ملک کا سب سے طاقتور سپہ سالار کہہ گیا ہے کہ اب میں گمنامی کی زندگی گزاروں گا۔ بادشاہت سے گمنامی کے اس سفر میں جتنی دولت اور جتنی بے عزتی جنرل باجوہ نے کمائی ہے شاید ہی کسی سپہ سالار نے کمائی ہو۔
دولت انھوں نے ان قانونی طریقوں سے (1/12)
کمائی ہے جو فوج اور ریاست نے مل کر وضع کر رکھے ہیں۔ بے عزتی انھوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔
میں نے کئی بزرگوں سے پوچھا کہ آپ نے اپنے زمانے میں کسی ایوب خان کی، کسی یحییٰ کی اتنی بےعزتی سُنی تھی۔ سب نے کہا نہیں۔ جنرل ضیا اور مشرف کی بےعزتی ہم نے آنکھوں سے دیکھی ہے، لیکن (2/12)
وہ بھی چند دن کی تھی، ان میں سے بھی کسی کو غدار نہیں کہا گیا۔
میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر ان کے حق میں یہ دلیل دینے کے لیے تیار بیٹھا تھا کہ انھوں نے غلطی کی ہے غداری نہیں کی۔ فوج کے پاس اپنے طور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا ٹھیکہ رہا ہے، اس میں کئی نسلوں سے ہم نوا (3/12)