پرانے زمانے میں مالاکنڈ پہاڑی کے دامن میں ایک گاوں آباد تھا۔ جب بھی کوئی مسافر گاڑی حادثے کا شکار ہو کر پہاڑ سےگر جاتی یہ لوگ جاکر ان کا سامان لوٹتے۔
یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
ان کا امام مسجد میں نماز کے بعد کچھ یوں دعا پڑھتا:
"اے پروردگار بہت عرصہ ہوا ہے کوئی گاڑی نہیں
گری۔۔۔۔۔۔ کوئی باراتیوں سے بھری بس گرا دے جن کی عورتیں سونے سے لدی ہوئی ہوں۔۔۔۔ ۔۔۔۔
رب کریم کوئی برطانیہ پلٹ کی گاڑی گرادے جس کا بیگ سامان سے اور جیب پاونڈ سے بھرا ہو ۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔
ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر ہم سے کوئی بھول ہوئی ہو تو رحم کا معاملہ کر ورنہ ہمارے بچے بھوکے
مر جائیں گے۔"
پیچھے سے مقتدی آمین ثمہ آمین کی صدا لگاتے۔۔۔۔۔
پشتو کہاوت ہے:
"دا چا پہ شر کی دا چا خیر یی۔"
جس کا ترجمہ ہے:
"کسی کے شر میں کسی کی خیر ہوتی ہے"۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم نے دوسروں کے شر میں اپنی خیر منائی ہے۔ ہم نے خود سے کچھ نہیں کیا نہ اپنے ادارے مضبوط
کئے نہ انڈسٹری بنائی نہ برآمدات بڑھائی۔ تعلیم صحت اور انصاف کسی شعبے پر محنت نہیں کی۔۔۔
*پچاس کی دہائی* میں ہم نے "سیٹو" اور "سینٹو" کے مزے اڑائے۔
*ساٹھ کی دہائی* میں سرد جنگ میں امریکہ کا ڈارلنگ بن کر یوٹو طیاروں کو اڈے دیکر ڈالر بٹورے۔
*ستر کی دہائی* میں بھٹو صاحب نے عرب
اسرائیل جنگوں میں جے کانت شکرے کا کردار نبھایا اور ڈائیلاگ بول بول کر مفت تیل کے مزے اڑائے۔
*اسی کی دہائی* میں روس افغانستان والے کھاتے میں ہم نے خوب "ریمبو تھری" بنا کر باکس آفس پر پیسے بنوائے۔
*نوے کی دہائی* میں کسی کا شر ہمارے ہاتھ نہیں آیا اور ہماری حالت بہت پتلی
ہوگئی۔
*دو ہزار* کے بعد رحمت خداوندی نے پھر جوش مارا اور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
اس شر کا جام لیکر ہم خوب جھومے، اسلحے اور ڈالروں کی برسات ہوئی۔
اس دفعہ ہم اکشے کمار بنے رہے کیونکہ
*"جو ہم بولتے وہ ہم کرتے ہیں اور جو نہیں بولتے وہ ڈیفنٹلی کرتے
ہیں"* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*اس کے بعد آٹھ سال ہوئے* کہ خدا ہم سے ناراض ہے اور ہمارے اردگرد کوئی شر نہیں ہورہا۔
حالت بہت خراب ہے ڈالر ڈبل سنچری کراس کر گیا ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔
آئیں سب مل کر اپنے رب کریم سے دعا مانگتے ہیں:
"اے تمام جہانوں کے مالک
امریکہ کا ایران پر حملہ کروادے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین اور امریکہ کی کوئی زبردست سرد جنگ شروع کرادے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
سعودی اور حوثیوں کی لڑائی ہمارے مکران ساحل تک پھیلا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روس اور یوکرین کی لڑائی میں
ہمیں فریق بنادے۔۔۔۔
*پروردگار ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر تو رحم کا معاملہ نہیں کرے گا تو ہم بھوکے مر جائیں گے*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ #copy
