قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے۔ اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے
اس خاتون نے اپنے طور پر بے حد چالاکی سے
👇
کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔
خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا۔ میرا خیال ہے
👇
کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ برائے کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔
دکان دار نے کہا۔ خاتون! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں
کچھ ایسا ہی پاکستانی قوم کے ساتھ بھی ہو
👇
رہا ہے
پچھتر سال سے ایک ہی پیالہ دکھا کر ہمیں مختلف "بلیاں" بیچی جارہی ہیں
جو سارا دودھ نہ صرف خود پیتی ہیں بلکہ اپنے تاجر کو بھی بہت انصاف سے پہنچا دیتی ہیں
اور ہمارے بچے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں
کہیں بھٹو زندہ ہوتا ہے، تو کہیں کسی کے احسانات گنوائے جاتے ہیں
کہیں میاں کے نعرے
👇
وجتے ہیں تو کہیں شہداء کا لہو بیچا جاتا ہے
اس سارے کھیل میں بقول خواجہ آصف
عوام کی ہڈیوں سے گوشت تک نوچ لیا گیا ہے
اب شاید ہڈیوں کا سودا ہو رہا ہے
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو
اللہ ہی پاکستان کی حفاظت فرمائے
آمین یا رب العالمین
رات کا آخری پہر تھا، سردی تھی کہ ھڈیوں کے اندر تک گھسی جارھی تھی۔ بارش بھی اتنی تیز تھی جیسے آج اگلی پچھلی کسر نکال کر رھے گی، میں اپنی کار میں دوسرے شہر کے ایک کاروباری دورے سے واپس کا آرھا تھا اور کار کا ھیٹر چلنے کے باوجود میں سردی محسوس کر رھا تھا، دل میں ایک ھی خواہش تھی
👇
که بس جلد از جلد گھر پہنچ کر بستر میں گھس کر سو جاؤں۔ مجھے اس وقت لمبل اور بستر بھی سب سے بڑی نعمت لگ رھے تھے، سڑکیں بالکل سنسان تھیں حتی کہ کوئی جانور بھی نظر نہیں آرھا تھا
لوگ اس سرد موسم میں اپنے گرم بستروں میں دبکے ھوئے تھے ، جیسے ھی میں نے کار
اپنی گلی میں موڑی مجھے کار
👇
کی روشنی میں بھیگتی بارش میں ایک سایہ نظر آیا، اس نے بارش سے بچنے کے لیے سر پر پلاسٹک کے تھیلے جیسا کچھ اوڑھا ھوا تھا اور وہ گلی میں کھڑے پانی سے بچتا بچاتا آھستہ آھستہ چل رھا تھا،مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ اس موسم میں بھی کوئی شخص اس وقت باھر نکل سکتا ھے
اور مجھے اُس پر ترس آیا
👇
ایک گاؤں میں غریب نائی رہا کرتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا
مشکل سے گزر بسر ہورہی تھی، اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا۔ نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ صرف ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔ جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا
👇
اور سو جاتا.
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا
وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی
👇
لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔
اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔ جب وہ شخص اس نائی کے پاس سے گزرا اوراسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا توغصے سے بولا
میں میٹرک میں تھا اور چھ ماہ بعد میرے امتحان تھے اورگھر والوں کوخدشہ تھا کہ کہیں میں فیل نہ ہوجاؤں۔گھر میں بات چلی کہ مجھے ٹیوشن پڑھانی چاہیے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ذرائع آمدن محدود تھے اور ابا جی اپنی آمدنی میں سے میری ٹیوشن کے لیے ماہانہ ’’ڈیڑھ ہزار" روپیہ نکالنے سے قاصر تھے
👇
انہی دنوں پتا چلا کہ ہمارے محلے میں چھ گلیاں دور ایک خدا ترس‘ ماسٹر شفیع صاحب رہتے ہیں جو بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھاتے ہیں
