1861 میں جرمن ماہرِ طبیعات (physicist) جون فلپ ریس نے ایک آلہ ایجاد کیا جو کہ موسیقی کو ترسیل یا ایک جگہ سے دوسری جگہ پر سامع کیلئے منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
اس کے علاوہ اوبرلن اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے دو اور مؤجد الیشا گرے اور 👇
اینٹونیو میوسی گراہم بیل کے زمانے میں ہی ٹیلیفون کی ایجاد پر کام کررہے تھے۔
گراہم بیل اور الیشا گرے نے ایک ہی دن ٹیلیفون کی ایجاد کی سند حاصل کرنے کیلئے اپنی ایجادات متعارف کروائیں جو کہ تنازعہ کا باعث بنی۔ سپریم کورٹ میں جب معاملہ گیا تو سپریم کورٹ کا جھکاؤ گراہم بیل کر طرف 👇
ہو گیا۔
اسی طرح اینٹونیو میوسی نے بھی گراہم بیل سے پہلے ہی ایک آلہ ایجاد کرلیا تھا جو کہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں بات کرنے کا ذریعہ تھا اور اپنی اس ایجاد کو گراہم بیل سے پہلے گردانتے ہوئے میوسی نے سندِ حق ایجاد کیلئے کیس دائر کیا لیکن بدقسمتی سے کیس لڑنے کے دوران ہی اس کی 👇
موت ہوگئی جس پر گراہم بیل کو ٹیلی فون کا مؤجد مان لیا گیا۔
جو کہ میری نظر میں سرا سر زیادتی تھی۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ❤️🙏❤️
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آؤ بچو سنو کہانی
ایک تھا راجہ
ایک تھی مائدہ محمد
پچھلے جون کی بات ہے کہ!
مجھے نعمان کہتے ہیں کہ مائدہ ایک ڈاکٹر صاحب آئے ہیں وہ بڑی تبلیغ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پیر جی ملتان شریف کے ہیں۔
میں نے اور بی جان نے کہا کہ یہ نواز شریف تو سنا تھا ملتان کب سے شریف ہو گیا؟👇
کہتے ہیں کہ سنو تو سہی۔
میں نے کہا سنائیں کہتے ہیں کہ دو دن بعد انہوں نے ختم رکھا ہے وہاں بلایا ہے تو میں جا رہا ہوں اور بیت کروں گا۔
میں نے کہا نعمان!
خبردار بیت صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے اگر آپ نے کسی اور بیت کی تو میں چھوڑ جاؤں گی۔
کہتے ہیں بس مجھے جانا ہے 👇
اور بی جان مجھے کہتی ہیں کہ مائدہ محمد اسے جا لینے دو۔
جس دن وہ گھر سے نکلے بی جان نے کہا کہ گاڑی نکال اس کے پیچھے جانا ہے۔
میں نے اور بی جان نے برقع پہن کر ان کا پیچھا کیا اور پہنچے ایک گھر کے باہر گاڑی دور پارک کی اور پیدل چل کر اس گھر میں چلی گئیں ہم دونوں جہاں نعمان داخل 👇
✓ جنرل سر فرینک والٹر مصروی قاتل
✓ جنرل گریسی قائد اعظم کا مبینہ قاتل
✓ اسکندر مرزا زانی اور شرابی
✓ یحیٰی خان زانی شرابی قاتل ملک دو ٹکڑے کرنے والا
✓ ایوب خان شرابی جنرل افتخار کا قاتل، محترمہ فاطمہ جناح کا قاتل
مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کا قتل عام کروانے والا ملک توڑنے میں سہولت کار۔
✓ ذولفقار علی بھٹو زانی شرابی ملک دو ٹکڑے کرنے کا ذمہ دار
✓ جنرل ضیاء الحق تہجد گزار ملک کو امریکی غلامی میں دینے کا ذمہ دار ملک میں دہشتگرد مذہبی جماعتیں بنانے کا ذمہ دار ملک میں کلاشنکوف کلچر اور 👇
ہیروئن لانے کا ذمہ دار
✓ جنرل اختر عبدالرحمٰن اوجڑی کیمپ سانحہ کا ذمہ دار
✓ جنرل گل حمید سانحہ اوجڑی کیمپ کے ذمہ دار
✓ جنرل وحید کاکڑ بینظیر بھٹو کو واپس پاکستان لانے کا ذمہ دار اور سو مربع زمین حاصل کی
✓ جنرل اسلم بیگ آئی جے آئی اور لوٹے خریدنے بیچنے کا ذمہ دار 👇
پیارے پاکستانیوں!