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
لندن میں ایک پاکستانی دوست ، کئی سالوں سے وہاں رہتا تھا ، ایک بار اس نے بتایا کہ میں وہاں ایک مقامی جوڑے کے ساتھ رہتا تھا ، ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ایک ہی مکان میں ایک پورشن میں وہ رہتے تھے اور دوسرا پورشن انہوں نے مجھے کرائے پر دے رکھا تھا ، اسی دوران ان کو ایک بیٹا پیدا ۔۔
ہوا ، ہمارے درمیان کبھی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی ، ہر ماہ کی آخر میں انہیں کرایہ ادا کر دیتا تھا ، ہمارے درمیان بارہ سالوں کی رفاقت رہی ، نہ کبھی انہوں نے مجھے کبھی کوئی تکلیف و رنج دیا اور نہ میری طرف سے ان کو شکایت کا موقع ملا ، ایک بار انہوں مجھ سے کہا کہ کل آپ کی
کیا مصروفیات ہیں ؟ میں نے کہا کل میری چھٹی ہے اور میں گھر پر ہی رہوں گا کوئی دوسری مصروفیت نہیں ہے ، تو انہوں نے بہت ہی خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگے مسٹر ظفر ! ہم آپ کے پاس ایک چھوٹی سی درخواست لیکر آئے ہیں
میں نے کہا جی پلیز فرمائیے
تو دونوں نے بتایا کہ ہمیں ایک انتہائی ۔۔
ساٹھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ سے انکار کرکے، مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ کرنے والے سرجن ڈاکٹر محمد خان ببر
کبھی آپ نے یہ سنا کہ ملک کے ٹاپ کلاس کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن ساٹھ لاکھ روپے مہینہ تنخواہ سے انکار کر دے؟
پاکستان ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے عظیم انسانوں کا ملک۔۔۔
ہے دنیا میں سب سے بڑے مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ ڈاکٹر ادیب رضوی کا سینٹر SIUT اور دنیا میں پہلا مفت لیور کڈنی ٹرانسپلانٹ سینٹر گمبٹ اور دنیا میں سب سے بڑی دل کا مفت اعلاج اور بائی پاس آپریشن کا ادارہ این آئی سی وی ڈی یہ پاکستان اور خاص طور پر سندھ ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر
محمد خان ببر نے بتایا کہ جب انہوں نے دوہزار پندرہ میں ڈاکٹر ادیب رضوی سے اجازت لے کر گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس جوائن کیا تو لاہور سے ایک بڑے اسپتال کی جانب سے رابطہ کیا گیا کہ وہ ان کو ماہانہ چالیس لاکھ روپے دینے کو تیار ہیں، وہ لاہور آجائیں۔ ڈاکٹر محمد خان نے انکار
جب روشنی کسی جسم سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں میں داخل ہوتی ہے تو اس جسم کا امیج ہمارے دماغ میں بنتا ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری آنکھوں میں موجود لینز دھندلے ہوتے جاتے ہیں جس کو عام زبان میں موتیا اتر آنا کہتے ہیں ۔ یہ ایک معمولی آپریشن ہوتا ہے ۔۔
جس میں مریض کے قدرتی لینز کو نکال کر آرٹیفیشل لینز ڈال دیتے ہیں ۔ جب بھی کسی کو یہ مسلہ ہوتا ہے وہ اچھے سے اچھا سرجن ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے مگر جو سب سے اہم چیز ہوتی ہے اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔ وہ ہے لینز۔ پاکستان میں جتنے لینز ڈالے جاتے ہیں وہ انتہائی گھٹیا کوالٹی۔۔