طے پایا کہ اب سے میں ماسٹر شفیع کے پاس ٹیوشن پڑھنے جایا کروں گا
اُن دنوں ٹیوشن تو ہوتی تھی لیکن پیسے ایڈوانس نہیں لیے جاتے تھے لہذا میں نے ماسٹر شفیع کے پاس
👇
جانا شروع کر دیا۔ ان کے گھر کی بیٹھک میں لگ بھگ بیس طالبعلم ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ماسٹر شفیع اتنی محبت اور انہماک سے ہمیں پڑھاتے تھے کہ ٹیوشن کا ٹائم ختم ہونے کے بعد بھی دل کرتا کہ ان کے پاس بیٹھے رہیں۔ان کی بیٹھک کا اندرونی دروازہ ایک اور چھوٹے سے کمرے میں کھلتا تھا ‘ یہ کمرہ
👇
333 قبل مسیح میں سکندر اعظم ( Alexander The Great ) اپنے سو جہازوں کے بحری بیڑے کے ساتھ جن پر تیس ہزار ملاح اور چالیس ہزار فوجی سوار تھے اپنے ملک یونان سے دنیا فتح کرنے کے لیۓ روانہ ہوا تو یہ بحری بیڑہ سب سے پہلے ترکی میں
👇
لنگر انداز ہوا کیونکہ ترکی یونان سے سب سے نزدیک تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ یونان کی حریف " فارس " ( ایران ) کی ساسانی سلطنت کا صوبہ تھا اور بلآخر "سارڈیس" ( موجودہ سارت ) ، " ملیٹس " اور "ہیلی کارناسس" ( موجودہ بورڈم ) کے مقامات پر اس وقت کے فارس کے شہنشاہ " دارا سوئم "
👇
( Darius III ) کی افواج کو شکست دینے کے بعد اس نے 334 قبل مسیح تک ترکی پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا جس کے بعد اس نے ترکی کا نام ایشیاۓ کوچک (Asia Minor) سے تبدیل کرکے اناطولیہ (Anatolia) رکھ دیا جو کہ قدیم یونانی زبان کا لفظ ہے اور جس کے معنی ہیں"طلوع آفتاب کی سرزمین"کیونکہ ترکی
👇
ایک نوجوان نے کراچی کی ایک کمپنی سے جاب چھوڑی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں کینیڈا چلا گیا، وہاں اس نے ایک بڑے ڈیپارٹمینل اسٹور میں سیلزمین کی پوسٹ پر ملازمت کیلئے اپلائی کیا، اس اسٹور کا شمار دنیا کے چند بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا جہاں سے آپ سوئی سے جہاز تک سب کچھ خرید سکتے ہیں
👇
اسٹور کے مالک نے انٹروویو کے دوران پوچھا
"آپکے ڈاکومنٹس کے مطابق آپ کا تعلق کسی ایشیائی ملک پاکستان سے ہے، پہلے بھی کہیں سیلزمینی کی جاب کی "
"جی میں آٹھ سال کراچی پاکستان کی ایک کمپنی میں جاب کر چکا ہوں"
مالک کو یہ لڑکا پسند آیا
"دیکھو
میں آپ کو جاب دے رہاہوں
آپ نے اپنی
👇
کارگردگی سے میرے فیصلےکو درست ثابت کرنا ہے
کل سے آ جاؤ
گڈلک"
اگلے دن وہ پاکستانی لڑکا اپنی جاب پر پہنچا
پہلا دن تھا
طویل اور تھکا دینے والا دن
بہرحال شام کےچھ بج گئے
مالک نے اسے اپنے دفتر میں بلایا
"ہاں بھئی
اپ نے آج دن میں کتنی سیل ڈیل کیں؟"
"ایک"
اس نے جواب دیا
"صرف ایک"
👇
ایک استاد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے چھٹی پر جانا پڑا تو ایک نئے استاد کو اس کے بدلے ذمہ داری سونپ دی گئی
نئے استاد نے سبق کی تشریح کر چکنے کے بعد، ایک طالبعلم سے سوال پوچھا
اس طالب کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے۔ استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی، مگر اس
👇
نے ایک بات ضرور محسوس کر لی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی
طلباء کی نظروں، حرکات اور رویئے کا پیچھا کرتے آخرکار استاد نے یہ نکتہ پا لیا کہ یہ والا طالب ان کی نظروں میں نکما، احمق، پاگل اور غبی ہے، ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کسی پاگل سے ہی پوچھا
👇
جیسے ہی چھٹی ہوئی، سارے طلباء باہر جانے لگے تو استاد نے کسی طرح موقع پا کر اس طالب کو علیحگی میں روک لیا۔ اسے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا، کل اسے ایسے یاد کر کے آنا جیسے تجھے اپنا نام یاد ہے، اور یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نا چلنے پائے۔
دوسرے دن استاد نے کلاس میں جا کر
👇