میرا وہ کالم جو کبھی کسی اخبار میں نہیں چھپ سکے گا
عفریت
میری شیلی ان دنوں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی تھی، مقروض ہونے اور قرض ادا نہ کرنے کے باعث لوگوں نے اسکا بائیکاٹ کر رکھا تھا، وہ اور اسکا بوائے فرینڈ پرسی بہت مشکل سے گزر بسر کر رہے تھے کہ انھی دنوں میری کو عجیب و +
غریب خواب آنے شروع ہوگئے
=========
زمانہ ہے ۱۸۱۸ کا اور یہ وہ وقت ہے جب دنیا میں سائینسی انقلاب کروٹ لے رہا تھا، یورپ میں درسگاہیں خانقاہوں کی جگہ لیتی جا رہی تھیں، سائِنسی تجربہ گاہیں کھل رہی تھیں اور دنیا پہلی بار اپنے آپ کو سائنسی نظر سے دیکھ رہی تھی، کچھ سائنسدان انسانی جسم+
پر بھی تجربات کر رہے تھے اسکی ساخت اسکی بناوٹ حتیٰ کہ روح۔ اس وقت کا متفقہ خیال یہی تھا کہ انسانی جسم میں روح کسی بجلی کے جھٹکے کے ذریعے ہی داخل کی جاتی ہے
====
میری شیلی نے اپنے خوابوں کا ذکر پرسی سے کیا جو کہ کچھ اس طرح تھا کہ اسے ایک شخص لوگوں کی قبریں کھود رہا ہے اور انکے ++
جسم کے حصے کاٹ رہا ہے، پرسی چونکہ دنیا میں ابھرتی نئی نئی سائنس میں دلچسپی رکھتا تھا میری کا خواب سن کر اسے کچھ انوکھا ہی خیال آیا
پرسی نے میری سے کہا کے کہ ہم اسی خواب کی بنیاد پر ایک ناول لکھتے ہیں
اور یہاں سے شروع ہوا اس شہرہِ آفاق ناول کا آغاز جس نے یورپ کے بعد پوری دنیا میں+
تہلکہ مچا دیا
ناول میں ایک سائنسدان فرینکنساٹئن کا ذکر ہے جو ایک نیا انسان تخلیق کرنے کی دھن میں لگا ہوا ہے اس مقصد کیلئے وہ ایک ویران جگہ پر مکان لیتا ہے اور نئے فوت شدہ انسان کے جسم کے مختلف حصے کاٹ کر اپنی تجربہ گاہ میں لاکر انھیں جوڑنا شروع کردیتا ہے کچھ ہی دنوں میں ایک +
ایسا جسم تیار ہوجاتا ہے جسکی آنکھ کسی کی تو ناک کسی کی، بازوکسی کا ہے تو انگلیاں کسی کی۔ سر کسی کا ہے تو پاؤں کسی کے
ان سب اعضاء کو وہ سوئیوں کی مدد سے جوڑتا ہے اور بالآخر بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے ان میں جان ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے
دیکھنے میں یہ انسان آٹھ فٹ کا قوی الجثہ +
نظر آتا ہے
تجربہ مکمل ہونے کے بعد فرینکسٹائن کسی کام سے شہر سے باہر جاتا ہے اور اسکا بنایا ہوا عفریت فرار ہوجاتا ہے
اس وقت تک وہ ایک خام انسان تھا جسے بولنا اور دیگر انسانوں کی طرح دوسرے کام نہیں آتے، جہاں جاتا لوگ خوفزدہ ہوکر فرار ہوجاتے اس سب سے وہ عفریت کچھ دن میں اکتا گیا +
اور تنہا محسوس کرنے لگا، کوئی نہیں تھا جو اسکی بات سمجھتا اسے یوں لگنے لگا جیسے اسکے بنانے والے نے اسے تخلیق کرکے اسکے ساتھ ظلم کیا ہے، وہ باغی ہوگیا اور اپنے خالق سے بدلہ لینے کی ٹھان لی
اس نے کئی لوگوں کو قتل کیا، ہر طرف خوف کا عالم ہوتا تھا یہاں تک کہ اس نے اپںے خالق ++
فرینکنسٹائن کو بھی بہت بیدردی سے قتل کردیا اور بالآخر مشتعل شہریوں کے ہاتھوں خود بھی مارا گیا
یہ انگریزی لٹریچر کے تاریخ ساز ناولوں میں سے ایک ہے اور اس پر کئی فلمیں بن چکی ہیں جن میں کہانی کے مختلف ویرئینٹ ہیں لیکن فرینکنسٹائن کا انجام ہر ورژن میں تقریبا ایک جیسا ہی ہے
++
ناول کا نام تھا فرینکنسٹائن کا عفریت (Frankenstine's Monster)
====
اگر اس ناول کو ہم اپنے ملک کے حالات کی نظر سے دیکھیں تو ایک اچھا بھلا ملک تھا کہ اچانک ایک احمق سائینسدان کو انوکھا تجربہ کرنے کی سوجھی، اس نے مختلف لاشوں کے ٹکڑے جمع کرکے ایک نیا انسان بنایا، غیر فطری عمل++
کے ذریعے اس میں جان ڈالی اور پھر شروع ہوگئی تباہی کی ایک نئی داستان
