یہ تصویر امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ دولت مند ریڈ انڈین سردار جارج بینٹ George Bent کی ہے جو کہ امریکہ کی پہاڑی ریاست کولوراڈو Colorado میں مقیم تھا اور جس کا اصلی ریڈ انڈین نام تو کچھ اور تھا اور خاصا مشکل تھا مگر اسے امریکی
👇
جارج بینٹ کے نام سے پکارتے تھے جو کہ شایان Cheyenne قبیلے کا سردار تھا اور جو کہ کہنے کو تو جنگلی جانوروں کی کھالوں کا کاروبار کرتا تھا مگر حقیقت میں وہ امریکی حکومت کا مخبر تھا جو کہ حکومت کو ان ریڈ انڈین قبائل کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتا تھا جو کہ حکومت کے خلاف برسرپیکار تھے جس
👇
کے عوض اسے امریکی حکومت کی طرف سے کثیر معاوضہ ملتا تھا اور حکومت نے ہزاروں ایکڑ زرعئ اراضی بھی اس کے نام منتقل کردی مگر 1918 کی سردیوں میں اسے شدید زکام ہوا جس کی وجہ سے اس پر بےتحاشا کپکپی طاری ہوگئ اور وہ سردی سے بری طرح ٹھٹھرنے لگا جس کے بعد وہ گرم موسم والی جنوبی ریاست
👇
اوکلاہوما Oklahoma شفٹ ہوگیا تاکہ اس کی اس شدید زکام سے جان چھوٹے لیکن اسے کچھ افاقہ حاصل نہیں ہوا اور وہ بلآخر زکام سے طاری ہونے والی کپکپی سے بری طرح ٹھٹھر کر مرگیا اور آج تک ریڈ انڈین قبائل اسے غدار قرار دے کر اس پر لعنت بھیجتے ہیں !
Copied
👇
موت ہر جگہ اور ہر کسی کو آجاتی ہے
نمرود کی طرح اونچے برج، مینار بنالو، یا شداد کی طرح مصنوعی جنت
مچھر کی صورت میں بھی موت پہنچ ہی جاتی ہے
پیچھے رہ جاتے ہیں تو بس اعمال
جو ہر صورت آپ کا پیچھا کرتے ہیں
چاہے آپ اوکلاہاما چلے جائیں، یا بیلجیئم
قانون کی کلاس میں استاد نے ایک طالبعلم کو کھڑا کر کے اُس کا نام پوچھا اور بغیر کسی وجہ کے اُسے کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا طالبعلم نے وجہ جاننے اور اپنے دفاع میں کئی دلیلیں دینے کی کوشش کی مگر اُستاد نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے فیصلے پر مُصر رہا طالبعلم شکستہ دلی سے اورغمزدہ
👇
باہر تو نکل گیا مگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظلم جیسا سمجھ رہا تھاحیرت باقی طلبا پر تھی جو سر جھکائے اور خاموش بیٹھے تھے
لیکچر دینے کا آغاز کرتے ہوئے استاد نے طلبا سے پوچھا
قانون کیوں وضع کیئے جاتے ہیں؟
ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر کہا
لوگوں کے رویوں پر قابو رکھنے کیلئے
👇
دوسرے طالب علم نے کہا
معاشرے پر لاگو کرنے کیلئے
تیسرے نے کہا
تاکہ کوئی طاقتور کمزور پر زیادتی نہ کر سکے
استاد نے کئی ایک جوابات سننے کے بعد کہا
یہ سب جوابات ٹھیک تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا
تاکہ عدل و انصاف قائم کیا جا سکے
استاد نے کہا
جی، بالکل یہی
👇
وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا ملکوال اور منڈی بہاوالدین کی عدالتوں میں لوگوں کی پہلی ترجیح وہ ہی ہوتا تھا فیس لاکھوں میں لیتا تھا اور قتل عمد کے ملزموں نہیں مجرموں کو بھی بری کروا دیتا تھا پھر وقت بدلتا ہے اس کی عمر ڈھل جاتی ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے آنکھوں کی بینائی اس
👇
حد تک کم پڑ جاتی ہے کہ سامنے کھڑی اپنی سگی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا
روپیہ پیسہ سارا اولاد بانٹ لیتی ہے بیٹے اپنی بیویوں بچوں کو لے کر یورپ سیٹ ہو جاتی ہیں بیٹی کی شادی جاگیردار گھرانے میں ہو جاتی ہے اور ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ صاحب گھر میں اکیلے پڑ جاتے ہیں اولاد چونکہ مظلوموں