غلامی کی دو اقسام ہیں۔ایک جسمانی غلامی اور دوسری ذہنی غلامی۔ان دونوں غلامیوں کی تین وجوہات ہوتی ہیں۔ غربت، جنگ اور جہالت۔ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور انسان کی سب سے بڑی قوت اس کی ذہنی و فکری آزادی ہے۔جب انسان ذہنی طور پر آزاد ہو تو وہ ہر قسم کے حالات کا👇
مقابلہ کر سکتا ہے اور جسمانی طور پر غلام لیکن ذہنی طور پر آزاد قوم بہت جلد جسمانی آزادی حاصل کر لیتی ہے۔لیکن ذہنی غلامی میں مبتلا قوم اپنے آپ کو غلام ہی نہیں سمجھتی اس لیے آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ ہمارے مسالک، اکابرین، جاگیردار اور وڈیرے ہیں۔ہمارے👇
ہاں دلائل کی بجائے شخصیات کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ہمدردی کی نسل سے تعلق رکھتی یہ غلامی اْس غلام کی دوہری کمر کی طرح ہے جو پنجرے میں پڑے پڑے ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور پنجرے سے باہر نکلنے پر بھی ہم آہستہ آہستہ سیدھی ہوتی کمر کو پھر سے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ👇
ہمیں دینی، دنیاوی، اخلاقی، دماغی طور پر اتنا گِرا دِیا گیا ہے کہ ہم اچھے برے، حق اور سچ کا جانتے ہوئے بھی درست فیصلے نہیں کر سکتے۔
ایسا کیوں ہے؟
ہم وہ ہجوم ہیں جسے اگر عمران خان بھی قوم نہیں بنا سکا تو پھر نہ ہی سمجھیں۔
ہمارا بس چلے تو ہم گھر سے کسی کام کے لیے جاتے 👇
ہوئے اپنے کسی کزن، بھائی کو کہیں کہ بھائی بازار جا رہے ہو تو میری چار تصویریں کھچوا لانا مجھے کل پاسپورٹ بنوانا ہے۔
اے لو فیر آہو 😡
ہم نے نماز اللہ پاک کے لیے پڑھنی ہے لیکن دعائیں ہمیں پیروں سے مانگنی ہیں۔
تقریر کرتا ہوا ہمیں عمران خان اچھا لگتا ہے لیکن ووٹ ہمیں شیر کو ہی 👇
دینا ہے کیونکہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے اسی بہانے ہم بھی کھا لیں گے۔
اول تو کوئی غریب آدمی جج بن نہیں سکتا لیکن بن جائے تو شرافت سے فیصلے کرے گا تو وہیں بیٹھا ریٹائر ہو جائے گا اور اگر اوپر جانا ہے تو اسے کنجر الیٹ کلاس کا حصہ بننا پڑے گا۔
ہمیں جھوٹ، فریب، غیبت، چوری 👇
پیارے پاکستانیوں!
پاکستان میں قوم پرستی اور حب الوطنی متنازعہ موضوعات ہیں، یہ ہم پاکستانیوں کو کیا بناتے ہیں، اور اس سے کیسے ہم اپنی سرزمین اور قوم سے محبت کرتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ کس سے پوچھ رہے ہیں۔👇
ہماری قوم شناخت کا بڑا حصہ ہمارے تاریخی احساس اور ثقافت پر مشتمل ہے جبکہ خطے کی قدیم تہذیبوں کے ترکے کی جڑیں بھی کافی گہری ہیں، اسی طرح مذہب کا بھی اہم کردار ہے، مگر ہمارے نصاب میں شامل تاریخ کی کتابوں میں ہماری شناخت کے متعدد پہلوﺅں کا ذکر ہی موجود نہیں۔👇
نصاب میں یہ بتانے کی بجائے ہم کون ہیں، کی بجائے تاریخی حقائق میں ردوبدل کرکے ہمارے اپنی شناخت کے احساس کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا گیا ہے، اور ان کتابوں میں سب سے بڑا دھوکہ ان واقعات کے بارے میں جو ابھی تک ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔
👇
آؤ پاکستانیوں
سنو کہانی!
نہ تھا کوئی راجہ اور نہ ہی کوئی رانی!
🐓
ایک شخص نے ایک مرغا پالا تھا۔ ایک بار اس نے مرغا ذبح کرنا چاہا۔
مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا کوئی بہانا سوچا اور مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے اذان نہیں دینی ورنہ ذبح کردوں گا۔
مرغے نے کہا ٹھیک ہے آقا جو آپ کی👇
مرضی!
صبح جونہی مرغے کی اذان کا وقت ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے اذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پروں کو زور زور سے پڑپڑایا۔
مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کردوں گا۔
اگلے دن صبح اذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں👇
ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت گردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا۔
مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیے، اگلے دن اذان کے وقت مرغا بلکل مرغی بن کر خاموش بیٹھا رہا۔
مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔
اب کے بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کی👇