پروین شاکر
ـــ
پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج میں اردو کا لیکچر تھا۔ پروفیسر ثروت اللہ قادری ’زون‘ میں تھے۔
بھئی کیا نام کہ کسی لکھاری کے قبولِ عام و عوام ہونے کی اس سے بڑھ کر کیا سند ہوگی کہ اس کا کہا کوئی شعر، کوئی مصرعہ، کوئی فقرہ ضرب المثل بن جائے۔
🧵
ہم آپ اکثرسنتےہیں کہ بچےہمارےعہدکےچالاک ہوگئے، یہ خوبصورت ترکیب پروین شاکرکامصرعہ ہےاورکیانام کہ پوراشعرذرا ملاحظہ کیجیے
جگنوکودن کےوقت پرکھنےکی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کےچالاک ہوگئے
اب ذری اسی غزل کاایک اورشعردیکھیے
بستی میں سگ گزیدہ جتنےتھےسب کےسب *
دریاکےرُخ بدلتےہی تیراک ہوگئے
آپ کو معلوم ہے کہ ہائیڈروفوبیا، پانی کا خوف کتے کے کاٹنےکے نتیجےمیں پیدا ہونے والی کیفییت ہے۔ سگ گزیدہ کیا نام کہ وہ شخص جسے کتے نے کاٹ کھایا ہو اور دیکھیے غالب نے اسی ترکیب کے ساتھ کیا عمدہ مضمون باندھا ہے
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئنے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
اور بات پانی کی آ ہی نکلی ہے تو پروین کا ایک اور خوبصورت شعر دیکھیے، ان کی غزل کا مطلع ہے
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
صاحبو، دسمبر1994کی وہ شام آج بھی یاد ہے جب پاکستان ٹیلیوژن کے خبرنامے میں پروین شاکرکی سناؤنی آئی
انٹرمیڈیٹ کے فارغ التحصیل طالبعلم نےاسوقت تک لاھورسے آگے کا پاکستان نہیں دیکھا تھا
اسلام آبادکےسفرکاستارہ طلوع ہونے اورپروین شاکرکی آرام گاہ پرفاتحہ پڑھنےکے وعدے کووفا ہونےمیں کئ سال لگ گئے
اسلام آباد کے H-8 قبرستان میں جنازہ گاہ والے گیٹ سے داخل ہوں تو تھوڑا آگے پروین شاکر ابدی نیند سورہی ہیں
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
حواشی
ـــ
* یہ غزل پروین شاکر کے مجموعے خوشبو میں شائع ہوئی اور اصل مصرعے میں لفظ سگ گزیدہ نہیں آب گزیدہ ہے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
صاحب ایک تو ہمیں اسوقت علم نہیں تھا اور ہوتا بھی تو استاد کو ٹوکنے کی ہمت بھلا کس میں تھی
اورایمان سےبتائیےکہ اگرٹوک دیتےتو غالب کےباندھےدلکش مضمون اورپروین کی ایک اور دلفریب غزل کے تعارف سے محروم نہ رہ جاتے!
مرشدی نےبھی تو آب گم کے شہرِ دوقصہ میں جہاں اپنے استاد ماسٹر فاخر حسین کا ذکر آیا یہ کہہ کر سٹارٹ لیا ہے کہ ’صاحب! اگلے وقتوں کےاستادوں کی شان ہی کچھ اور تھی!‘
اور پھر مطلب کی بات پر آتے ہوئے بشارت کے منہ سے کہلواتے ہیں کہ اپنی فاش غلطی میں بھی عالمانہ شان پیدا کرنے کے لیے غلطی کو تسامح اور التباس کہنا انہوں نے ماسٹر فاخر حسین سے ہی سیکھا۔ نامعلوم کا لفظ استادوں کو شوبھا نہیں دیتا کہ ماسٹر فاخرحسین ہی کے الفاظ میں
ہمارے یہاں نامعلوم و ناتحقیق تو صرف ولدیت ہوا کرتی ہے۔ اب ’آب گزیدہ‘ کی جگہ ’سگ گزیدہ‘ اور مصرعے کے الفاظ کا معمولی سا ہیر پھیر پروفیسر ثروت اللہ قادری کا تسامح تھا یا التباس، اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
ـــ