👇
کی دھوکے سے ہتھیائی گئی دولت پر پلی بڑھی ہوتی ہے یا ظالموں کے ظلم چھپانے کے لئیے دی گئی دولت پر جوان ہوئی ہوتی لہذا اس میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی باپ کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی راضی نہیں ہوتا پھر متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کے لئیے چوبیس گھنٹے کے لیے ملازم ملازمہ
👇
ایک وقت تھا بارات کی آمد پر دلہن کو چھپا دیا جاتا
سسرالی گھر پہنچنے پر ہی گھونگھٹ اٹھایا جاتا. مغرب سے پہلے دلہن نئے گھر پہنچ چکی ہوتی
دلہن پر بھی الگ سا روپ اور نکھار آتا سادگی اور حیا کے حصار میں گویا چاند کا ٹکڑا ہوتی
پھر بیوٹی پارلر ز کو
👇
فروغ حاصل ہوا ۔ اسے نمائشی پیس کی حیثیت دینا بیوٹی پارلر ہی کا اعجاز تھا۔ یہی حیا کا جنازہ نکالنے کا پہلا قدم بھی تھا۔
وہ پہلی دلہن جو بیوٹی پارلر سے سج دھج کر سامنے بیٹھی ہوگی شرم سے آدھ موئی ہوئی جا رہی ہوگی
یادگار لمحات کو قید کرنے کے نام پر مووی کا آغاز ہوا۔ لمحات تو
👇
کیا قید ہوتے وہ تو شادی کو کسی اور طرف ہی لے گئے
یہی مقصد بن گیا
وہ لڑکیاں جنھیں کسی نامحرم نظر نے نہ چھوا تھا شادی کے روزمووی کی صورت ذہنی ٹارچر کا نشانہ بننے لگیں ۔نگاہیں اٹھانا ،ملانا، پوز بنانا ایک نامحرم کیمرہ مین کی نامناسب حرکات کو بغیر پس و پیش قبول کر لیا گیا
👇
سرجن ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نےمیڈیکل کی فیس کے لیے اسی کالج میں مزدوری کی، جہاں انکا داخلہ ہوا تھا
بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والے سرجن ڈاکٹر محمد اعظم بنگلزئی نے میڈیکل کی تعلیم کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج سے حاصل کی مگر اُنھوں نے اسی کالج کی عمارتوں کی تعمیر میں بطور
👇
مزدور کام بھی کیا اور بعد میں اس سے منسلک ہسپتال میں سرجن بھی رہے
ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کی زندگی کی کہانی ہم نے ان کے کلینک میں نہیں سنی بلکہ ان کے ساتھ ان تمام جگہوں پر گئے جہاں اُنھوں نے تعلیم کے حصول کے دوران مزدورکی حیثیت سے کام کیا
بولان میڈیکل کالج کی پرانی عمارت جو کہ اب
👇
مکمل طور پر کالج کے ہاسٹل میں تبدیل ہو گئی ہے، کے مختلف حصوں کو دکھاتے ہوئے ڈاکٹر اعظم ہاسٹل کے کمرہ نمبر 16 کے سامنے دیر تک کھڑے رہے جہاں کالج میں داخلے سے لے کر فارغ التحصیل ہونے تک وہ مقیم رہے۔
ان کے موبائل فون میں یہاں مزدوری کرنے کی ایک یادگار تصویر بھی محفوظ ہے، جس میں
👇
نوے برس کے ضعیف آدمی کے پاس پیسہ نہیں تھا۔ مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا اور غصے میں بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔
سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی
👇
اور چند پرانے برتن ۔ پیرانہ سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنا سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ یہ احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا واقعہ ھے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی
👇
وارث نہیں ھے
دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھار پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہوا کہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزرا
اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا
تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں
ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا
👇