سائنسدان کو انکی سائینسی خدمات کی وجہ سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی اور انھوں نے بدلے میں ملک کو دی ایک ڈاکٹرائن
عین ناول کی کہانی کے مطابق عفریت نے اپنے ہی خالق کو رسوا کرکے مار ڈالا
لاشوں کے ٹکڑے مختلف++
سیاسی جماعتوں کے ارکان تھے جنھیں جوڑ کر ایک جسم بنایا گیا
سوئی دھاگے کا کام عالیہ نے کیا
سائنسدان کا نام تھا جناب ڈاکٹرائن
اور وہ عفریت تھا عمران خان
آج ملک میں خوف کا عالم ہے، سائنسدان رسوا ہوچکا اور عفریت عوام کو خوفزدہ کرتا ہوا بولایا بولایا پھر رہا ہے
اس میں عقلمندوں++
کیلئے نشانیاں ہیں کہ آئندہ غیر ضروری تجربات نہ کئے جائیں ورنہ عفریت کی تخلیق کرنے والا خالق اپنی ہی تخلیق کے ہاتھوں رسوا ہوتا ہے
بقلم #شائن_سٹائن
لنک کو کلک کریں اور پورا بلاگ پڑھیں اور فیڈ بیک دیں
ایک چور چوری کرنے کے لئے شیخ کے گھر پہنچا
شیخ صاحب گھر کے صحن ميں لیٹا تھا
چور نے اپنی چادر زمين پر بچھائی اور خود کمرے سے سامان لینے چلاگیا
شیخ صاحب نے اس کی چادر اٹھ کر چھپالی اور پھر سے سوگیا
چور آیا اس نے دیکھا چادر ھی غائب ہے...
اس نے اپنی قمیض اتار کر بچھائی اور ++
پھر اندر سے سامان لینے گیا
شیخ صاحب نے قمیض بهی اٹھاکر چھپالی
چور واپس آیاتو قمیض بهی غائب..
اب کی بار اسنے بیش بہا حوصلہ کرتے ھوئی اپنی آخری ملکیت دھوتی بهی اتار کر بچھادی اور ایک بار پھر اندر سامان لینے چلاگیا
شیخ صاحب نے دھوتی بهی اٹھالی.
اب جب وہ باہر آیاتو دھوتی بهی++
غائب تھی.
چور بنیان پہننے انتہائی بیچارگی کی حالت ميں پریشان کھڑاتھا کہ شیخ صاحب نے اٹھ کر چور چور کا شور مچادیا
چور نے انتہائی بے چارگی سے ایک تاریخی جملہ ادا کیا..
+++
ماتھا تو اس کا اسی روز ٹھنکا تھا جب اس کی دلہن نے کہا کہ صحن والا درخت کٹوا دو کیونکہ اس پر پرندے آ کر بیٹھتے ہیں جو مجھے بے حجاب دیکھ لیتے ہیں ڈرتی ہوں کہ قیامت کے دن نامحرم پرندوں کے دیکھنے کا بھی حساب نہ ہو جائے ،
.
گھر والے دلہن کی بات پر عش عش کر اٹھے
+++
انکی نیکی پرہیزگاری کی داستانیں سارے محلے کو گرویدہ بنا گئیں
کچھ دن بعد وہ پرہیزگار بیگم کسی پرانے آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی
کچھ عرصہ بعد گورنر کے گھر میں چوری ہو گئی بہت سے پیسے سونا چاندی غائب ہو گیا بہت تفتیش کی گئی لیکن مال مسروقہ برآمد نہ ہو سکا وہ نزدیکی علاقے میں مزدوری +++
کرتا تھا لہذا دوسرے مزدوروں کی طرح وہ بھی انکوائری بھگتنے کے لئے گرفتار تھا،
اس دوران اچانک کسی کی آمد کی اطلاع ہوئی اور سب لوگ احتراما کھڑے ہوگئے ،
آنے والا ایک باریش آدمی تھا پھٹے پرانے کپڑے، داڑھی بڑھی ہوئی، گلے میں مالا اور ہاتھ میں تسبیح، اللّه ھو اور یاعلی کے نعرے
+++
وہ ایک عام سا انسان تھا لیکن اسکے Ambitions بہت اونچے تھے۔ وہ کچھ منفرد کرنا چاہتا تھا۔ وہ وہ کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا جو کوئی اور حاصل نہیں کرسکا۔
اسی لگن میں اس نے مطالعہ کرنا شروع کردیا دنیا کی نامور شخصیات کا انکے حالات زندگی کا کہ کس طرح ان لوگوں نے کامیابیاں حاصل کیں
++
نامور شخصیات کی کتابیں پڑھ کر وہ اسی دنیا میں چلا جاتا اور اسے لگتا کہ ان نامور شخصیات کی طرح وہ بھی کامیاب ہوسکتا ہے
وہ خود کو انھی نامور شخصیات میں سے ایک سمجھتا تھا
کامیاب ہونے کیلئے اس نے ایک اصول بنایا کہ کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی اصول توڑا جاسکتا ہے
++
پیسہ کامیابی کی کنجی ہے، جیسے بھی حاصل ہورہا ہو حاصل کرلو