تھریڈ کے آغاز میں پروین شاکر کی تصویر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انکی طالبعلمی کے دنوں کی ہے اور Flickr ویب سائٹ پر ڈاکٹر غلام نبی قاضی نے بشکریہ ونٹیج پاکستان اسے اپنی کولیکشن میں شامل کیا ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ زخم سارے بے دوا
یہ چاک سارے بے رفو
ـــ
جنوری 1972، کراچی میں منعقدہ ایک ریلی میں ایک لاکھ سےکچھ اوپرکا مجمع ہے
مائیک پر ایک سوال گونجتاہے
آپ کیاکہتےہو، کیامیں شیخ مجیب کورہاکردوں؟
وطن کےدولخت ہوجانےکی تازہ چوٹ کھائےنامرادلوگوں نےایک گومگوکےعالم میں اپنےنجات دہندہ کودیکھا
🧵
اورپھرہجوم سےایک تائیدی شوربلند ہوا
ان کالیڈر ایک تشکرکےعالم میں جھکااورگویا ہوا
آپ لوگوں نےمیرے کندھوں سےایک بھاری بوجھ اتار دیا
آغا محمد یحییٰ خان کو نظر بند اور پوری عسکری قیادت کو بیک بینی و دوگوش چلتا کرکے (بچے کھچے) پاکستان کے بیک وقت پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر
اور اگلے صدر کا عہدہ سنبھال لینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر کا آخری عشرہ اہلِ وطن کو یہ سبق پڑھاتے گزارا کہ پاکستان کی تقسیم ناقابلِ قبول ہے اور قومی وقار کو مجروح کرنے والوں سے پورا پورا بدلہ لیا جائے گا۔
اُس لہو کے نام
جو ۔ ۔ ۔
پاکستان کے لیے بہا
اور ۔ ۔ ۔
پاکستان میں اجنبی ٹھہرا
ـــ
ڈھاکہ سٹیڈیم کا یہ منظر امریکی جریدے ٹائم کے 3 جنوری 1972 کے شمارے میں چھپی ایک رپورٹ سے لیا گیا ہے، جس کا عنوان تھا ’جیت کا انتقام‘
🧵
دو نوجوان مکتی باہنی کےگوریلوں کی ٹانگوں سےلپٹےزندگی کی بھیک مانگ رہےہیں۔ کچھ ہی دیر میں ان کےدو اور ساتھیوں سمیت چاروں ایک وحشیانہ تشدد سہنےکے بعد سنگینوں کی نوک پر جھول جائیں گے۔ ایک پاگل ہوتا قہقہے لگاتا ہجوم جس میں چھوٹے چھوٹےبچے بھی شامل ہیں اس چوہرےقتل سےحِظ اُٹھائے گا۔
کم و بیش نو ماہ پر محیط پاک فوج کا بنگالی عوام کا بہیمانہ قتل، املاک کی تباہی اور عورتوں کی عصمت دری وہ عوامل تھے جسکو بنیاد بنا کر اوائلِ دسمبر میں ہندوستان نےمشرقی پاکستان پر حملہ کردیا تھا۔ ایک ہاری ہوئی جنگ 16 دسمبر کو اپنے منتقی انجام کو پہنچی تو انقلاب کی لہر میں ڈھل کر
’الکھ نگری‘ کا مانی
’دل بھٹکے گا‘ کا جمال
مُودی کا احمد بشیر
ـــ
2003 کی ایک دوپہر کا ذکر ہےکراچی کے اردو بازار میں ویلکم بک پورٹ میں ایک کتاب دیکھنےکو اُٹھائی تو پسِ ورق کی جھلکیاں پڑھتےپڑھتے اسی روانی میں کتاب کا پیش لفظ بھی کھول لیا۔ عنوان تھا(پیش لفظ کا)’ناول لکھنےکی ترکیب‘
’میرا دوستانہ مشورہ ہےکہ آپ اس ناول کو کہیں کہیں سےدیکھ لیں۔ اگر آپ اخلاقی آدمی ہیں تو اس ناول کو ضرور پڑھیں کیونکہ اس میں بد اخلاقی کی باتیں بہت ہیں۔‘
میں نےجھٹ کتاب خرید لی
یہ اور بات کہ چھٹی پرآئےپاک فوج کےکپتان کوجب وہ پشاور واپسی کا ٹکٹ بذریعہ خیبرمیل اےسی سلیپر کٹا چکا تھا
595 روپےکافی مہنگےپڑگئے۔ اس دورمیں فیروزسنزکی کتابیں مہنگےداموں ہی بکتی تھیں، سنگ میل پبلی کیشنزکی مچائی اندھیر نگری کو ابھی دیر تھی۔