کے ہوتے ہیں، سرجن جتنا مرضی اچھا ہو جب لینز ہی گھٹیا ہے تو آنکھ میں امیج بھی گھٹیا ہی بنے گا ۔ اس وقت دنیا میں سب سے اچھے لینز امریکہ کی ایک کمپنی الکون (alcon) بناتی ہے ۔ وہ انسانی آنکھ کے اوپر اتھارٹی کمپنی ہے۔اگر آپ کے کسی پیارے کو موتیا اتر آۓ تو سرجن چاہے۔۔
عون چوہدری کی بیوی فلم اسٹار نور جوکہ پونکی پورنی کی مریدنی تھی۔عمرانڈو لنگڑا چور جو کہ عون چوہدری کا دوست ہے، عون چوہدری کی بیوی فلم اسٹار نور نے ہی عمرانڈو کو بشری پورنی سے متعارف کروایا۔اور پھر عمرانڈو نے بشریٰ پورنی
کی خاور مانیکا سے طلاق کروا کر شادی کر لی۔اسی دوران عون چوہدری کو بشریٰ پورنی کی بیٹی کی سہیلی پسند آ گئی
عون چوہدری نے فلمسٹار نور کو طلاق دے کر بشریٰ پورنی کی بیٹی کی کلاس فیلو اور سہیلی کے ساتھ شادی کر لی۔جس فلم اسٹار نور کو عون چوہدری نے طلاق دی اسی نور
1/3
کے ساتھ زلفی بخاری نے شادی کر لی۔
پھر بشریٰ پونکہ پورنی کی فرمائش پر عون چوہدری نے بشری پورنی کی بیٹی کی کلاس فیلو کو طلاق دے دی
جس سےپورنی کے سابق خاوند خاور مانیکا نے شادی کر لی جو تا حال قائم ہے۔
عون چوہدری ایک بار پھر چھڑا ہو گیا
مگر اس دوران زلفی بخاری کا
ایک پروفیسر صاحب انتہائی اہم موضوع پر لیکچر دے رہے تھے، جیسے ہی آپ نے تختہ سیاہ پر کچھ لکھنے کیلئے رخ پلٹا کسی طالب علم بے سیٹی ماری۔🙄
پروفیسر صاحب نے مڑ کر پوچھا کس نے سیٹی ماری ہے تو کوئی بھی جواب دینے پر آمادہ نا ہوا۔ آپ نے قلم بند کر کے جیب میں رکھا اور رجسٹر اٹھا کر چلتے۔۔
ہوئے کہا؛ میرا لیکچر اپنے اختتام کو پہنچا اور بس آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔😎
پھر انہوں نے تھوڑا سا توقف کیا، رجسٹر واپس رکھتے ہوئے کہا، چلو میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں تاکہ پیریڈ کا وقت بھی پورا ہوجائے۔
کہنے لگے: رات میں نے سونے کی بڑی کوشش کی مگر نیند کوسوں دور تھی۔ سوچا۔۔
جا کر کار میں پٹرول ڈلوا آتا ہوں تاکہ اس وقت پیدا ہوئی کچھ یکسانیت ختم ہو، سونے کا موڈ بنے اور میں صبح سویرے پیٹرول ڈلوانے کی اس زحمت سے بھی بچ جاؤں۔
پھر میں نے پیٹرول ڈلوا کر اُسی علاقے میں ہی وقت گزاری کیلئے ادھر اُدھر ڈرائیو شروع کردی۔
کافی مٹرگشت کے بعد گھر واپسی کیلئے
فوبیا کسی چیز کا ایسا غیر معقول خوف ہے جس کا خطرہ کم یا کوئی نہیں ہے۔
بہت سے غیر معمولی فوبیا ہیں جن کا بہت سے لوگ اپنی زندگی میں تجربہ کرتے ہیں۔
Spectorphobia
ماضی میں پیش آنے ولے تکلیف دہ واقعات کچھ لوگوں میں سپیکٹرو فوبیا کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس فوبیا میں
مبتلا افراد آئینے سے ڈرتے ہیں اور اپنے عکس کو دیکھنے سے گھبراتے ہیں۔
Kakorrhaphiophobia
kakorrhaphiophobia ناکامی کا ایک غیر
معمولی اور غیر معقول خوف ہے۔ اس فوبیا میں مبتلا افراد میں خود اعتمادی بہت کم ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ معمولی سی ناکامی یا
شکست کا خوف اس قدر شدید ہے کہ یہ انسان کو کچھ بھی کرنے سے روکتا ہے۔
Taphophobia
کچھ لوگوں کو زندہ دفن ہونے کا فوبیا ہوتا ہے جسے ٹیفوفوبیا کہا