اس نے کئی سال محنت کی کامیاب ہونے کیلئے پھر سیک دن اسکی قسمت جاگی اور اسے اسکی من چاہی دنیا کی بادشاہت مل گئی
اسکی ساری لگن اسکے Ambitions کے گرد گھوم رہی تھی لیکن اسکی اپنی قابلیت کوئی نہیں تھی کیونکہ اسکی واحد قابلیت+
ناول کی ہیروئن بہت خوفزدہ تھی
دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا ہر طرف افراتفری کا عالم تھا توپوں کی گھن گرج، جنگی ہوائی جہازوں کی ریڑھ کی ہڈی کو چیر کر روح کے دھاگوں کے چیتھڑے اڑا دینے والی آوازیں
ہر شخص خوفزدہ تھا
گزشتہ روز ہی جاپانی افواج نے پرل ہاربر کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی۔
+
امریکی اپنے فوجیوں کے سوختہ لاشے اٹھانے میں مصروف تھے
ایسے میں شارلین نے فیصلہ کیا
وہ بدلہ لے گی
اگلے روز وہ صبح منہ اندھیرے اٹھی اور چرچ گئی
یسوع مسیح کو آخری سلام کیا
اور اپنے مشن پر عازمِ سفر ہوئی
جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنا تیر کمان لے کر پندرہ ہرن کا شکار کیا انھیں ذبح کیا+
کھال اتاری اور سارے گوشت کی بون لیس چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنائیں اور اسٹو بنانے کیلئے ہلکی آنچ پر چڑھا دیا۔ پھر کھیتوں میں گئی گندم کے لہلہاتے کھیتوں سے گندم کی کٹائی کی۔ اسکی تیز آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ تمام فوجیوں کیلئے ضرورت کے حساب سے چودہ بوریاں گندم کی کافی رہیں گی۔
++
پرانے وقتوں کا ذکر ہے ایک دور دراز کے ملک میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ بادشاہ بہت عیاش طبیعت اور بد نیت واقع ہوا تھا۔ بادشاہ کے ظلم سے ریاست کا کوئی مرد عورت چرند پرند محفوظ نہیں تھا اس پر طرہ یہ کہ بادشاہ اتنا شقی القلب تھا کہ آن کی آن میں پورے کے پورے گاؤں کو موت کی گھاٹ++
اتار دیتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے شکار کا قصد کیا۔ دور دراز کے ایک جنگل میں شکار کھیل رہا تھا کہ ایک نوجوان لڑکے پر نظر پڑی اور بادشاہ اپنا دل ہار گیا۔ بادشاہ نے نوجوان کو بلا کر اسکے ساتھ ع غ کیا اور اسے چلتا کیا۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ بادشاہ کو لواطت کرتے قریب ہی ایک ++
چرواہے نے دیکھ لیا۔ بادشاہ کو جونہی خیال آیا بادشاہ نے چرواہے کو پاس بلاکر پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا
چرواہا: حضور کا اقبال بلند ہو جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟
بادشاہ نے جان کی امان دی
چرواہا: بادشاہ سلامت میری گناہگار آنکھوں نے دیکھا کہ بادشاہ لونڈے باز ہے
غصے ++
سائنسی تحقیق کے مطابق کرۂ ارض کی عمر تقریباً 4.5 بلین سال ہے
تقریباً 715 ملین سال پہلے تک زمین برف میں لپٹی ہوئی ایک سفید گیند کی طرح تھی یہ زمانہ “Ice Age” کہلاتا تھا
زندگی ناپید تھی سوائے ایک چائنیز قبیلے کے
اس چائنیز قبیلے کا نام Ni Yawo Xi تھا
اس منجمد کرۂ ارض
++
پر یہ انسانی قبیلہ بہت مشکل سے گزارا کرتا تھا
اتنی سخت سردی میں ہر چیز جم جاتی تھی
یہاں تک کہ اس قبیلے کے لوگوں کی باتیں بھی جم جاتی تھیں
برف کے ٹکڑوں کی شکل میں یہ باتیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف حجم ساخت اور رنگت کی ہوتی تھیں
مثلاً محبت بھری بات گلابی رنگ
++
لڑائی جھگڑے والی بات سیاہ رنگت کی ہوتی تھیں
ایک دوسرے سے بات کرنے کیلئے ان جمی ہوئی باتوں کو چولھے پر گرم کیا جاتا تھا
چولہے کی گرمی سے بات پگھلتی تھی تب جاکر سماعت کے قابل ہوتی تھی
صدیاں بیت گئیں
قبیلہ برف کی نظر ہوگیا
آئس ایج کے بعد کی دنیا نے ترقی تو تحقیق کے
++