ہماری نوبیاہتا بیگم ایک آہ بھرکربولیں اتنےپیسےایک کتاب پر اڑا دیئے! ایسا کیا ہے اس میں؟
ان سےکس منہ سےکہتا کہ اس میں بد اخلاقی کی باتیں بہت ہیں۔
قصور کی اللہ وسائی
سونک مِکسز اور ’آواز دے کہاں ہے‘
ـــ
آپ بھی کہیں گےکہ ہماری یادوں کی تان اگرکبھی فوجی چھاؤنی سے نکلتی ہےتوسیدھی یو ای ٹی کے لاہور پر جا کےٹوٹتی ہے۔ اس میں ہمارانہیں یونیورسٹی کےابتدائی رومانوی دور اور 95 الیکٹریکل کی یار دلدارجوڑی کاقصور ہے۔
میڈم کی برسی پر🧵
یادوں کےاس طاقچےپررکھاایک ٹیپ ریکارڈر ہے، سپورٹس کومپلیکس کےکارڈبورڈ کی دیواروں والےکیوبکلزمیں سےایک کابک ہےاور شاہد ہے۔ پکےرنگ اور اُجلی ہنسی والا شاہد جس سے دوستی اسی دن گانٹھی گئی تھی جس دن ہمارے یار نے اقبال بانو کی آواز میں فیض کو سنوایا تھا
دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی یے تری دلدار نظر کی شبنم
تو صاحب ٹیپ ریکارڈر وہی ہے مگر کیسٹ فرق ہے۔ سونک کی آڈیو کیسٹس کا دور دورہ تھا اور مارکیٹ میں
Sonic Mixes RAP-10 Golden Oldies
نیا نیا آیا تھا
کنجری کا پل
طوائف کی مسجد
ـــ
کہنے والے کہتے ہیں کہ مسجد وزیرخان کے مینار پر سرزد ہوئی گستاخی کے کارن مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مائی موراں کو جان کے لالے پڑ گئے تھے کہ انہیں مسجد کے احاطے میں دفن میراں بادشاہ سید محمد اسحاق گزرونی کی بددعا لگ گئی تھی۔
🧵
لاہور پر سکھوں کی حکومت کی بسم اللہ مسلمانوں پر بہت بھاری پڑی تھی۔ لاہور کی تمام مساجد بشمول بادشاہی مسجد یا تو اصطبل بنادی گئی تھیں یا پھر گولہ بارود کے ڈپو۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شہر لاہور کے سر سے اللہ اکبر کی صداؤں نے اپنا آنچل اُٹھا لیا تھا۔
صرف ایک مسجد اپنی اصل شکل میں برقرار تھی، دہلی گیٹ والی مسجد وزیر خان، مگر وہاں سےبھی اذان کی صدا بلند نہیں ہوتی تھی کہ مہاراجہ نے اس مسجد کو اپنے شغلِ ناؤ نوش و دیگر مشاغل کے لیے منتخب کرلیا تھا۔
رنجیت سنگھ کےدربار کی لکھت پڑھت کافی بہترحالت میں مختلف واسطوں سے ہم تک پہنچتی ہے۔
’شیر تھا جو نہیں رہا‘
امی جی کا سب کچھ، تنویر کا دوست، سلیمانکی کا شبیر
ـــ
چھٹے نشانِ حیدر کی کہانی
’جب میجر ہدایت براوو کمپنی کی کمان لینے پُل کی طرف جارہے تھے تو انہیں ایک جیپ آتی دکھائی دی۔ انہوں نے اشارے سے روکا اور جیپ کی پچھلی طرف گئے۔ دیکھا میجر شبیر کا خون میں لت پت جسم
دوسری لاشوں کے اوپر اس طرح پڑا تھا کہ ان کی ٹانگیں جیپ سے باہر لٹک رہی تھیں۔ پرنم آنکھوں سے میجر ہدایت نے ڈرائیور کو جانے کے لیے کہا اور آنکھوں میں نمی کا غبار لیے اس وقت تک جیپ کو تکتے رہے جب تک وہ نظر سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ پھر بوجھل قدموں کے ساتھ پُل کی طرف چل دیے۔
پورے بریگیڈ پر سوگ کی کیفیت طاری تھی۔ ہر کوئی کہہ رہا تھا، شیر تھا جو نہیں رہا۔ شیر تھا جو نہیں ہے اب کیا ہوگا؟‘
اوپر بیان کیا گیا واقعہ کرنل اشفاق نے فاتح سبونہ میں لکھا ہے۔ کرنل صاحب ہمیں بتاتے ہیں محاذ سے میجرشبیرشریف کی شہادت کی خبر ایک ٹیلیفون تھا جو پڑوس میں آیا